نئی فلپائنی صدر گلوریا ارویو کا عزم

   
مارچ ۲۰۰۱ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ فروری ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق فلپائن کی صدر گلوریا ارویو نے کہا ہے کہ وہ ملک کے جنوب میں سرگرم مسلمان علیحدگی پسند باغیوں کے خلاف فوجی کاروائیاں بند کروا رہی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ جنگ کرنے سے امن کی راہ ہموار کرنا زیادہ سستا اور مناسب عمل ہے۔

گزشتہ سال سابق صدر جوزف استرادا کے دورِ حکومت میں باغیوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کاروائی کی گئی تھی۔ فلپائن کے جنوب میں مورو کے مسلمان ایک عرصہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور فلپائن کی سرکاری فوجوں کے ساتھ ان کی جھڑپیں جاری ہیں۔ مختلف ادوار میں فلپائنی حکومت نے مسلمان مجاہدینِ آزادی کے ساتھ مذاکرات بھی کیے ہیں، اور کئی بار مسلم اکثریت کے اس خطہ کو خودمختاری دینے کی بات کی گئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کی کبھی نوبت نہیں آئی، اور مسلمانوں کی جنگِ آزادی مسلسل جاری ہے۔

اس لیے اگر فلپائن کی نئی صدر گلوریا ارویو نے مسلمان حریت پسندوں کے خلاف فوج کشی بند کر کے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے تو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے کوئی واضح امید تو وابستہ نہیں کی جا سکتی، تاہم یہ غنیمت ہے کہ مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کی اہمیت کو ایک بار محسوس کیا گیا ہے، اور ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جنوبی فلپائن میں مسلم اکثریت کے اس علاقہ کے مسلم باشندوں کو ان کی جدوجہد اور اسلامی تشخص کی منزل سے جلد از جلد ہمکنار کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter