سہ روزہ دعوت دہلی نے ۴ دسمبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ممالک کے دانشوروں میں اسلامی شریعت کی ضرورت و افادیت پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے قلم سے اسلامی شریعت کی خوبیاں مسلسل اجاگر ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عالمی سر براہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کے اس لیکچر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کے اس حق کی حمایت کی ہے کہ انہیں اپنے نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے خاندانی تنازعات میں شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرانے کا حق دیا جائے۔ اسی طرح امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر فلڈمین (Noah Feldman) کے ایک مقالہ کا بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے ’’شریعت کیوں؟‘‘ (why shariah) کے عنوان سے شریعت اسلامیہ کی افادیت و ضرورت کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:
’’اسلامی شریعت محض شادی بیاہ کے معاملات یا طرح طرح کی سخت سزائیں دینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ریاست کے بنیادی قانون اور دستور کی حیثیت رکھتی ہے جو اس ریاست کے باشندوں کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ ان کے جان و مال کی مکمل حفاظت کی جائے گی، انہیں حکومت وقت یا کسی کی طرف سے بھی ظلم و ستم یا زیادتی کا شکار ہونے نہیں دیا جائے گا اور انہیں بے لاگ عدل و انصاف فراہم کیا جائے گا‘‘۔
پروفیسر فلڈمین کا کہنا ہے کہ:
’’درحقیقت عالمی تاریخ میں اسلامی قانون سے بہتر، معتدل، کشادہ دلی اور انسان دوستی پر مبنی قانونی اصول کہیں نہیں پائے جاتے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کے لوگوں کو اپنے نظام کی خرابیوں کو چھپانے کے لیے اس سازش کی ضرورت تھی کہ وہ اسلام اور اسلامی شریعت کو ایک دہشت چیز بنا کر دنیا کو دکھائیں تاکہ لوگ اسلام کو برا اور مغربی دنیا کو اچھا سمجھنے لگیں۔‘‘
امریکی پروفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
’’موجودہ دور میں اسلامی سیاست میں جہاں کہیں بھی نفاذ شریعت کی بات کی جاتی ہے اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ عورتیں حجاب یا پردہ کریں یا یہ کہ شرعی سزاؤں اور کوڑے مارنے کے عمل کو زندہ کیا جائے بلکہ اس میں اسلامی ریاست کے بنیادی قانون اور دستوری نوعیت کا ایک انتہائی ضروری اور ناگزیر پہلو بھی شامل ہے وہ یہ کہ عام قانون پر شریعت کو اسلامی ریاست کے ملکی دستور کے طور پر بالا رکھا جائے۔ اس کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا جواب روایتی اسلامی حکومت کے ایک ایسے پہلو میں مضمر ہے جس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک نفاذ شریعت کے تحت چلنے والی ساری حکومتیں گویا قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔‘‘
یہ خیالات ایک مغربی دانشور کے ہیں جو امریکہ کی معروف یونیورسٹی میں قانون کا استاذ ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی دانش گاہوں میں اسلامی شریعت پر کس انداز سے غور و خوض ہو رہا ہے اور اس سے ان سیکولر لابیوں کی جھنجھلاہٹ کے اسباب کو بھی بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جو اسلامی شریعت کا راستہ روکنے میں ناکامی پر مسلسل پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔