(گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں منعقدہ ’’حج سیمینار‘‘ سے خطاب کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گفٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کا شکرگزار ہوں کہ ’’حجِ بیت اللہ‘‘ کے حوالہ سے منعقدہ اس سیمینار میں اربابِ علم و دانش، اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے سامنے اس اہم ترین دینی فریضہ کے بارے میں کچھ گذارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، اللہ پاک جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’حجِ بیت اللہ‘‘ اسلام کی بنیادی عبادات و فرائض کا حصہ ہے اور دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ذی الحجہ کے دوران حرمین شریفین میں حاضری دے کر حج ادا کرتے ہیں، عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مقدس پر حاضری سے مشرف ہوتے ہیں۔ حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی حج اور عمرہ دونوں ادا کیے جاتے تھے اور مختلف اطراف و اکناف سے لوگ حاضر ہو کر یہ سعادت حاصل کرتے تھے مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں بہت سی اصلاحات فرمائی ہیں جس کے بعد دورِ جاہلیت کے حج و عمرہ اور اسلامی ماحول کے حج و عمرہ میں بہت سے فرق نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور آج انہی میں سے چند نمایاں ترین تبدیلیوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے مناسک اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی تو یہ کی کہ حج کے سفر میں عمرہ کی اجازت دے دی جو اس سے قبل نہیں ہوتی تھی۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ آنے والے صرف حج کرتے تھے، عمرہ نہیں کر سکتے تھے، عمرہ کے لیے انہیں الگ موسم میں مستقل سفر کرنا پڑتا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’حجۃ الوداع‘‘ کے لیے تشریف لائے تو اعلان فرمایا کہ جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں اور حج کے موقع پر اس کے لیے الگ احرام باندھیں۔ یہ سن کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ بعض حضرات نے پوچھ لیا کہ یا رسول اللہ! یہ سہولت صرف اس سال کے لیے ہے یا آئندہ کے لیے بھی ہو گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے عمرہ کو حج کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اور صحابہ کرامؓ نے بھی حج کے ساتھ عمرہ کیا جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ اکیلے حج سے عمرہ کے ساتھ ادا کیا جانے والا حج ثواب اور فضیلت میں زیادہ شمار ہوتا ہے۔
جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے ایام میں خرید و فروخت نہیں کرتے تھے اور اسے دنیاداری سمجھ کر دینی عبادت سے الگ رکھا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کی نفی فرما دی اور کہا ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ کوئی حرج کی بات نہیں حج کے ایام میں تجارت کر سکتے ہو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کو الگ الگ سمجھنے کا جو ماحول قائم ہو گیا تھا وہ درست نہیں ہے بلکہ دین اور دنیا اکٹھے ہیں اور دونوں انسان کی ضروریات میں سے ہیں البتہ ان میں توازن ضروری ہے۔ اسی طرح حج کے حوالے سے ہی یہ دعا سکھائی کہ ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘ اے اللہ ہمیں دنیا اور دین دونوں کی اچھائیاں نصیب فرما۔
جاہلیت کے دور میں حج کے دوران بیت اللہ کا طواف تو سارے کرتے تھے مگر صفا اور مروہ کی سعی صرف قریش اور ان کے دوست قبائل کیا کرتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ قریشی لوگ اپنی دادی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد میں ایسا کرتے ہیں، اس لیے دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ مگر قرآن کریم نے اسے تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی صرف حضرت ہاجرہؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ خود بھی ’’شعائر اللہ‘‘ میں سے ہیں، اس لیے حج اور عمرہ دونوں میں بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا و مروہ کی سعی بھی مناسک میں شامل ہے۔
جاہلیت کے دور میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ’’عرفات‘‘ کا وقوف حج کے لیے آنے والے باقی سارے لوگ کرتے تھے مگر قریشی اس کے لیے عرفات نہیں جاتے تھے اور حرم کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’نحن حمس‘‘ جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم وی آئی پی ہیں اس لیے ہمارا عرفات جانا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس رسم کو یہ کہہ کر توڑا کہ ’’ثم افیضوا من حیث افاض الناس‘‘ تم بھی حج کے لیے وہیں جاؤ جہاں باقی لوگ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حج بیت اللہ بلکہ کسی بھی عبادت میں کوئی ’’پروٹوکول‘‘ نہیں ہے اور خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں۔
ایک اور جاہلی رسم کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ بہت سے مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف بے لباس ہو کر عریانی میں کرتے تھے اور اسے نیچر اور فطرت قرار دیتے تھے کہ ہم دنیا میں ننگے آئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں نیچرل حالت میں یعنی ننگے حاضر ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور اعلان کر دیا کہ کوئی مرد یا عورت بیت اللہ کے طواف کے لیے ننگے نہیں آئیں گے، مرد کے لیے احرام کی صورت میں مخصوص لباس ضروری قرار دیا اور عورت سے کہا کہ وہ معمول کے لباس میں حج کے مناسک ادا کرے گی۔
قرآن کریم نے حج کے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ کی کہ حج، عمرہ اور حرمِ مکہ کی حاضری کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ اور حرمِ مکہ کی تولیت سے مشرکین کو الگ کر کے ان کے لیے حرم میں آنے کو ممنوع قرار دے دیا، حالانکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے ابراہیمی کہلاتے تھے، مگر حج اور عمرہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دے کر کسی بھی غیر مسلم کی اس میں شرکت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی حج کے طریق کار اور مناسب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیلیاں فرمائیں اور آج تک اسی طریق کار کے مطابق حج اور عمرہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ پاک جانے والوں کا حج اور عمرے قبول فرمائیں اور ہر مسلمان کو اس کی توفیق اور قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔