تعلیمی نظام اور تحریکی تقاضے

   
تاریخ: 
۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کافی عرصہ کے بعد جامعہ فریدیہ میں حاضری اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ کچھ گزارشات بھی کروں اس لیے تعمیل حکم میں چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔ جامعہ فریدیہ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں سے ہے اور مختلف حوالوں سے اپنی ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کی محنتوں کا ثمرہ اور ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ انہوں نے اور ان کے خاندان و رفقاء نے اس علمی ادارہ اور مرکز کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جامعہ فریدیہ آزمائشوں کے مختلف مراحل سے گزرا ہے۔

اس پس منظر میں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ یہاں کا تعلیمی تسلسل جاری ہے۔ طلبہ کی بڑی تعداد اور اساتذہ کی اکثریت بحرانی کیفیات سے دوچار ہونے کے باوجود مصروف تعلیم ہے، جبکہ میری طالب علمانہ رائے میں تعلیمی تسلسل کو قائم رکھنا اور نظام کو ڈسٹرب ہونے سے بچانا آج کے دور میں دینی مدارس کے لیے بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ جن لوگوں اور طبقوں کو دینی مدارس کے نظام کی بقا مسلسل پریشان کر رہی ہے ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ان مدارس کا نظام و ماحول کسی نہ کسی طرح ڈسٹرب ہو جائے اور تعلیمی و معاشرتی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ ان حالات میں ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تعلیمی نظام اور ماحول کو کسی حالت میں معطل نہ ہونے دیں۔ چنانچہ آپ حضرات نے گزشتہ کچھ عرصہ کے حالات میں تعلیمی سلسلہ کو جس صبر و حوصلہ اور حکمت کے ساتھ قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اس پر مبارکباد دیتے ہوئے اس سلسلہ میں کردار ادا کرنے والے سب احباب خصوصاً اسلام آباد کے اکابر علماء کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اس موقع پر ایک تاریخی واقعہ آپ کے گوش گزار کرانا چاہتا ہوں کہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ ۱۹۴۱ اور ۱۹۴۲ کے دوران دارالعلوم دیوبند جا کر دورۂ حدیث میں شریک ہوئے تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اکابر اساتذہ سے استفادہ کیا تھا۔ حضرت مدنیؒ تحریک آزادی کے بڑے راہنماؤں میں سے تھے، اس حوالہ سے وہ گرفتار کر لیے گئے جس پر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا اور احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو اس حد تک بڑھ گیا کہ تعلیمی نظام معطل ہو کر رہ گیا حتٰی کہ اس سال سالانہ امتحانات بھی نہیں ہو سکے تھے۔ طلبہ کی اس تحریک کی قیادت کے لیے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ طلبہ کی جو کمیٹی منتخب کی گئی اس کا سربراہ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو بنایا گیا اور انہوں نے کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس تحریک کی مختلف باتیں بیان کرتے ہوئے والد گرامیؒ نے یہ بات بتائی بلکہ اپنی یادداشتوں میں تحریر بھی فرمائی ہے کہ انہیں بزرگ اساتذہ اور علماء کرام مسلسل سمجھاتے تھے کہ احتجاج کا حق ضرور استعمال کرو لیکن اس سے تعلیمی سلسلہ اور مدرسہ کے ماحول کو متاثر نہ ہونے دو۔ انہیں اس خدشہ سے بھی آگاہ کیا گیا کہ اس طرح انگریزی حکومت کو دارالعلوم دیوبند کو بند کرنے کا بہانہ ملے گا اور یہ بہت بڑا قومی نقصان ہو گا۔ والد محترمؒ فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بات ہم پر اثرانداز نہیں ہو رہی تھی اور ہم اپنے جذبات میں مگن احتجاجی تحریک کو پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے۔ بالآخر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور جنرل سیکرٹری حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ دیوبند تشریف لائے اور کئی ملاقاتوں میں ہمیں اس بات پر قائل کیا کہ ہم تعلیمی بائیکاٹ اور احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ ختم کر دیں۔ اس حوالہ سے ہمیں ان بزرگوں نے بھی یہ فرمایا کہ احتجاج اور تحریک سے دارالعلوم دیوبند کے نظام کو ڈسٹرب نہ ہونے دو اور حکمرانوں کے لیے اس بات کا موقع اور بہانہ فراہم نہ کرو کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں۔ حضرت والد محترمؒ فرماتے تھے کہ ہمیں یہ بات سمجھانے کی ہر بزرگ نے کوشش کی کہ مدرسہ کو مدرسہ رہنے دو مورچہ میں تبدیل نہ کرو اس سے نقصان ہو گا اور یہ بات امت کے فائدہ کی نہیں ہے۔ چنانچہ ان بزرگوں کے حکم اور اصرار پر ہم نے اپنی تحریک روک دی مگر حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ اس سال دارالعلوم کے سالانہ امتحانات نہ ہو سکے اور ہمیں اگلے سال دوبارہ جا کر امتحانات میں شریک ہونا پڑا۔

اس لیے مجھے جامعہ فریدیہ کے گزشتہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کے بحال ہونے اور اساتذہ و طلبہ کے ذوق و شوق کا سلسلہ جاری رہنے پر فی الواقع بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک بات دینی تحریکات اور جدوجہد کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں خود تحریکی دنیا کا آدمی ہوں، درجنوں دینی و قومی تحریکات میں نصف صدی کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اپنے تجربات کی روشنی میں گزارش کر رہا ہوں کہ مسائل تو کھڑے ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے حوالہ سے جدوجہد کرنے کو جی چاہتا ہے اور یہ ہماری ذمہ داری بھی ہوتی ہے، اس لیے کوئی مسئلہ سامنے آنے اور اس میں حصہ لینے کو جی چاہے یا ضروری ہو تو اس کے لیے تین چار امور کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔

  • پہلے نمبر پر یہ کہ اس کے لیے کیا ہونا چاہیے؟ کیونکہ جب تک اصل ضروریات اور تقاضے سامنے نہ ہوں ہم اپنا کردار صحیح طور پر متعین نہیں کر سکتے۔
  • دوسرے نمبر پر یہ کہ معروضی حالات میں عملاً کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو ہونا چاہیے وہ ہو بھی جائے، چنانچہ ہم یہ ہونا چاہیے کے چکر میں جو ہو سکتا ہے وہ بھی نہیں کر پاتے۔
  • تیسرے نمبر پر یہ کہ جو ہو سکتا ہے میں اس کے دائرے میں کیا کر سکتا ہوں؟ اس لیے کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جو ہو سکتا ہے وہ سب کچھ میں بھی کر سکتا ہوں۔ اس لیے اپنا کردار طے کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ جو ہو سکتا ہے اس میں وہ کیا کام ہے جو میرے بس میں ہے۔
  • جبکہ چوتھے نمبر پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ میں جو کچھ کروں گا اس سے وہ کام تو ڈسٹرب نہیں ہو جائے گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ کسی کام کو آگے بڑھانے کے لیے اب تک ہونے والے کام کو داؤ پر لگا دینا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ اصل دانش و حکمت یہ ہے کہ جو موجود ہے اسے باقی اور محفوظ رکھتے ہوئے جو ہو سکتا ہے اسے کرنے کی کوشش کی جائے۔

جامعہ فریدیہ کے حوالہ سے تعلیمی اور تحریکی دونوں قسم کے سوال سامنے آتے ہیں، اس لیے میں نے دونوں کے بارے میں مختصرًا کچھ گزارشات پیش کر دی ہیں، اللہ تعالیٰ جامعہ فریدیہ سمیت ہمارے تمام دینی مدارس، مراکز اور اداروں کی حفاظت فرمائیں اور ہمیں ان کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق صحیح محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter