ایک نومسلم آئرش بزرگ حاجی عبدالرحمٰن سے ملاقات

   
۲۲ اگست ۱۹۹۷ء

جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم میں اگر کبھی دو تین روز قیام کا موقع ملے تو میزبانی میں ایک سفید ریش بزرگ پیش پیش نظر آئیں گے۔ سرخی مائل سفید رنگت، کرتہ شلوار اور سفید عمامے کے ساتھ واسکٹ پہنے ہوئے پہلی نظر میں کوئی افغان عالم دین محسوس ہوتے ہیں لیکن وہ افغان نہیں آئرش ہیں۔ ان کا نام حاجی عبدالرحمٰن ہے اور جنوبی آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سال قبل مسلمان ہوئے اور اس کے بعد سے مسلسل دینی مطالعہ میں مصروف ہیں۔ انگلش ان کی اپنی زبان ہے، اردو پر بھی اچھا عبور رکھتے ہیں اور جامعہ الہدیٰ میں دینی نصاب کی کتابوں کا انگلش میں ترجمہ کرنے کے کام میں مگن ہیں۔ تعلیم ان کا خصوصی موضوع ہے اور کسی مہمان سے بے تکلفی ہو جائے تو تعلیمی مسائل سے ہٹ کر ایک اور موضوع کو بھی گفتگو میں شامل کر لیتے ہیں اور وہ ہے کرۂ ارضی میں خانہ کعبہ کی مرکزیت کا، جس پر وہ گلوب کی مدد سے خاصی طویل گفتگو کرتے ہیں، جو اس فن سے واقفیت نہ رکھنے والوں کے لیے تو زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں ہوتی البتہ حاجی عبدالرحمٰن خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کے موقف کو ایک اور شخص نے توجہ سے سن لیا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک مجلس میں ان سے مختلف امور پر بات چیت ہو رہی تھی کہ راقم الحروف نے ان کے قبولِ اسلام کا قصہ چھیڑ دیا اور یہ معلوم کرنا چاہا کہ ایک خالص مادہ پرستانہ ماحول میں انہیں کس بات نے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے گزرے دنوں کی طویل داستان شروع کر دی جو دو محفلوں میں مکمل ہوئی۔ یہ داستان دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے، اس لیے اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

حاجی عبدالرحمٰن اپنا سابقہ نام بتانے سے گریز کرتے ہیں، ان کے والد کا نام ڈان اوبرن ہے جو جنوبی آئرلینڈ کے ایک قانون دان تھے۔ حاجی صاحب کی ولادت ۱۹۴۷ء فروری میں ڈبلن میں ہوئی۔ ان کا خاندان کیتھولک چرچ سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈان اوبرن فارن منسٹری میں کام کرتے تھے اور انہیں مختلف مقامات پر ملازمت کے دوران قیام کا موقع ملا۔ حاجی عبدالرحمٰن نے سیکنڈری سکول تک تعلیم برطانیہ میں بلیک برن کے قریب سٹونی ہاسٹ کالج میں حاصل کی، اس کے بعد والد کے ساتھ زمبابوے چلے گئے جو ان دنوں رہوڈیشیا کے نام سے برطانوی نوآبادی تھا، اور یونیورسٹی آف نٹال (جنوبی افریقہ) میں دو سال تک آرکیٹیکٹ کے شعبہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر تعلیم چھوڑ دی۔

تعلیم حاصل کرنے کے زمانے میں اپنے ذہنی رجحانات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مذہب اور خدا کے بارے میں تصور واضح نہیں تھا، نہ اقرار کرتا تھا اور نہ ہی انکار تک نوبت پہنچتی تھی، گو مگو کی کیفیت رہی۔ ایک بار کسی نے سوال کیا کہ پادری صاحبان جو باتیں کرتے ہیں ان پر یقین رکھتے ہو؟ دل میں جواب ابھرا کہ نہیں! مگر زبان پر نہ لا سکا۔ سائنس کی تعلیم اور مذہب کی باتوں میں تضادات دیکھ کر ذہن مسلسل خلجان میں رہا۔ ایک بار ایک پادری صاحب نے بلایا اور خدا اور مذہب کے بارے میں سمجھانا چاہا، ان کی باتیں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ خدا کے وجود کے بارے میں جب بھی سوچا تو دل کے کسی کونے سے یہ آواز ضرور ابھرتی رہی کہ ’’خدا ہے‘‘ مگر اس سے آگے بات نہ بڑھ سکی۔

تعلیم چھوڑنے کے بعد ایک ڈرافٹ مین کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام شروع کیا مگر زیادہ دیر تک کام نہ کر سکا۔ ذہنی خلفشار اور بے سکونی کے باعث منشیات کا سہارا لیا۔ ابتدا ہلکی پھلکی جڑی بوٹیوں سے ہوئی جن کے استعمال سے ذہن ایک طرح کے وقتی سکون سے بہرہ ور ہوتا اور دماغ بلندیوں پر پرواز کرنے لگتا۔ خیال ہوا کہ اس طرح خدا تک پہنچا جا سکتا ہے اور اسی خیال سے اس عمل میں ترقی ہوتی گئی۔ نشہ کی عادت پختہ ہوئی تو میوزک میں بھی سکون محسوس ہونے لگا اور پھر ایک وقت آیا کہ نشہ اور میوزک ہی ساری کائنات کا حاصل معلوم ہوتا تھا اور یہ خدا تک پہنچنے کا سب سے قریبی راستہ نظر آیا۔ نشہ آور اشیا میں جڑی بوٹیوں کے بعد چرس کی نوبت آئی اور اس کے بعد انگلینڈ آ گیا جہاں ایک خاص قسم کا تیز نشہ میسر آیا جس کے استعمال سے وقت کی رفتار تبدیل ہوتی نظر آئی، ذہنی انتشار انتہا کو پہنچ گیا، قوتِ مدافعت ختم ہو گئی، جسم کھوکھلا ہو کر رہ گیا اور صحت تباہ ہو گئی۔ یہ صورتحال کم و بیش دس سال قائم رہی۔

اس دوران مختلف مذاہب کا مطالعہ کرتا رہا۔ چرچ بھی جاتا تھا، ہندو مذہب، بدھ ازم، زرتشت ازم اور وحدتِ ادیان کے تصورات کا مطالعہ کیا، مگر اسلام کے مطالعہ کی طرف کبھی طبیعت مائل نہیں ہوئی۔ اسلام کے بارے میں سن رکھا تھا کہ اس مذہب کے لوگ چور کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، کئی کئی شادیاں کرتے ہیں، اور تلوار کے زور سے دوسروں کو مسلمان بناتے ہیں۔ اس لیے اسلام کے بارے میں طبعی نفرت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے مطالعہ کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی۔ کچھ عرصہ انگلینڈ میں رہ کر پھر زمبابوے چلا گیا مگر ذہنی کیفیت وہی رہی۔ مختلف مذاہب کا لٹریچر پڑھتا اور عیسائیت کے مختلف فرقوں کے چرچوں میں جاتا لیکن جس سکون کی تلاش تھی وہ کہیں نہ ملا۔

سوچ بچار کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہا کہ ایک بار اچانک ذہن کا رخ مڑ گیا اور اسلام کے بارے میں جو اعتراضات ذہن میں تھے ان کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جوں جوں گہرائی میں جاتا گرہیں خودبخود کھلتی چلی جاتیں۔ چور کا ہاتھ کاٹنے کے بارے میں سوچا تو ذہن نے کہا کہ چوری کے قبیح جرم میں ہمارے ہاں قید کی سزا ہے جو اس کی اصلاح کرنے کی بجائے اسے پختہ چور بنا دیتی ہے ،کیونکہ جیلیں جرائم کی تربیت گاہیں ہیں اور وہاں کوئی اذیت یا تکلیف بھی نہیں ہے جس سے کسی کو خوف محسوس ہو، اس لیے چور کو جیل میں بھیج کر عادی مجرم بنانے کی بجائے ہاتھ کاٹ دینے کی سزا زیادہ قرین انصاف ہے، اس لیے کہ یہی ایک سزا ہے جس کے خوف سے لوگ چوری جیسے جرم کے قریب نہیں جائیں گے، اور اگر کسی کا ہاتھ کٹ گیا تو وہ پوری سوسائٹی کے لیے عبرت بن جائے گا۔

اسی طرح دوسری شادی کے بارے میں سوچا تو اس میں یہ حکمت نظر آئی کہ یہ تو رحمت ہے کیونکہ بیوہ عورتوں کو تو کوئی منہ نہیں لگاتا، دوسری شادی کی صورت میں ان کے لیے راستہ نکل آئے گا، اور پھر بدکاری کی بجائے آدمی دوسری شادی کر لے تو وہ زیادہ باوقار اور شریفانہ صورت ہے۔ لیکن یہ سب باتیں میرے ذہن کی پیداوار تھیں، ابھی تک میں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا تھا، محض سنی سنائی باتوں پر اسلام کے بارے میں اپنے ذہن سے سوچتا رہا اور خود ہی جواب بھی تلاش کرتا رہا۔ اس کے بعد اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو ایک فرق واضح نظر آنے لگا، وہ یہ کہ عیسائیت میں فلسفہ ہی فلسفہ ہے اور اسلام سادہ زبان میں عام آدمی کی ذہنی سطح پر بات کرتا ہے، اس لیے پوری انسانیت کا مذہب وہی سکتا ہے جو سب لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرے۔ فلسفہ تو ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنا شروع کی۔ مسلمانوں کو نماز کی حالت میں دیکھتا تو دل میں خیال آتا کہ صرف خدا کا خوف اور اس کی عظمت ہی ایک انسان کو اپنی پیشانی زمین پر رکھنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ والد صاحب نے قرآن کریم کا انگلش ترجمہ ایک دور میں لا کر دیا تھا جو کافی عرصہ سے شیلف میں پڑا تھا، اسے نکال کر دیکھنا شروع کیا۔ اب ذہن کی کیفیت یہ تھی کہ عیسائیت اور اسلام دونوں سچے مذہب ہیں، مگر اسلام فطری اور آسان مذہب ہے، جس کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ اسلام کی سچائی ذہن و قلب پر غالب آ گئی اور ۱۹۷۹ء کے دوران زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے کی ایک مسجد میں گیا اور مولوی صاحب سے کہا کہ خدا کو جس طرح آپ مانتے ہیں میں بھی مانتا ہوں، مجھے مسلمان بنا لیجیے، انہوں نے مجھے کلمہ پڑھایا اور مسلمان کر لیا۔

مگر مسلمان ہونے کے بعد پریشانی کا ایک اور دور شروع ہو گیا کہ اسلام کے احکام و عقائد کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہ ملا جو مجھے مطمئن کر سکتا ہو۔ کئی مسجدوں میں گیا، ایک مدرسہ میں کچھ عربی سیکھی لیکن یہ احساس رہا کہ مجھے تعلیمی طور پر جو توجہ ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی حتیٰ کہ میرا دل اچاٹ ہونے لگا۔ اس دوران زمبابوے کی مرکزی مسجد میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب ملے جن کا نام قاری محمد عثمان تھا اور بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے، وہ اب فوت ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، وہ انگریزی نہیں جانتے تھے بلکہ انگریزی سے نفرت کرتے تھے، لیکن میرے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ تھا اور اشارات و کنایات میں انہوں نے مجھے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سمجھا دیا۔ وہ اپنی گفتگو میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کا ذکر کثرت سے کرتے تھے جس کی وجہ سے میں علمائے دیوبند سے مانوس ہوا۔ ۱۹۸۱ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا دہلویؒ جنوبی افریقہ آئے اور رمضان المبارک میں وہاں اعتکاف کیا، ان کے ساتھ پانچ سو علمائے کرام اعتکاف میں تھے، میں نے بھی وہیں اعتکاف کیا، عجیب روحانی فضا تھی، دل نے زندگی میں پہلی بار حقیقی اطمینان محسوس کیا اور دین کی حقیقت بھی سمجھ میں آنے لگی۔ حضرت شیخ الحدیثؒ سے بیعت بھی ہو گیا اور اس کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق ہوا، ایک چلہ لگایا، دس روز کا وقت تو کئی بار لگایا، اسی دوران اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق بھی عطا کر دی اور اب جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم میں دینی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔

حاجی عبدالرحمٰن نے اپنے قبولِ اسلام کا قصہ مکمل کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ مغربی ممالک میں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں انہیں قبولِ اسلام کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس سلسلہ میں مسلمان اداروں کو کیا رول کرنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک نومسلم کو اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے زیادہ مشکل یہی پیش آتی ہے کہ اسلام کے عقائد و احکام کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ اول تو بنیادی معلومات مہیا کرنے والا کوئی نہیں ملتا، اور اگر کسی مسجد یا مدرسہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو وہاں بنیادی مسائل کی بجائے فروعی اور اختلافی امور پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نومسلم کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ نومسلموں کو سادہ اور عام فہم انداز میں اسلامی عقائد و احکام کے بارے میں معلومات مہیا کی جائیں، اور انہیں اختلافی اور فلسفیانہ بحثوں میں الجھانے کی بجائے اعمال کی تربیت دی جائے، کیونکہ جوں جوں وہ عمل میں پختہ ہو گا اس میں مضبوطی آئے گی اور پھر وہ فروعی اور اختلافی امور کو سمجھنے کے قابل بھی ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ نومسلموں کو ایسے کاموں میں لگایا جائے جس میں انہیں روحانی فرحت محسوس ہو مثلاً خدمتِ خلق کے کام، رفاہِ عامہ کے کام اور دکھی انسانیت، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کے کام۔ ان کاموں میں وہ دلچسپی لیں گے اور روحانی ترقی حاصل کریں گے جو اسلام میں ان کی پختگی کا ذریعہ بنے گی۔

حاجی عبدالرحمٰن پاکستان جانے اور وہاں کے دینی مدارس میں مزید تعلیم کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن اس کے لیے مناسب وقت اور وسائل کے انتظار میں ہیں۔ پاکستان کے دینی اداروں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ مغرب میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کی طرف توجہ دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter