حضرت امام حسنؓ کا اندازِ اصلاح

   
مدرسہ طیبہ، مسجد خورشید، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
یکم ستمبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ایک دوسرے کو دین کی بات سمجھانا، معلومات میں اضافہ کرنا، اور اگر کہیں کوتاہی نظر آ رہی ہو تو اس سے آگاہ کرنا، یہ ہماری آپس کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے جو باہمی حقوق بیان کیے ہیں، ان میں سے یہ بھی ہے کہ دین کی جو بات علم میں آئے وہ دوسروں کو بھی بتاؤ اور اگر کہیں کوتاہی نظر آئے تو اس سے آگاہ کرو اور سمجھاؤ۔

البتہ سمجھانے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اس پر ایک واقعہ عرض کروں گا کہ سمجھانے کا انداز ایسا نہیں کہ جیسے میرا جی چاہے گا میں سمجھا دوں گا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ ایک بزرگ کو دیکھا جو وضو کر رہے تھے لیکن صحیح نہیں کر رہے تھے۔ دیکھتے رہے کہ بابا جی نے وضو صحیح نہیں کیا۔ اب وہ باباجی ہیں اور یہ نوجوان ہیں۔ ایک تو ان کو بتانا ہے کہ آپ نے وضو صحیح نہیں کیا، اور دوسرا سمجھانا ہے کہ وضو صحیح اس طرح ہوتا ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہے۔

ایک طریقہ تو ہمارا ہوتا ہے کہ ’’بابا بوڑھا ہو گیا ہے وضو کرنا نہیں آیا‘‘ یعنی طعنہ دے کر بات کرنا۔ لیکن یہ حضرت حسنؓ ہیں، حضورؓ کے نواسے ہیں، سوچا کہ میں کیسے سمجھاؤں۔ کہنے لگے کہ باباجی، میں آپ کے سامنے وضو کرتا ہوں، مجھے وضو کرتا دیکھیں اور کہیں کوئی غلطی ہو تو بتا دینا۔ وضو کیا تو باباجی نے کہا کہ بیٹا، مجھے سمجھ آ گئی ہے، تمہارا وضو صحیح ہے، میرا صحیح نہیں تھا۔

ایک سمجھانے کا طریقہ یہ ہے، اور بڑوں کو سمجھانے کا یہی طریقہ صحیح ہے۔ یہ بھی ایک ادب ہے کہ بڑوں سے بات کرنی ہے تو کیسے کرنی ہے۔ طعنہ نہیں دینا اور توہین نہیں کرنی۔ بات سمجھانے کا سلیقہ ہونا چاہیے، اور بطور خاص بڑوں سے بات کرنے کا کہ اہانت نہ ہو اور ہتک نہ ہو، سلیقے سے بات سمجھا دی جائے۔ حضرت حسنؓ نے کیا خوبصورت طریقہ اختیار کیا کہ باباجی میں وضو کرتا ہوں آپ کے سامنے، آپ میرے وضو کو دیکھیں اور کہیں کوئی غلطی ہو تو بتا دیں۔ سامنے بیٹھ کر وضو کیا، جب مکمل ہوا تو باباجی نے کہا بیٹا وضو تمہارا ٹھیک ہے، میرے غلط تھا، ان شاء اللہ ٹھیک کر لوں گا۔

ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ اکثر یہ سمجھاتے تھے کہ دیکھو کسی سے بات کرنی ہے تو اس کو یہ محسوس ہو کہ یہ میری خیرخواہی میں بات کر رہا ہے اور مجھے سمجھا رہا ہے، تو وہ آپ کی بات سن لے گا۔ اور اگر کسی سے آپ بہت اچھی بات کر رہے ہیں لیکن طعنے کے انداز میں کر رہے ہیں تو وہ نہیں سنے گا کہ یہ میری توہین کر رہا ہے۔ آج کے سبق میں بھی یہ بات تھی کہ ’’الدین النصیحۃ‘‘۔ والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی بات سننے والے کو یہ محسوس ہو جائے کہ یہ میری ہمدردی میں بات کر رہا ہے تو وہ آپ کی سخت بات بھی سنے گا، اور اگر اسے اندازہ ہو جائے کہ یہ مجھے طعنہ دے رہا ہے تو وہ آپ کی صحیح بات بھی نہیں سنے گا۔

اس لیے بات سمجھانی چاہیے لیکن ایسے سلیقے سے کہ کوئی ہتک محسوس نہ کرے، توہین محسوس نہ کرے، اور یہ سمجھے کہ یہ خیرخواہی سے بات کر رہا ہے، تو وہ ان شاء اللہ سمجھے گا۔ چنانچہ بات سمجھانا بھی ضروری ہے اور بات سمجھانے کے لیے اچھا لہجہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔

2016ء سے
Flag Counter