اس مرتبہ عید الاضحی کی تعطیلات بحمد اللہ تعالیٰ حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ کی فضاؤں میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دو ہفتے قبل اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کی طرف سے پیغام ملا کہ اس سال خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ تعالیٰ کی میزبانی میں حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیبوں میں آپ کا نام بھی شامل ہے، اس لیے پاسپورٹ بھجوا دیجیے۔ یہ پیشکش ایسی تھی کہ انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی چنانچہ میں حرمین شریفین کی طرف روانہ ہونے والے قافلے کا حصہ بن گیا۔ اسلام آباد سے ۱۸ ستمبر کو جدہ روانگی تھی جبکہ ۲ اکتوبر کو واپسی کا بتایا گیا۔ کم و بیش یہی دورانیہ جامعہ نصرۃ العلوم کی تعطیلات کا تھا۔
کراچی اور اسلام آباد سے اس نظم کے تحت جانے والے علماء کرام اور دیگر حضرات مکہ مکرمہ کے شاہی مہمان خانہ ’’دار بن محفوظ‘‘ میں اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے مخدوم و محترم بزرگ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر دامت برکاتہم قافلہ کی سینئر ترین بزرگ شخصیت ہیں جن کی علمی راہ نمائی اور برکات سے ہم مسلسل فیضیاب ہوتے رہے۔ جبکہ کاروان میں مولانا فضل محمد یوسف زئی، مولانا محمد طیب آف پنج پیر، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا محمد زاہد قاسمی، مولانا حافظ بدر منیر، مولانا عبد العلیم یزدانی، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا حافظ نصیر احمد نورانی، ڈاکٹر محمد الیاس، ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن، مولانا سعید سکندر، مولانا محمد طاہر مدنی، مولانا ارشد یوسف خان، جناب سیف اللہ خالد اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دیگر سرکردہ حضرات بھی شامل تھے۔
میرا اس نوعیت کا پہلا سفر تھا اس لیے میں نے اسے مکمل خاموشی کے ساتھ ’’مطالعاتی سفر‘‘ کے دائرہ میں محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ورنہ بیرونی اسفار میں وہاں کے ماحول اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے ہلکی پھلکی علمی، دینی اور فکری سرگرمیوں کے مواقع خود تلاش کیا کرتا ہوں۔ مگر اس سفر کے دوران بعض امکانات اور مواقع سامنے آنے پر بھی صرف نظر ہی سے کام لینا مناسب سمجھا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ جو ہر سال سعودی فرمانروا کی دعوت پر ان کی میزبانی میں عالم اسلام کے ہزاروں علماء کرام اور دیگر طبقات کے سرکردہ حضرات حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس سے ثمرات و فوائد کیا حاصل ہوتے ہیں؟ اور اس عمل خیر کو مقاصد و ثمرات کے حوالہ سے مزید بہتر اور مفید کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ چنانچہ دورانِ سفر میں نے جو محسوس کیا اسے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں:
- ماضی میں خلافتوں اور سلطنتوں کے مختلف ادوار میں ہمارے بہت سے حکمرانوں کا یہ ذوق رہا ہے کہ وہ اصحاب علم و دانش اور ارباب فن و حکمت کو نوازنے اور ان کی حوصلہ افزائی کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکالتے رہتے تھے۔ انہیں وظائف دیتے تھے، پروٹوکول دیتے تھے، اور مغل حکمران تو باقاعدہ جاگیریں دیا کرتے تھے تاکہ وہ معاشی طور پر پوری طرح مطمئن رہتے ہوئے اپنی علمی، فنی، فکری، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ مگر مسلم حکومتوں کا موجودہ تناظر اس قسم کے ذوق سے نہ صرف خالی نظر آتا ہے بلکہ علماء دین کے بارے میں تو حوصلہ افزائی کی بجائے کردار کشی اور حوصلہ شکنی کے رجحانات حکومتی سطح پر بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس ماحول میں اگر کوئی مسلمان حکومت کسی بھی درجہ میں علم و دانش اور فن و حکمت کے دائروں میں کسی نہ کسی سطح پر مصروف عمل حضرات کو کچھ نہ کچھ اعزاز سے نوازتی ہے تو ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘ کا احساس دلوں میں تازہ ہو جاتا ہے اور اس کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔
- عالم اسلام اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جو حالات گزشتہ دو عشروں میں پیدا کر دیے گئے ہیں، ان میں حرمین شریفین کے تقدس و مرکزیت اور اسلامی شریعت کے بارے میں سعودی عرب کی پالیسیوں کے حوالہ سے دنیا بھر کی دیگر مسلم حکومتوں کی بہ نسبت جو ترجیحی اور امتیازی ماحول دکھائی دے رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ عالم اسلام کے ارباب علم و دانش کی حمایت سعودی عرب کو حاصل ہو۔ اور یہ بات دنیا کو نظر آئے کہ ان معاملات میں سعودی حکومت تنہا نہیں ہے بلکہ اسے عالم اسلام کی دانش و حکمت کی تائید حاصل ہے۔ یہ حرمین شریفین کی حرمت و تقدس کا تقاضہ بھی ہے اور خاص طور پر اہل سنت کے مستقبل کے کردار کی ضرورت بھی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ اس کی ایک صورت ہے کہ عالم اسلام کے علماء اور ارباب دانش حرمین شریفین میں جمع ہو کر اپنی طرف سے ہم آہنگی اور یک جہتی کا اظہار کریں۔ چنانچہ خادم الحرمین الشریفین کی دعوت پر ان کا اجتماع ہم آہنگی کے اظہار کا ایک مناسب موقع ہے۔
- مختلف مسلم ممالک کے سرکردہ علماء کرام اور ارباب فکر و دانش کے درمیان اس قسم کی ملاقاتوں اور باہمی تبادلۂ خیالات کی بجائے خود ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ اس سفر میں میزبانوں کی طرف سے اس قسم کا کوئی باضابطہ اہتمام سامنے نہیں آیا ، مگر ایک دوسرے کو دیکھنا، عبادات میں اکٹھے شریک ہونا اور ایک دوسرے کا حال دریافت کر لینا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ مثلاً بھارت سے دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ مولانا مفتی محمد سلیمان بجنوری اور مولانا خضر محمد کشمیری، ندوۃ العلماء لکھنو کے مولانا نجیب الحسن ندوی اور پٹنہ کے ڈاکٹر امتیاز عالم تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ہماری ملاقاتوں اور متعدد علمی و دینی مسائل پر مشاورت یقیناً اس سفر کے اچھے ثمرات میں سے تھی۔
- ان تینوں حوالوں سے یہ سفر یقیناً بامقصد تھا اور حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ملی و دینی فوائد کا بھی حامل تھا۔ مگر میرے ذہن میں اس کا ایک اور پہلو بھی تھا جس کی کوئی عملی صورت سفر کے دوران نظر نہیں آئی۔ میرا خیال تھا کہ عالم اسلام کے مختلف حصوں سے آنے والے علماء کرام اور فکر و دانش کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کے ساتھ عالم اسلام کے مسائل بالخصوص مشرق وسطیٰ کی معروضی صورت حال کے بارے میں کسی نہ کسی سطح پر مشاورت اور انہیں سعودی پالیسیوں کے بارے میں اعتماد میں لینے کا بھی شاید کوئی موقع نکالا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ ہوا بھی ہو مگر ہم اس سے مستفید نہیں ہو سکے، جبکہ اس کی ضرورت کا احساس بہرحال موجود ہے۔
اس سفر مقدس کے بارے میں ابتدائی تاثرات میں نے پیش کیے ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں نے اس قافلہ میں شمولیت کا فیصلہ ’’مطالعاتی سفر‘‘ کے ذوق سے کیا تھا اس لیے دوران سفر ہر مرحلہ پر مطالعہ و مشاہدہ ہی مطمح نظر رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مشاہدات کے ساتھ محسوسات و تاثرات کا دائرہ بھی تنوع اور وسعت سے خالی نہیں رہا ہوگا جنہیں خود تک محدود رکھنا شاید مناسب نہ ہو، چنانچہ کوشش کروں گا کہ آئندہ چند کالموں کے ذریعہ اپنے قارئین کو بھی ان میں شریک کر سکوں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ان ابتدائی گزارشات کے ساتھ اپنی میزبانی میں حج بیت اللہ شریف کا شرف مہیا کرنے پر خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبد العزیز آل سعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اسلام، عالم اسلام اور حرمین شریفین کی بہتر سے بہتر خدمت کی توفیق سے نوازیں اور دونوں جہانوں میں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔