قائد کا تصورِ پاکستان: قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت

   
۱۹ جولائی ۲۰۰۶ء

قائد اعظم محمد علی جناحؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے وہ عظیم سیاسی رہنما ہیں جن کی کوششوں سے پاکستان کے نام پر اس وقت ایک ایسی اسلامی سلطنت وجود میں آئی، جب دنیا بھر میں ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق ختم کرنے کا سلسلہ عروج پر تھا، حتیٰ کہ اسلامی خلافت کی نمائندگی کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ بھی اپنا وجود کھو چکی تھی، اور خلافتِ عثمانیہ کے مرکز ترکی نے یورپ کی پیروی میں ریاست اور اجتماعیت کے ساتھ اسلام کا تعلق منقطع کر کے سیکولر ملک کا روپ دھار لیا تھا۔

ایسے ماحول میں مغرب کے تعلیم یافتہ ایک سوٹڈ بوٹڈ سیاسی رہنما کا اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کے قیام کی مہم چلانا اور پھر ایسی ریاست قائم کر دینا اچنبھے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی فکری رہنمائی کا کرشمہ تھا جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو اس راستے پر لگایا، اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کر کے انہیں ایک نئی سیاسی مہم کی بنیاد فراہم کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ امرِ واقعہ ہے کہ پاکستان کے فکری رہنما اصل میں علامہ اقبالؒ ہی ہیں، انہی کی سوچ اور فکر نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو اپنے لیے الگ ملک کے حصول کی جدوجہد پر آمادہ کیا۔ جبکہ قائد اعظمؒ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ان جذبات کی کامیاب سیاسی ترجمانی کی اور ایک اچھے وکیل کا کردار ادا کیا۔

لیکن کیا قائد اعظمؒ کا اسلام کے ساتھ اتنا ہی تعلق تھا اور اسلام کے حوالے سے ان کی کوئی اپنی سوچ اور جذبات نہیں تھے؟ جب ہم قائد اعظمؒ کے مختلف بیانات، تقاریر اور بہت سے اہم مواقع پر ان کی طرف سے اظہارِ خیال پر غور کرتے ہیں تو اس بات کی نفی ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسلام کے بارے میں واضح جذبات اور موقف رکھتے تھے۔ اور ایک اسلامی ریاست کے قیام اور اس میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں وہ صرف وکیل نہیں تھے بلکہ خود بھی اس سلسلہ میں یہی موقف رکھتے تھے ۔ اور انہیں اپنے دور کے عالمی ماحول میں اسلام کے بارے میں دوسری قوموں کے خیالات، خاص طور پر مغرب اور اسلام کی فکری و تہذیبی کشمکش کا پوری طرح شعور تھا۔ ہم اس سلسلہ میں ان کے چند بیانات کا حوالہ دینا چاہیں گے:

  1. مکتبہ محمود مکان نمبر ۱ رسول پورہ اسٹریٹ اچھرہ لاہور کے شائع کردہ ایک کتابچہ ’’نظریۂ پاکستان اور اسلام‘‘ کے مطابق آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ ۱۹۴۳ء سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا کہ ’’مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے، اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو برس قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔‘‘
  2. اسی کتابچہ کے مطابق مہاتما گاندھی کے نام اگست ۱۹۴۴ء کے دوران تحریر کیے گئے ایک خط میں قائد اعظمؒ نے لکھا کہ ’’قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری و تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روز مرہ امور تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک قول و فعل اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا میں جب یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور ما بعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔‘‘
  3. ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں قائد اعظمؒ نے کہا کہ ’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی مجلس تحقیق بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے لیے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے ہم گویا مسلمانوں کی حیثیت سے اپنا فرض سرانجام دیں گے، انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے کہ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے، اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔‘‘
  4. جناب محمد علی چراغ کی کتاب ’’قائد اعظمؒ کے مہ و سال‘‘ کے مطابق ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا کہ ’’اسلامی اصول و ضوابط آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو برس قبل تھے۔ اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں، ہر وہ مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے۔ اسلام میں انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مساوات، آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔‘‘

قائد اعظمؒ کی تقاریر، بیانات اور پیغامات میں سے اس نوعیت کے بیسیوں اقتباسات پیش کیے جا سکتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک وکیل کے طور پر اپنے مؤکلوں کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے بلکہ اس کامیاب وکالت میں خود ان کے اپنے جذبات اور سوچ بھی شامل تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کا تصور سطحی اور عمومی نہیں تھا بلکہ وہ اسلام کے دستوری اور معاشرتی کردار کے ساتھ ساتھ مغرب کے فکر و فلسفہ کی کجی اور دنیا پر مغرب کے معاشی نظام کے منفی اثرات سے بھی پوری طرح باخبر تھے۔

گزشتہ دنوں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سیمینار کے موقع پر ایک نوجوان نے سوال کیا کہ قائد اعظمؒ کا تصورِ اسلام کیا تھا؟ میں بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ قائد اعظمؒ یہ سمجھتے تھے کہ (۱) قانون کی حکمرانی (۲) انسانی حقوق اور (۳) جمہوریت اسلام سے متصادم نہیں ہیں اور یہی ان کا تصور ِاسلام تھا۔ میرے خیال میں یہ کہہ کر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے قائد اعظمؒ کے تصورِ اسلام کی صحیح ترجمانی کی ہے، کیونکہ ان کے بیانات، تقاریر، خطوط اور پیغامات سے یہی بات جھلکتی ہے اور اسلام کے بارے میں قائد اعظمؒ کی یہ اپروچ خلافِ واقعہ بھی نہیں:

  • قانون حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ فائنل اتھارٹی فرد کی بجائے قانون ہو، اور ملک کے تمام ادارے اور افراد کسی فرد کی بجائے قانون کے تابع ہوں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام نے ہی فرد اور شخصیت کی بجائے دلیل اور قانون کی حکمرانی کا تصور پیش کیا اور خلفائے راشدینؓ تک کو قانون کا پابند بنا کر فرد کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔
  • انسانی حقوق کا تفصیل کے ساتھ تصور بھی سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا، اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عنوان سے حقوق کا ایک متوازن نظام دنیا کو دیا جس میں تمام ضروری سیاسی، معاشرتی، معاشی اور شہری حقوق شامل ہیں۔
  • اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفۂ اول کے انتخاب میں عوام کی رائے کو بنیاد بنا کر اسلام نے دنیا کو بتا دیا کہ اس کے نزدیک آئیڈیل نظام وہی ہے جس میں حکومت کی تشکیل عوام کی مرضی سے ہو۔ اور یہ تصور پیش کرنے اور اس پر عمل کرنے میں اسلام کو مغرب پر ایک ہزار سال کی سبقت حاصل ہے۔

اس لیے اگر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے بقول قائد اعظمؒ کے تصورِ اسلام کی یہی تین بنیادیں ہیں تو اس میں کوئی بات نئی نہیں بلکہ یہ اصل میں قدیم اسلامی روایات اور تعلیمات ہی کی ترجمانی ہے۔

اس سلسلہ میں مرحوم جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) کی یادداشتوں ’’میری آخری منزل‘‘ میں درج ایک واقعہ بھی دلچسپی کا حامل ہے۔ جنرل اکبر خان مرحوم قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظمؒ کی موجودگی میں ایک فوجی تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’مارچ پاسٹ کے وقت ’’اے شاہِ برطانیہ تم سلامت رہو‘‘ کا ساز بجنے لگا۔ ان دھنوں کے بجانے کے خلاف قائد اعظمؒ نے احتجاج کیا تھا اور مجھے حکم دیا تھا کہ آئندہ کسی سرکاری دعوت یا فوجی پریڈ پر مجھے ان دھنوں کو بجا کر خوش آمدید نہ کہا جائے کیونکہ اس سے میرے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ میں نے مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی، اور اس مملکت کو پانے کے بعد ہم دعا کرتے ہیں کہ برطانیہ کا تاج ہم پر قائم و دائم رہے؟‘‘

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے جذبات کو تو قیامِ پاکستان کے بعد ’’اے شاہِ برطانیہ تم سلامت رہو‘‘ کی دھن سن کر ٹھیس لگی تھی اور اس پر ان کی طرف سے باقاعدہ احتجاج اور متبادل حکم کی نوبت بھی آئی، مگر ان کی وفات کے بعد سے ہم بحیثیت قوم نہ صرف شاہِ برطانیہ بلکہ شاہِ امریکہ کی عظمت و سلامتی کی دھن پر مسلسل رقص کیے جا رہے ہیں۔ کیا قائد اعظمؒ کے جذبات کا کوئی حصہ ہمارے دلوں کی حدود میں داخل ہونے کے لیے تھوڑی سی راہ نہیں پا سکتا؟

   
2016ء سے
Flag Counter