مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال

   
۲ مئی ۲۰۱۷ء

سودی نظام کے خاتمہ کی بحث ابھی تک جاری ہے اور وفاقی شرعی عدالت حالات کے مختلف ہونے کے بہانے سودی نظام کے خاتمہ کے مقدمہ کو غیر متعینہ عرصہ کے لیے ملتوی کر چکی ہے۔ مگر اس حوالہ سے اب سے ربع صدی قبل کی صورتحال میں اس وقت کے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب غلام اسحاق خان مرحوم کے نام ایک مکتوب ملاحظہ فرمائیے جو راقم الحروف نے انہیں ’’کھلے خط‘‘ کی صورت میں ارسال کیا تھا۔ یہ خط ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔

’’بسم اللہ الرحمان الرحیم۔

بگرامی خدمت عزت مآب جناب غلام اسحاق خان صاحب، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور قرآن و سنت کے احکام کے عملی نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور دستورِ پاکستان میں غیر اسلامی قوانین کے خاتمہ اور اسلامی احکام کی عملداری کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ملک کے معاشی ڈھانچے کو سود کی لعنت سے ابھی تک نجات نہیں دلائی جا سکی جسے قرآن و سنت میں واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے، جو ایک آئینی ادارہ ہے، ۱۹۸۰ء میں سودی نظام کے خاتمہ اور بلاسود بینکاری کے عملی ڈھانچہ پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی جس کی پیشانی پر ’’صرف سرکاری استعمال کے لیے‘‘ کا لیبل چسپاں ہے اس وجہ سے وہ منظر عام پر نہیں آسکی۔

اسی طرح وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو ۳۰ جون ۱۹۹۲ء تک متبادل اسلامی قوانین نافذ کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن حکومت اس ہدایت پر عمل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی اور اس کے وزراء مسلسل بیانات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سود کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں متبادل بلاسود معاشی و بینکاری نظام کے بارے میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔

اس موقع پر آنجناب کے ایک تاریخی خطاب کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتا ہوں جو آپ نے ۱۹۸۴ء میں وفاقی وزیرخزانہ کی حیثیت سے بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا تھا اور فرمایا تھا کہ

’’بینکاری نظام سے ربا کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اور جامع پروگرام اسٹیٹ بینک اور قومی کمرشل بینکوں کے مشورہ سے وضع کیا گیا ہے اور اس پروگرام کا اطلاق تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں بشمول غیر ملکی بینکوں کے ہوگا۔

یکم جنوری ۱۹۸۵ء سے بینکاری نظام حکومت کو اور سرکاری کارپوریشنوں اور سرکاری و نجی جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کو جو سرمایہ فراہم کر ےگا یہ تمویل کے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ جولائی ۱۹۸۴ء سے یکم جنوری ۱۹۸۵ء تک کے عبوری دور میں بینکوں کو بامر مجبوری اسلامی ذرائع تمویل کے ساتھ ساتھ سود پر مبنی ذرائع کو بھی جاری رکھنا پڑے گا تاہم انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ سود کی بنیاد پر کوئی تمویل چھ ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے جاری کر سکیں یا موجودہ تمویل کی چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کے لیے تجدید کر سکیں۔ چھ ماہ یہ عبوری دور اس لیے ضروری ہے کہ متعلقہ قوانین میں ضروری ترامیم کی جا سکیں، حساب کتاب رکھنے کے لیے مناسب طریق کار وضع کیا جائے اور بینک اپنے عملہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ تیاریاں مکمل کر لیں۔

اس کے تین ماہ بعد یکم اپریل ۱۹۸۵ء سے کسی فرم اور فرد واحد کے لیے مہیا کیے جانے والے سرمایہ کو بھی اسلامی ذرائع تمویل کے تحت کر دیا جائے گا۔ اس طرح یکم اپریل ۱۹۸۵ء تک قرضہ اور تمویل کے تمام لین دین کے حساب اسلامی اصولوں کے مطابق ہو جائیں گے اور ماسوائے ان قرضوں کے جو ماضی میں دیے گئے ہوں، یکم جولائی ۱۹۸۵ء سے بینک سود کی بنیاد پر امانتیں قبول نہیں کریں گے۔ بچت کی اور میعادی امانتیں نفع اور نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوں گی، کرنٹ اکاؤنٹ کی رقومات بدستور امانت تصور کی جائیں گی اور ان پر کوئی نفع نقصان نہیں ہوگا۔ اسلامی ذرائع تمویل کا اطلاق زرعی شعبے پر بھی ہوگا جس میں امداد باہمی کے قرضوں کا نظام بھی شامل ہے۔

یکم جولائی ۱۹۸۵ء سے اسٹیٹ بینک کا کمرشل بینکوں اور حکومت کے ساتھ لین دین بھی تمویل کے نئے اسلامی ذرائع کے مطابق ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو یہ اختیار بھی دیا جائے گا کہ بینک اور مالیاتی ادارے جو تجارتی اور سرمایہ کاری لین دین کریں گے اس کے لیے ان پر کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ منافع کی شرح بشرط ضرورت مقرر کرے۔ بینک اپنے کاروبار میں جو مختلف قسم کے لین دین کریں گے ان کے لیے اسلامی طریقہ کار اور ذرائع کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔‘‘

(بحوالہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۱۵ جون ۱۹۸۴ء)

آنجناب کی ۱۹۸۴ء میں بحیثیت وزیرخزانہ بجٹ تقریر کا طویل اقتباس صرف اس لیے اس عریضہ میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ تمام مراحل ایک بار پھر آپ کے سامنے آجائیں جن سے حکومت پاکستان آپ ہی کی سعی و نگرانی کے ساتھ بلاسود معاشی نظام کی تشکیل کے مرحلہ تک ۱۹۸۴ء میں پہنچ چکی تھی لیکن بدقسمتی سے آج ۱۹۹۲ء میں بھی وہ تشکیل شدہ نظام اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عملاً نصیب نہیں ہو سکا۔ اور موجودہ وزیرخزانہ اور دیگر وفاقی وزراء علماء کرام کو غیر سودی معاشی نظام پیش نہ کر سکنے کا ملزم ٹھہرا کر سودی نظام کو جاری رکھنے پر مسلسل زور دے رہے ہیں۔

ان حالات میں آنجناب سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے ۱۹۸۴ء کے وعدہ کا پاس کرتے ہوئے قوم کو سودی نظام کی لعنت سے نجات دلانے میں موثر رول ادا کریں، اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کی اشاعت کی ہدایت فرمائیں اور سود کی حمایت میں علماء کرام کے خلاف بیان بازی کرنے والے وفاقی وزراء کے منفی بیانات کا نوٹس لیں۔ امید ہے کہ آپ اس درخواست پر سنجیدگی کے ساتھ غور فرماتے ہوئے جواب سے بھی نوازیں گے۔

شکریہ، والسلام۔ ابوعمار زاہد الراشدی

خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ

نوٹ، یہ عریضہ قومی پریس کے لیے بھی جاری کیا جا رہا ہے۔ ‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter