(کل جماعتی ختم نبوت و استحکام پاکستان سیمینار سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیت علماء اسلام کامونکی اور حافظ محمد نعیم قادری کا شکر گزار ہوں کہ عقیدۂ ختم نبوت اور استحکام پاکستان کے حوالے سے منعقد ہونے والے اس کل جماعتی اجتماع میں شرکت کا موقع عنایت کیا اور مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات کو اس موقع پر جمع کرنے کا اہتمام کیا۔
عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مختصراً یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ہمارے عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت کے اظہار کا عنوان ہے۔ بلکہ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت اور محبت کے اظہار کا سب سے بڑا عنوان ہی یہ ہے کہ کوئی مسلمان عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہے اور اس کے لیے کیا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہماری وحدت کی علامت بھی ہے کہ ہمارے درمیان جس درجہ اور نوعیت کے اختلافات بھی ہوں، عقیدۂ ختم نبوت پر پوری امت متحد ہو جاتی ہے اور سارے جھگڑے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ قرآن کریم، جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی، خانہ کعبہ اور عقیدۂ ختم نبوت ایسے عنوانات ہیں جو امت کی وحدت و اجتماعیت کا عنوان بن جاتے ہیں اور مسلم اُمہ ان حوالوں سے ہر وقت متحد دکھائی دیتی ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے جدوجہد ہم میں سے ہر ایک کے اکابر کا ورثہ ہے۔ علمی دنیا میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی جدوجہد کا تسلسل لے کر ہم آگے بڑھ رہے ہیں، جبکہ تحریکی دنیا میں ضلع گوجرانوالہ کے حوالہ سے عرض کروں گا کہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ اور حضرت مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ ہمارے اکابر رہے ہیں اور کامونکی میں بھی ہمارے بزرگ مولانا حافظ عبد الشکورؒ، مولانا عبد الغنی شاہؒ اور حاجی عبد اللطیف چشتیؒ مشترکہ طور پر اس تحریک کی قیادت کرتے رہے ہیں، چنانچہ ہم ان سب بزرگوں کی محنت اور جدوجہد کے وارث ہیں۔
عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں جدوجہد کی تازہ صورت حال کی طرف آپ دوستوں کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ اب اس سلسلہ پر ایک بار پھر بین الاقوامی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا دور چل پڑا ہے، جس کا ہم سب کو نوٹس لینا چاہیے۔ گزشتہ دنوں امریکا کے صدر ٹرمپ کے سامنے ایک قادیانی وفد نے یہ شکایت پیش کی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو مسلمان شمار نہیں کیا جاتا۔ یہ بات اپنی جگہ غور طلب ہے کہ امریکا کے صدر کا اس سلسلہ/ مسئلہ سے کیا تعلق ہے اور کیا انہوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس ملک میں کس شخص یا گروہ کو مسلمان سمجھنا چاہیے، وہ تو کسی شخص کو مسیحی یا غیر مسیحی قرار دینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ کیتھولک مسیحیوں میں یہ اتھارٹی صرف پاپائے روم کو حاصل ہے تو کسی فرد یا جماعت کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ امریکی صدر کیسے کر سکتے ہیں؟ لیکن بہرحال یہ بات ان کے سامنے پیش کی گئی ہے، جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قادیانی گروہ اس مسئلہ پر کہاں کہاں متحرک ہے۔
اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں بھی قادیانیوں کا مسئلہ ایک کمیٹی کے ہاں زیر بحث ہے، جس میں یہ سفارش بھی شامل ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے بارے میں دستور و قانون کی دفعات کو تبدیل کرایا جائے۔ میں نے اس سلسلہ میں پاکستان کی وفاقی وزارت مذہبی امور سے باقاعدہ درخواست کر رکھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کیس کو کھلا نہ چھوڑا جائے، بلکہ اس کی پیروی کے لیے پاکستان کے سرکردہ علماء کرام اور ماہرینِ قانون کا باقاعدہ وفد بھیجا جائے۔ اس لیے کہ ہم ۱۹۸۵ء میں پہلے بھی دھوکہ کھا چکے ہیں کہ قادیانیوں نے جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن میں درخواست دائر کی تھی کہ پاکستان میں ان کے شہری اور مذہبی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں اور اس وقت کمیشن کے سامنے پاکستان کی طرف سے ان کے سفیر مسٹر منصور احمد پیش ہوئے تھے جو خود قادیانی تھے، چنانچہ کمیشن نے یکطرفہ فیصلہ صادر کر دیا تھا، جو اس وقت سے اب تک مسلسل بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم سب کو مل کر حکومت پر زور دینا چاہیے کہ اقوام متحدہ میں عقیدۂ ختم نبوت اور اس کے حوالے سے پاکستان کے دستور و قانون کی دفعات کے تحفظ کا کیس لڑنے کے لیے باقاعدہ اہتمام ضروری ہے، تاکہ ۱۹۸۵ء کی طرح اب بھی کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ سامنے آ جائے۔
جہاں تک استحکامِ پاکستان اور مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے پاکستان کی سالمیت اور اس کی ایک ایک انچ زمین کی حفاظت ہمارا ملی فریضہ ہے اور ایمانی تقاضہ ہے اور وطن عزیز کے دفاع و استحکام کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے دفاع کا نہیں، بلکہ اس کی تکمیل کا مسئلہ ہے، کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہوگا اور ہمیں ملک کے دفاع کے ساتھ اسے مکمل بھی کرنا ہے جو مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا لینے سے ہی مکمل ہوگا۔
اس سلسلہ میں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک کا تحفظ تو دفاع کو مستحکم کرنے سے ہوتا ہے جو ہماری ذمہ داری ہے، لیکن اس ملک کی تکمیل صرف دفاع سے نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے اقدام کی ضرورت ہے، کیونکہ اقدام کے بغیر کسی چیز کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے حکمرانوں کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ آزاد کشمیر پر حملہ ہوا تو اس کا پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو غاصبانہ قبضہ سے کس نے چھڑانا ہے اور وہاں بھارتی جارحیت اور جبر و تشدد کا شکار ہونے والے مظلوم و بے بس عوام کو وحشت و درندگی سے نجات دلانا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ ہے تو اسے حصہ بنانا ہماری ذمہ داری ہے اور اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام ہمارے پاکستانی بھائی ہیں تو انہیں جبر و ظلم سے نجات دلانا بھی ہمارا فریضہ ہے اور یہ دونوں کام صرف دفاع سے نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے اقدام کی ضرورت ہوگی اور ہمیں بالآخر یہ کام کرنا ہوگا اور اس کی شرعی صورت جہاد ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ میں آج کے اس کل جماعتی اجتماع سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ کی طرف سے ملک کے حکمرانوں اور دینی و سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ کشمیر کا مسئلہ اور ختم نبوت کا مسئلہ دونوں ہمارے قومی مسئلے ہیں، یہ نہ حکومت کا مسئلہ ہے اور نہ اپوزیشن کا مسئلہ ہے۔ ان دونوں قومی مسئلوں کو قومی سطح پر قومی انداز میں ڈیل کرنے کی ضرورت ہے اور ہم سب کو اس کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔