روزنامہ پاکستان نے ۳۰ ستمبر ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی کی ڈیٹ لائن سے آن لائن کے حوالہ سے ایک خبر شائع کی ہے جس کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’پاکستان ۱۹۷۰ کی دہائی میں شروع کی جانے والی غلطی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، جب اس نے مذہب کو سیاست کے ساتھ جوڑنے کے لیے مذہبی مدارس کا آغاز کیا تھا، بعض اوقات یہ مدارس انتہا پسندی کا خطرناک ذریعہ بھی بنے ہیں۔‘‘
مسٹر ٹونی بلیئر کے یہ ریمارکس پڑھ کر میرے سامنے عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار کا سارا نقشہ گھوم گیا ہے کہ عراق کو ممنوعہ ہتھیار رکھنے کے جرم میں فوج کشی کا نشانہ بنایا گیا اور اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد بڑی آسانی کے ساتھ یہ کہہ دیا گیا کہ عراق میں ممنوعہ ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی موجودگی کے بارے میں رپورٹیں درست نہیں تھیں اور فوج کشی کے دوران نہ کہیں سے ہتھیار ملے ہیں اور نہ ہی ان کی تیاری کے کوئی آثار دکھائی دیے ہیں۔
دینی مدارس کے بارے میں مغربی ممالک کے غیظ و غضب اور عالمی سطح پر دینی مدارس اور ان کے اساتذہ و طلبہ کی کردار کشی کی مہم کی صورتحال بھی کچھ اسی قسم کی نظر آرہی ہے کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور اس کے ساتھ فوج کشی کی مہم کے ایک بڑے لیڈر مسٹر ٹونی بلیئر جنہیں اس جنگ میں جارج ڈبلیو بش کے بعد دوسرے عالمی نظریاتی قائد کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور جنہوں نے عالمِ اسلام کے مختلف ممالک پر مسلط کی جانے والی اس جنگ کی عالمی سطح پر سب سے زیادہ وکالت کی ہے، ان کا ’’مبلغ علم‘‘ یہ ہے کہ دینی مدارس کا آغاز پاکستان میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہوا ہے جس کا مقصد پاکستان میں سیاست کو مذہب کے ساتھ جوڑنا تھا۔ اور وہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ پاکستان نے سیاست کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کے لیے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں دینی مدارس کا آغاز کرنے کی جو غلطی کی تھی آج وہ اس غلطی کی بھاری سزا بھگت رہا ہے۔
اس سے دینی مدارس کے خلاف مغربی لیڈروں کی مہم کی اخلاقی اور تاریخی بنیادوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی معلومات کی ثقاہت کا درجہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا ایک ابتدائی طالب علم بھی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کا آغاز ۱۹۷۰ء کی دہائی میں نہیں بلکہ اس سے ایک صدی قبل ہوگیا تھا جب برطانوی استعمار کے ہاتھوں ۱۸۵۷ء کے دوران جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کی تباہی اور زوال کے بعد تاجِ برطانیہ کی حکومت نے اس خطہ میں مسلمانوں کے صدیوں سے چلے آنے والے نظامِ تعلیم کو تہہ و بالا کر دیا تھا اور ہزاروں مدارس بند کر کے ان کے کھنڈرات پر لارڈ میکالے کے مرتب کردہ نظام تعلیم کی عمارت کھڑی کی تھی، تو مسلمانوں نے قرآن و سنت کی تعلیم اور فارسی و عربی زبان کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھنے کے لیے پرائیویٹ دینی مدارس کی شروعات کی تھیں۔ اس کے لیے پہلا باقاعدہ مدرسہ ۱۸۶۵ء میں دیوبند کے قصبہ میں بنایا گیا تھا، اس کے بعد سہارنپور، مراد آباد اور ہاٹ ہزاری (بنگلہ دیش) کے مدارس قائم ہوئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما میں دینی مدارس کا جال بچھ گیا تھا۔ ان مدارس کا نصاب عربی و فارسی کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی قائم رکھنے اور قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم کو جاری رکھنے کے مقاصد پر مشتمل تھا، جس کے ساتھ ان مدارس نے مسلمانوں کے عقیدہ و ثقافت اور روایات و اقدار کے تحفظ اور تسلسل کو بھی اپنے مقاصد کا حصہ بنا لیا تھا اور یہ صورتحال اب تک قائم ہے۔
۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا تو بھارت اور پاکستان کے طول و عرض میں ہزاروں دینی مدارس موجود تھے اور ۱۹۷۰ء کی جس دہائی کا مسٹر ٹونی بلیئر حوالہ دے رہے ہیں اس تک پہنچتے پہنچتے کئی مدارس اپنے قیام کو ایک صدی مکمل کر چکے تھے۔ خود میں نے جس دینی مدرسہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کی ہے اس کا قیام ۱۹۵۲ء میں عمل میں لایا گیا تھا اور ۱۹۷۰ء میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی مدرسہ سے میں نے سندِ فراغت حاصل کر لی تھی۔
مسٹر ٹونی بلیئر نے سیاست کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کی بات بھی خوب کہی، جس کا آغاز ان کے بقول پاکستان نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کیا تھا، اور وہ اس تاریخی حقیقت کو بھول گئے کہ پاکستان کا تو قیام ہی ۱۹۴۷ء میں سیاست اور مذہب کے جوڑ کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ اور میں اسے تاریخ میں اسلام کے ایک اعجاز اور اس کی حقانیت کی ایک زندہ دلیل کے طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ مغربی دنیا نے دو سو سال کی مسلسل تگ و دو کے بعد ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کو مذہب کے ساتھ سیاست کا جوڑ ختم کرنے کے لیے ۱۹۲۴ء میں قائل کر لیا تھا اور خلافتِ عثمانیہ کو روئے زمین کے نقشے سے مٹانے میں کامیابی حاصل کی تھی، مگر اس سے صرف ربع صدی کے بعد اسلام کے نام پر اور مذہب و سیاست کے جوڑ کی بنیاد پر ایک نئی مملکت کے طور پر پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا تھا۔ اور اس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے علی الاعلان کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر نظام نافذ ہوگا اور اس نوزائیدہ میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہوگی۔ انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد بھی گورنر جنرل کی حیثیت سے مختلف قومی اداروں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں استوار کریں اور اسلامی اصولوں کو ہر وقت سامنے رکھیں۔ پھر قائد اعظمؒ کے جانشین نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم کے دورِ حکومت میں ملک کی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر کے پاکستان کی نظریاتی حیثیت ہمیشہ کے لیے طے کر دی تھی کہ اس کی بنیاد مذہب اور سیاست کے جوڑ پر ہوگی اور اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومتی نظام استوار ہوگا۔
معلوم نہیں ۱۹۷۰ء کی دہائی کے کون سے مرحلہ کو مسٹر ٹونی بلیئر غلطی قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس دہائی میں دو بڑے مسئلے پیش آئے۔ ایک مرحلہ دستورِ پاکستان کی منظوری کا تھا کہ منتخب دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دے کر پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرے میں قانون سازی کا پابند کر دیا تھا اور اس سے ایک سال بعد ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا دستوری فیصلہ صادر کیا تھا۔ جبکہ دوسرے مرحلہ میں صدر ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کو اسلام کا نام استعمال کرنے سے قانوناً روک دینے کے علاوہ ملک میں نظامِ شریعت کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے تھے۔ مسٹر ٹونی بلیئر کو ان میں سے کسی بات پر بھی اعتراض ہو وہ اس کا حق رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے کہ ان فیصلوں اور اقدامات کا آغاز ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ کیونکہ اصل تاریخی حقیقت اور اس کا تسلسل یہ ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے اس خطہ کے مسلمانوں کی ایک صدی کی جدوجہد کارفرما تھی اور یہ اقدامات مسلمانوں کے اجتماعی جذبات اور امتِ مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کی طرف محض ایک پیش رفت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ پاکستان کی موجودہ بحرانی صورتحال کو مسٹر ٹونی بلیئر سزا سے تعبیر کر رہے ہیں، ہم ان کی اس بات سے اختلاف نہیں کرتے، مگر یہ سزا نہ تو سیاست کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کی ہے اور نہ ہی اس صورتحال کی ذمہ داری دینی مدارس پر عائد ہوتی ہے۔ بلکہ یہ سزا مسٹر ٹونی بلیئر کے ملک کی تربیت یافتہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اس جرم کی ہے کہ اس نے پاکستان کے قیام کے مقصد اور پاکستانی عوام کی امنگوں کو نظر انداز کر کے مغربی قوتوں کی پیروی کو اپنے لیے راہِ نجات سمجھا اور مسٹر ٹونی بلیئر جیسے لیڈروں کے جھوٹے وعدوں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشخص اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔