(دارالعلوم نیویارک کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دار العلوم نیویارک کے مختلف اجتماعات میں کئی سالوں وقتاً فوقتاً حاضری کا موقع ملتا رہتا ہے اور اساتذہ و منتظمین کے ذوق و محنت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ آج اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و انعامات میں شرکت کی توفیق دی ہے، علماء کرام، اساتذہ، طلبہ اور طلبہ و طالبات کے والدین کے اس بڑے اجتماع میں آپ حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور آپ سب حضرات کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس سال دار العلوم سے گیارہ طلبہ نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے اور آٹھ طلبہ نے درس نظامی کے نصاب کی تکمیل کی ہے جس پر آج انہیں اسناد دی جا رہی ہیں۔
ابھی آپ کے سامنے دو تین گھنٹوں سے دارالعلوم سے فیض یافتہ طلبہ اور نوجوان مختلف عنوانات پر تقاریر کر رہے تھے، چھوٹے چھوٹے بچوں نے مختلف زبانوں میں خطابات کیے ہیں، نظمیں اور نعتیں پڑھی ہیں اور اچھے انداز میں قرآن کریم کی تلاوت کی ہے جس سے ہمارے ایمان اور حوصلہ کو تازگی ملی ہے۔ میں اس سلسلہ میں آپ حضرات کو ایک سوال پر غور کی دعوت دینا چاہتا ہوں کہ یہ بچے جو پڑھ رہے تھے، بول رہے تھے اور اظہار خیال کر رہے تھے کیا یہ خود پڑھ رہے تھے یا ان کے پیچھے کوئی اور بول رہا تھا؟ میرے خیال میں ان کے پیچھے ان کے اساتذہ پڑھ رہے تھے اور مدرسہ کے منتظمین بول رہے تھے، اس لیے کہ انہوں نے ہی ان کو پڑھایا ہے اور ان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ ذوق اور تربیت دی ہے۔ اس لیے مبارکباد اور داد کے مستحق اصل میں یہ اساتذہ، والدین اور منتظمین ہیں جن کا حسنِ ذوق اور تعلیم و تربیت کی محنت ان طلبہ کی زبانوں سے بول رہی تھی، اللہ تعالیٰ ان اساتذہ و منتظمین کو جزائے خیر اور قبولیت و ثمرات سے نوازیں، آمین۔
میں اس سے آگے ایک اور سوال بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا کہ ان اساتذہ اور منتظمین کے پیچھے کون بول رہا تھا؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے پیچھے آپ سب حضرات کھڑے نظر آتے ہیں، اور وہ اصحابِ خیر دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے تعاون کیا ہے، پیسے خرچ کیے ہیں اور دارالعلوم کے انتظامات اور اخراجات میں حصہ لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’پیسہ بولتا ہے‘‘ اس محاورہ سے لوگ اپنا اپنا مطلب مراد لیتے ہیں لیکن مجھے یہاں ان تلاوت کرتے ہوئے تقریریں کرتے ہوئے اور حمد و نعت پڑھتے ہوئے بچوں کے پیچھے آپ حضرات کا پیسہ بولتا نظر آرہا ہے اور اس پر میں ایک تاریخی واقعہ آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
تابعین کے دور کے ممتاز ارباب علم میں ایک بڑا نام ’’ربیعۃ الرائے‘‘ کا ہے جو بہت بڑے محدّث تھے، فقیہ تھے اور علماء و فضلاء کی راہنمائی کا مرجع تھے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت امام مالکؒ کے اساتذہ میں سے ہیں اور ان کے علم و فضل اور کمال کے بارے میں اس حوالہ کے بعد میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ان کا نام ربیعہؒ تھا، والد محترم فروخؒ تھے۔ حضرت ربیعہؒ اپنی رائے کی پختگی اور اصابت میں اس قدر معروف تھے کہ ان کا نام ہی ’’رائے‘‘ پڑ گیا تھا۔ علم و دینی مسائل میں ان کی رائے حکمت و دانش سے پر ہوتی تھی اور عام طور پر اس قدر صائب ہوتی تھی کہ انہیں صائب الرائے کہا جانے لگا اور رائے ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ ان کے والد محترم فروخؒ مجاہد تھے اور میدان جنگ میں ہمیشہ کفار کے خلاف جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ ربیعہؒ ابھی پیدا ہوئے تھے یا پیدا ہونے والے تھے کہ حضرت فروخؒ کو جہاد کا سفر پیش آگیا، وہ اپنی جمع پونجی، جو ہزاروں دینار کی مقدار میں بتائی جاتی ہے، اہلیہ محترمہ کے حوالہ کر کے اور بچے کی دیکھ بھال کی تلقین کر کے جہاد کے لیے روانہ ہو گئے۔ خدا کی قدرت ایک جہاد کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، اور تیسرے کے بعد چوتھا، جہاد کے اس تسلسل نے اس قدر مصروف رکھا کہ فروخؒ کو کم و بیش ستائیس سال کے بعد گھر واپس آنا نصیب ہوا۔ جب وہ مدینہ منورہ میں اچانک اپنے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک وجیہ نوجوان نے دروازہ کھولا۔ فروخؒ نے ایک خوبصورت نوجوان کو اپنے گھر میں دیکھا تو اندیشوں کا شکار ہو گئے اور غصے سے بولے کہ تم میرے گھر میں کیا کر رہے ہو؟ اس نوجوان نے ایک اجنبی مرد کو گھر کے دروازے سے اندر آتے دیکھا تو وہ بھی غصے میں آگئے کہ تم میرے گھر میں کیوں گھس رہے ہو؟ دونوں باپ بیٹا تھے لیکن ایک دوسرے کو دیکھا ہوا نہیں تھا اس لیے دونوں کا غصہ بجا تھا۔ آپس میں الجھ پڑے اور اچھا خاصا جھگڑا ہو گیا، جھگڑا دیکھ کر پڑوسی آگئے، اندر سے ربیعہؒ کی والدہ نے بھی باہر جھانک کر دیکھا تو فروخؒ کو پہچان لیا اور ربیعہؒ کو آواز دی کہ یہ تمہارے والد محترم ہیں ان کو اندر آنے دو، اور فروخؒ سے کہا گیا کہ یہ آپ کا بیٹا ہے۔ اس پر دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے گلے لگ گئے، فروخؒ گھر میں داخل ہوئے، مدتوں کے بعد اہل خانہ کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی، جب دو چار روز آرام وغیرہ سے فارغ ہوئے تو فروخؒ نے اہلیہ سے اس رقم کے بارے میں پوچھا، اہلیہ نے کہا کہ وہ خزانہ مدفون ہے مناسب وقت پر ظاہر کر دوں گی۔
ربیعہؒ نوجوان تھے اور اللہ تعالیٰ نے علم و فضل کی دولت سے اس قدر نوازا تھا کہ مسجد نبویؐ میں ان کا تعلیمی حلقہ لگتا تھا اور سینکڑوں علماء و طلبہ ان سے استفادہ کرتے تھے۔ ایک دن فروخؒ مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے گئے تو نماز کے بعد مختلف تعلیمی حلقوں کو دیکھا کہ اساتذہ بیٹھے ہیں اور اردگرد طلبہ اور معتقدین کا ہجوم ہے جو ان سے فیض حاصل کر رہا تھا، وہ ان حلقوں میں سے سب سے بڑے حلقہ کی طرف بڑھے کہ شیخؒ کی زیارت کریں تو دیکھا کہ ان کا بیٹا ربیعہؒ اس حلقہ کا شیخ ہے جو علم کے پیاسوں کی تشنگی دور کر رہا ہے اور علم و فضل کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ اپنے بیٹے کی یہ قدر و منزلت دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور گھر جا کر اہلیہ کے سامنے اس خوشی اور فخر کا اظہار کیا تو اس نے موقع غنیمت جان کر خاوند سے پوچھا کہ آپ کو وہ دولت درکار ہے یا اپنے بیٹے کے اس مقام و مرتبہ کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں؟ فروخؒ نے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے کا یہ مقام اور اعزاز اس دولت سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ اہلیہؒ نے کہا کہ میں نے وہ ساری دولت اس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کی ہے اور ربیعہؒ کے اس علم و فضل اور مقام و مرتبہ کے پیچھے تمہاری وہ دولت جھلک رہی ہے جو تم میرے حوالہ کر کے گئے تھے۔ فروخؒ نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا اور اہلیہ کی تعریف کی کہ اس نے عقلمندی اور دانش سے کام لیا ہے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تعلیم و تعلم اور تدریس و تربیت میں صرف اساتذہ، منتظمین، طلبہ، طالبات اور ان کے والدین کا کردار ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ وہ معاونین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں جن کی رقم اور دولت صرف ہوتی ہے اور جو اپنے مال کے ساتھ مدارس کی معاونت کرتے ہیں۔ میں آپ دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ پیسہ تو ہر جگہ بولتا ہے، عیاشی کے گھروں میں بولتا ہے، گناہ کے مقامات پر بھی بولتا ہے، اور ظلم و نا انصافی کی شکلوں میں بھی بولتا ہے، لیکن مبارک ہے وہ پیسہ جو ان طلبہ اور طالبات کی شکل میں بول رہا ہے، تلاوت قرآن کریم کی صورت میں بول رہا ہے، حمد و نعت کے لہجے میں بول رہا ہے، اور مختلف زبانوں میں طلبہ کی تقریروں اور خطابات کی شکل میں بول رہا ہے۔
دوسری بات جو میں آج کی اس محفل میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ دینی مدارس جو آج دنیا کے مختلف حصوں میں دین کی تعلیم دے رہے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی پھیلا رہے ہیں اور آسمانی تعلیمات نسل انسانی کے سامنے پیش کر رہے ہیں، ان کے بارے میں ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم کا آج کی عملی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ انسانی معاشرہ کے مسائل سے کیا تعلق ہے؟ اور پریکٹیکل لائف میں یہ تعلیم ہمیں کس جگہ کام آتی ہے۔
ہماری عملی زندگی کے مختلف دائرے ہیں، فرد کی زندگی ہے، خاندان کی زندگی ہے، سوسائٹی کی زندگی ہے اور گلوبل انسانی معاشرہ کی زندگی ہے اور پھر ان کے بھی بیسیوں پہلو ہیں جن پر اس سوال کے جواب میں گفتگو کی ضرورت ہے اور معروضات پیش کی جا سکتی ہیں مگر وقت کا دائرہ بہت تنگ ہے، آپ حضرات تین گھنٹوں سے مسلسل بیٹھے ہوئے ہیں اور عصر کی نماز کا وقت بھی محدود ہوتا جا رہا ہے اس لیے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کر سکوں گا اور وہ فرد کے دائرے کا پہلو ہے۔ مغرب میں فرد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور جس جگہ میں بیٹھ کر ہم یہ گفتگو کر رہے ہیں یہاں کے فلسفۂ حیات کی بنیاد ’’انڈویجول ازم‘‘ یعنی فرد کی آزادی اور اہمیت پر ہے اس لیے اسی حوالہ سے ایک دو گزارشات پیش کروں گا۔
میں اس انسانی معاشرہ کا ایک فرد ہوں جس کے افراد کی تعداد اس وقت ساڑھے چھ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے ان میں سے ایک میں بھی ہوں اور اس معاشرتی اجتماعیت کی ایک اکائی ہوں، اگر ایک فرد کے طور پر اپنے مقام اور کردار کے حوالہ سے بات کروں تو مجھے سب سے پہلے اپنا تعارف درکار ہے کہ میں کون ہوں اور اس انسانی معاشرہ میں میرا مقام اور کردار کیا ہے؟ کسی بھی چیز کے مقام و کردار کا تعین کرنے سے پہلے اس کی پہچان ضروری ہوتی ہے، یہ میرے سامنے مائیک ہے جس کے ذریعہ میں آپ حضرات سے مخاطب ہوں اس کے صحیح تعارف کے لیے مجھے تین سوالوں کا جواب درکار ہے (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) یہ کیوں بنایا گیا ہے؟ (۳) اسے کس نے بنایا ہے؟
- یہ کیا ہے؟ اس میں دیکھنا ہو گا کہ یہ کس چیز سے بنا ہے، اس کا مٹیریل کیا ہے، اس میں کون کون سے پرزے ہیں، اس کا نیٹ ورک کیا ہے اور اس کا میکنزم کیا ہے؟
- یہ کیوں ہے؟ اس میں دیکھا جائے گا کہ اس کا مقصد کیا ہے، یہ کیا کام کرتا ہے اور کس غرض سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے؟
- جبکہ اسے کس نے بنایا ہے؟ اس میں یہ سوال فطری طور پر ذہن میں آتا ہے کہ یہ کون سی فرم نے بنایا ہے؟ یہ میڈ اِن چائنہ ہے، میڈ اِن جاپان ہے، میڈ اِن کوریا ہے یا میڈ اِن جرمنی ہے؟
ان تینوں سوالوں کا جواب حاصل کیے بغیر ذہن میں کسی بھی چیز کا تعارف مکمل نہیں ہوتا اور کوئی بھی اس سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ان تینوں سوالوں کا جواب مجھے اپنی پہچان کے لیے بھی درکار ہے اور ان سوالوں کا جواب حاصل کیے بغیر میں نہ خود کو پہچان سکتا ہوں اور نہ ہی انسانی معاشرہ میں اپنے مقام و کردار کا صحیح طور پر تعین کر سکتا ہوں۔
میں اس بات کے اعتراف میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا کہ ان میں ایک سوال پر آج کی سائنس خوب بحث کر رہی ہے جبکہ میڈیکل سائنس کا موضوع ہی یہ ہے کہ انسان اپنے جسم، اپنی مشینری اور اپنے مٹیریل کے حوالہ سے کیا ہے؟ انسانی باڈی میڈیکل سائنس کا سبجیکٹ ہے اور وہ اس پر ہزاروں سال سے بحث کرتی آرہی ہے کہ انسانی چمڑے کے اندر چھپی ہوئی کائنات کی اس پیچیدہ ترین مشینری میں کیا کچھ ہے؟ یہ کیسے کام کرتی ہے، اس کی ضروریات کیا ہیں اور اس کے نفع و نقصان کا دائرہ کیا ہے؟ ہزاروں میڈیکل سائنٹسٹ ہزاروں سال سے اس پر بحث کر رہے ہیں، ہزاروں لیبارٹریوں میں انسانی جسم کے اعضا کی ہزاروں بار چیر پھاڑ کی جا چکی ہے جو اَب بھی جاری ہے۔ ایک محاورہ ہمارے ہاں چلتا ہے کہ ’’بال کی کھال اتارنا‘‘۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ محاورہ کہیں اور فٹ بیٹھتا ہو یا نہیں میڈیکل سائنس پر ضرور صادق آتا ہے، اس لیے کہ ہمارے میڈیکل سائنٹسٹ نہ صرف بال کی کھال اتارتے ہیں بلکہ کھال کی بھی کھال اتار دیتے ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
یہاں ضمناً ایک اور بات بھی عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال کی اس محنت اور تگ و دو کے باوجود آج بھی دنیا بھر کے میڈیکل سائنٹسٹ اجتماعی طور پر یا کوئی سائنسدان انفرادی طور پر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس انسانی باڈی کو مکمل طور پر سمجھ لیا گیا ہے اور اب اس میں کسی اور چیز یا صلاحیت کے انکشاف کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ کیونکہ تحقیق قیامت تک چلتی رہے گی، نئی نئی باتیں سامنے آتی رہیں گی اور قیامت تک اس میں انکشافات ہوتے رہیں گے۔ اور اس پس منظر میں قرآن کریم کے اس ارشاد کا مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ’’و اِن تعدّوا نعمت اللّٰہ لا تحصوھا‘‘۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کر سکو گے۔ یہ آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ تم تو اپنے وجود کے اندر کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے، کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نعمتوں کو کیسے شمار کر سکو گے؟
لیکن اس پہلو پر مزید کسی گفتگو کی بجائے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ میڈیکل سائنس مجھے میرے بارے میں صرف ایک سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ (۱) میں کیا ہوں؟ لیکن دوسرے دو سوال کہ (۲) میں کیوں ہوں؟ (۳) اور مجھے کس نے بنایا ہے؟ اس کے بارے میں نہ صرف میڈیکل سائنس بلکہ عمومی سائنس بھی مکمل طور پر خاموش ہے۔ اور سائنس کا کوئی شعبہ سرے سے اس سوال کو ٹچ ہی نہیں کر رہا کہ انسان کو کیوں بنایا گیا ہے اور کس نے بنایا ہے؟ عجیب سی بات لگتی ہے کہ میں اپنے کرتے پر ٹانکے ہوئے ایک بٹن کے بارے میں تو جانتا ہوں کہ یہ کیوں بنایا ہے اور کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟ مگر خود اپنے بارے میں یہ دو سوال میری بحث سے خارج ہیں۔
جبکہ ان دو سوالوں کا جواب کہ مجھے کس نے بنایا ہے اور کس مقصد کے لیے بنایا ہے، مجھے وحی الٰہی میں ملتا ہے، آسمانی تعلیمات میں ملتا ہے، قرآن کریم میں ملتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ملتا ہے، اور ان باتوں کی معلومات مجھے ان مدارس کی تعلیم سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ دو سوال آج کی کسی یونیورسٹی کا سبجیکٹ نہیں ہیں، نہ آکسفورڈ کے مضامین میں یہ سوال شامل ہیں، نہ کیمبرج اس پر گفتگو کرتی ہے اور نہ ہی ہارورڈ یونیورسٹی کے مضامین کا یہ باقاعدہ حصہ ہے۔ اس لیے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی مدرسہ کی تعلیم کے بغیر تو میں اپنی پہچان اور تعارف مکمل نہیں کر سکتا، انسانی معاشرہ میں اپنے مقام اور کردار کا ادراک کس طرح حاصل کر سکتا ہوں، اور سوسائٹی میں اپنا دائرہ کار صحیح طور پر کیسے متعین کر سکتا ہوں؟
اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال ایک فرد کی حیثیت سے میری زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس کے بغیر اپنے کردار اور انسانی معاشرت میں اپنے حصے کے بارے میں میرا علم مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ ہے کہ میرا فیوچر کیا ہے اور میرا مستقبل کیا ہے؟ آج کی دنیا نے تو فیوچر دنیا کی باقی ماندہ زندگی کو قرار دے رکھا ہے، جس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ منٹوں میں ہے، گھنٹوں میں ہے، دنوں میں ہے، ہفتوں میں ہے یا سالوں میں ہے؟ یہ اَن گارنٹیڈ زندگی ہمارا فیوچر کہلاتی ہے، جبکہ اصل فیوچر کی طرف سرے سے ہماری توجہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارا مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی زندگی کا نام نہیں بلکہ اس سے آگے زندگی کے بہت سے مراحل ہیں اور بہت لمبے مراحل ہیں۔ قبر کی زندگی ہے، حشر کی زندگی ہے، پل صراط کا مرحلہ ہے اور اس سے آگے جنت اور جہنم کی اَن لمیٹڈ زندگی ہے اور زندگی کے وہ طویل ترین مراحل بھی ہمارے مستقبل کا اور ہمارے فیوچر کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے مستقبل اور فیوچر کے یہ مراحل آج کی سائنس اور تعلیم کا کس قدر حصہ ہیں؟ اور آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ سمیت دنیا کی کون سی یونیورسٹی کا یہ سبجیکٹ ہے کہ قبر کیا ہے اور اس میں انسان کے ساتھ کیا معاملات پیش آنے والے ہیں۔ اس صورتحال کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے ’’یعلمون ظاہرًا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الاٰخرۃ ھم غافلون‘‘ یہ دنیا کی ظاہری زندگی کا ہی علم رکھتے ہیں جبکہ آخرت سے وہ بے خبر اور غافل ہیں۔
مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اس دنیا کی باقی ماندہ زندگی کے لیے مجھے ضرور اسباب مہیا کرنے چاہئیں، اس کے لیے محنت کرنی چاہیے، اس کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے، لیکن اس سے آگے جو میرا اصل فیوچر ہے اور یقینی فیوچر ہے جس نے بہرحال آ کر رہنا ہے، اس کی تیاری کرنا اس کے لیے اسباب فراہم کرنا اور اس کے لیے محنت کرنا بھی میری ضرورت ہے۔ اور یہ معلوم کرنا بھی میری ضرورت ہے کہ مجھے اس زندگی سے آنکھیں بند ہونے کے بعد فنا ہو جانا ہے یا کسی اور جہاں میں منتقل ہونا ہے؟ اور اگر مجھے ایک اور جہاں میں جانا ہے اور یقیناً جانا ہے، جسے ہم آنکھیں بند ہونا کہتے ہیں، یہ حقیقت میں آنکھیں بند ہونا نہیں بلکہ ایک اور جہاں میں آنکھیں کھلنا ہے جہاں مجھے حساب کتاب کا مرحلہ پیش آئے گا، سوال جواب سے گزرنا ہو گا، الم و راحت کی کیفیات پیش آئیں گی اور سزا و جزا کا سامنا کرنا ہو گا، وہاں میرے ساتھ کیا ہونا ہے اور مجھے کیا کرنا ہے؟ اس کی تعلیم مجھے وحی الٰہی سے ملتی ہے، آسمانی تعلیمات سے ملتی ہے اور قرآن و سنت سے ملتی ہے، جس کی تعلیم یہ مدرسہ دیتا ہے اور صرف تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کا عملی ماحول بھی فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے تربیت بھی مہیا کرتا ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ میں دار العلوم نیویارک کی اس تعلیمی پیشرفت پر اور اس کی ترقی اور آج نظر آنے والے ثمرات و نتائج پر دار العلوم کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ، طالبات، ان کے والدین اور آپ سب معاونین و متعلقین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ یہ مبارک ماحول اور ثمرات آپ سب کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ سب دوستوں کو جزائے خیر سے نوازیں اور دارالعلوم اور دوسرے مدارس دینیہ کو ترقیات و ثمرات اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔