ہمارا دینی مدارس کے طلباء کا، اسلام اسلام کا نعرہ لگانے والے کارکنوں کا، اور ایک بڑی تعداد میں اساتذہ کا بھی۔ ہمارا عام طور پر ذوق یہ ہو گیا ہے کہ جو باتیں ہم ان سے کہہ رہے ہوتے ہیں، حکمرانوں سے اور دوسرے گروپوں سے، ان کا خود ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔ ان سے تو ہم اس لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں کہ نہیں کیا تو شام تک تختہ الٹ دیں گے تمہارا۔ اور ہم سے کوئی پوچھے کہ پتہ ہے؟ تو جی وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ یہ ہمارا عمومی مزاج ہے اور اس پر میں ایک لطیفہ سنایا کرتا ہوں۔ لطیفہ خان صاحب کا ہے، کوئی خان ناراض نہ ہو، میں خود خان ہوں، میرے نام کا حصہ ہے خان۔
ایک خان صاحب بازار میں جا رہے تھے، مشترکہ ماحول تھا۔ ایک ہندو گزرتا ہوا نظر آیا خان صاحب کو۔ خان صاحب کو غصہ چڑھ گیا، کافر کا بچہ کدھر جاتا ہے؟ پکڑ لیا۔ کافر کے بچے کلمہ پڑھتے ہو یا نہیں؟ کلمہ پڑھو۔ اس نے کہا یہ مارے گا، خان صاحب! پڑھتا ہوں، پڑھاؤ۔ کافر کا بچہ خود پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں۔
ہمارا حال اسلام اسلام کہنے والوں کا، خلافتِ راشدہ کی بات کرنے والوں کا، اور ریاست مدینہ (کی بات کرنے والوں کا) ہمارا اپنا حال یہ ہے کہ کافر کا بچہ خود پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں ہے۔