تحفظ ناموس رسالتؐ قانون اور سینٹ آف پاکستان

   
فروری ۲۰۱۷ء

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ان دنوں پھر حکومتی ایوانوں میں زیر بحث ہے اور اس میں مختلف ترامیم کے حوالہ سے تجاویز پر بات ہو رہی ہے۔ سینٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کی روک تھام کے عنوان سے اس کا از سرِ نو جائزہ لے رہی ہے۔ اس لیے مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کے مشترکہ عملی فورم ’’ملّی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے اس کے متعلقہ ضروری پہلوؤں پر تفصیلی غور کیا ہے اور مجلس کے مرکزی راہ نماؤں کی طرف سے جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے ، ایک جائزہ رپورٹ سینٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی کو محترم سنیٹرفرحت اللہ بابر کی وساطت سے بھجوائی ہے جو قارئین کے مطالعہ کیلئے پیش خدمت ہے۔

روزنامہ جنگ کی اشاعت مؤرخہ ۱۳ جنوری ۲۰۱۷ء کی وساطت سے معلوم ہوا کہ سینیٹ پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی روک تھام کیلئے چوبیس سالہ پرانی تجاویز پر غوروفکر کرنے لگی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس قانون کے تحت جھوٹے مقدمات کی روک تھام کیلئے غور و فکر کیا جائے اور اگر ضروری سمجھا جائے تو ضوابطی قوانین (Procedural laws)میں تبدیلیاں بھی لائی جائیں لیکن اس سے قبل یہ جائزہ ضرور لیا جائے کہ جھوٹے مدعیان سے نمٹنے کیلئے مروجہ قوانین میں پہلے سے ہی گنجائش موجود ہے۔

اس ضمن میں مقدمے کے مختلف مراحل پر اس کا جھوٹا ثابت ہونے پر تعزیرات پاکستان کی دفعات۱۸۲، ۱۹۱، ۱۹۲،۱۹۴، ۲۰۳ اور ۲۱۱ کے تحت جھوٹے مدعی کے خلاف مناسب اور مؤثر کاروائی کی جا سکتی ہے۔ آپ بھی ان دفعات کا اچھی طرح جائزہ لے لیں۔ یہ بات بھی قائمہ کمیٹی کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس سے قبل تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ضوابطی قوانین میں پہلے بھی ترمیم کی جا چکی ہے جس کی رو سے (c)۲۹۵ کے تحت درج ہونے والے ایف۔آئی۔آر کی تفتیش سپریٹنڈنٹ پولیس سے کم سطح کا آفیسر نہیں کر سکتا۔ اس ترمیم کے مثبت اثرات عیاں ہیں کیونکہ دوران تفتیش ملزمان کی کثیر تعداد کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے اور بالعموم انہی ملزموں کے چالان عدالت میں بھجوائے جاتے ہیں جنہوں نے فی الواقع یہ جرم کیا ہوتا ہے۔

مزید بہتری لانے کیلئے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ توہین رسالت کے وقوعہ کے بعد بھی جو بھی درخواست برائے اندراج مقدمہ متعلقہ تھانہ میں آئے تو ملزم کو پولیس بلاتردد اپنی حفاظت میں لے لے لیکن ایف۔آئی۔آر کا اندراج نہ کرے اور معاملہ کی شرعی حیثیت کی جانچ کیلئے سرکاری سطح پر تمام مسالک کے جید علماء پر مشتمل ایک مستقل بورڈ بنادیا جائے۔ متعلقہ تھانیدار پابند ہو کہ وہ یہ معاملہ اس بورڈ تک ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر پہنچا دے۔ بورڈ سات یوم کے اندر اندر شرعی اعتبار سے معاملہ کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ واپس تھانے دار کو بھجوا دے۔ بورڈ اندراج مقدمہ کی سفارش کرے تو ملزم کے خلاف ایف۔ آئی۔آر درج کر لی جائے ورنہ اسے باعزت طو رپر چھوڑ دیا جائے۔ اس صورت میں جھوٹے مدعیان و گواہان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۸۲ کے تحت کاروائی کی گنجائش پہلے ہی قانون میں موجود ہے۔ مجوزہ انتظام کو قانونی شکل دینے سے جھوٹے مقدمات پر قابو پا نا یقینی اور سہل ہو سکتا ہے۔

آ پ کے اخباری بیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ سینیٹ پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق اس تجویز پر بھی غور کرے گی کہ ۲۹۵.cکے تحت سزا کو کم کر کے سزائے موت کی بجائے عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے۔

ہماری گزارش ہے کہ اس پر غور و فکر مندرجہ ذیل وجوہ کی بناپر سعی لاحاصل ثابت ہو گا۔

  1. ۱۹۹۱ ء تک ۲۹۵(c) میں متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ موجود تھے۔طویل قانونی جد و جہد کے بعد بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی متبادل سزا کو غیر اسلامی قرار دے دیا اور حکومت پاکستان کو حکم دیا گیا کہ وہ ۳۰اپریل ۱۹۹۱ء تک عمر قید کی سزا کو ۲۹۵(c) کے متن میں سے حذف کر دے۔ حکومت نے ابتداً اس فیصلے کے خلاف شریعت اپیل نمبر ۵ کے تحت پیٹیشن نمبر ۱ کی رو سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل دائر کر دی لیکن موجودہ وزیر اعظم میاں نوا ز شریف جو اس وقت بھی وزیر اعظم تھے انہوں نے یہ اپیل واپس لے لی۔
    اسی طرح دوسری اپیل وفاقی شرعی عدالت میں پیٹیشن نمبر ۴۳/۱ آف ۱۹۹۳ء کے تحت علامہ بشپ دانی ایل تسلیم نے دائر کی جس میں وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ یہ فیصلہ اسلام کے احکام کے منافی ہے۔چنانچہ اسے جسٹس ڈاکٹر فدا محمد کی سربراہی میں فل بینچ نے سنا اور ۸جنوری ۱۹۹۴ء کو اس پٹیشن کو بھی خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ علامہ بشپ دانی ایل تسلیم نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بینچ میں ۱۹۹۴ء میں اپیل نمبر ۲دائر کی جسے فل کورٹ نے عدم پیروی کی بنیاد پر مؤرخہ ۲۱ اپریل ۲۰۰۹ء کو خارج کر دیا اور یوں یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے طے پا گیا کہ پاکستان میں نافذ العمل قانون ۲۹۵(c) کے تحت کتاب و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا صرف اور صرف موت ہو گی۔
    یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان فیصلوں کے بعد بھی تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵(c) میں سے متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ حذف نہ کئے گئے جس پر فیڈرل شریعت کورٹ میں پٹیشن نمبر ۰۸/۰۱/۲۰۰۷ اور ۰۹/۰۱/۲۰۱۰ دائر کی گئیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے ۳۰ اپریل ۱۹۹۱ء کے فیصلے بعد تعزیرات پاکستان کی ۲۹۵کے متن سے متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ حذف کرنے کے احکام جاری کیے جائیں۔ چنانچہ مؤرخہ ۴اکتوبر ۲۰۱۳ء کو وفاقی حکومت نے سیکرٹری لا، جسٹس اینڈ ہیومین رائٹس کے ذریعے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ اگست ۱۹۹۱ء میں سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے ذریعے ۲۹۵(c) تعزیرات پاکستان میں سے عمر قید کی سزا کے الفاظ حذف کرنے کی بات کی گئی تھی۔ سینیٹ نے یہ بل منظورکر لیا تھا اور پھر اسے قومی اسمبلی کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی نے اسے ۹۰ دن کے ندر منظور نہ کیا۔ اس کے باوجود آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰۳(d) کی دفعہ ۳ کے پیرا گراف (ط) کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر ۲۹۵(c) سے سزائے عمر قید کے الفاظ حذف کرنے کی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے۔
    عدالت نے اپیل کنندہ کے وکیل کو بھی سنا اور اس کے بعد سیکرٹری منیسٹری آف لا، جسٹس اور ہیومین رائٹس کو ہدایت جاری کی کہ وہ زیر بحث فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدام کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سزائے عمر قید کے الفاظ ۲۹۵(c) تعزیرات پاکستان کے متن سے حذف کر دیے جائیں اور تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار حضرات کو ہدایت کی جائے کہ وہ اسے تمام جوڈیشنل آفیسر ز تک پہنچا دیں۔ یہ فیصلہ ۴ دسمبر ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا اور PLD.۲۰۱۴شریعت کورٹ ۱۸کے تحت والیم L.xvi کے صفحات ۱۸ تا ۲۳پر درج ہے۔ قدرے تفصیل کے ساتھ اس قانون کی تاریخ قلمبند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو واضح ہو جائے کہ ۲۹۵(c) میں سے متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ حذف کروانے کیلئے کن کن مراحل سے گزارا گیا۔ اب اگر قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق دوبارہ اسی سزا پر غور کرتی ہے جسے ملک کے اعلیٰ ترین عدالت اور خود سینیٹ جیسے ادارے نے بھی مسترد کرتے ہوئے ۲۹۵(c) میں سے سزائے عمر قید کو حذف کرنے کا فیصلہ دیا ہوا ہے تو یہ نہ صرف سعی لاحاصل ہو گی بلکہ یہ ایک طرح سے ہمارے ہاں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا مذاق اڑانے کے مترادف بھی ہو گا۔
  2. توہین رسالت کی شرعی سزا صرف اور صرف موت ہے، اس پر قرآن حکیم کی درجنوں نصوص ، احادیث مبارکہ اور خود حضورؐ کے متعدد فیصلے شاہد ہیں جن کا احاطہ تفصیل کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ۱۹۹۱ء کے فیصلے میں کر دیا ہے۔
  3. اسی سزا پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تعامل رہا اور ائمہ مجتہدین نے اسے اختیار کیا بلکہ اہل علم نے اسی پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔
  4. یہ نازک اور حساس معاملہ ہے جس کا براہ راست تعلق امت کے جذبات کے ساتھ ہے۔ ماضی میں اس قانون کو ختم کرانے کے حوالہ سے جو بھی کوششیں کی گئیں وہ کامیاب تو نہ ہو سکیں لیکن ملک میں امن و امان ختم کرنے اور فساد پھیلانے کا سبب ضرور بنیں۔اندریں حالات ملی مجلس شرعی کے علماء آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ Substantive lawیعنی ۲۹۵(c) میں کسی قسم کی ترمیم خصوصاً اس کی سزا کم تر کرنا شرعی ، قانونی اور آئینی طور پر ایک درست اقدام نہیں ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اس سے ملک کا امن و امان ایک دفعہ پھر خراب ہو جائے گا۔ ویسے بھی جھوٹے مقدموں کا خاتمہ Procedural lawsیعنی ضوابطی قوانین میں بہتری لانے سے تو ہو سکتا ہے لیکن سزا کی کمی بیشی سے نہیں اور نہ ہی جھوٹے مقدمات کا تعلق سزا کی مقدار اور Substantive law سے بنتا ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter