سندھ کی صوبائی نگران حکومت میں قادیانی وزیر کنور ادریس کی شمولیت پر دینی حلقوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے اور لاہور ہائیکورٹ میں قادیانی ججوں کے تقرر کا مسئلہ بھی اس احتجاج میں شامل ہو گیا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک وفد نے گزشتہ روز صدر مملکت سردار فاروق احمد لغاری سے ملاقات کر کے انہیں اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کیا ہے، اور کراچی کے عوام نے ایک روزہ ہڑتال کر کے اس مسئلہ پر عوامی جذبات و احساسات کا اظہار کر دیا ہے، لیکن مسئلہ تا دمِ تحریر جوں کا توں ہے۔
کنور ادریس کے مسئلہ پر سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ’’اگر ان کی کابینہ میں قادیانی وزیر شامل ہے تو کیا ہوا، قائد اعظم نے بھی تو چوہدری ظفر اللہ خان کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ مقرر کیا تھا‘‘۔
جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں قادیانی ججوں کے تقرر کے حوالہ سے روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد نے ۱۵ دسمبر ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خلیل الرحمٰن خان نے ایک قادیانی جج کی تقرری کی سفارش کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ اس کے بعد تبدیل ہو کر سپریم کورٹ میں جج مقرر ہو چکے ہیں۔
ان کے علاوہ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے راہنما بعض دیگر شعبوں میں بھی قادیانی افسروں کی تقرری کی نشاندہی کر رہے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مخصوص لابی یا پس پردہ قوت پاکستان کے موجودہ سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانیوں کو ایک بار پھر عدلیہ اور انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دینا چاہتی ہے۔
قادیانیوں کو مختلف شعبوں میں اہم مناصب پر فائز کرنے پر ملک کے دینی حلقوں کو اعتراض ہے اور وہ دو وجوہ سے ہے:
- ایک اس لیے کہ پاکستان اپنے دستور کے لحاظ سے ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے، اور اسلامی اصولوں کے مطابق اسلامی ریاست میں کلیدی مناصب پر غیر مسلموں کی تقرری کا کوئی جواز نہیں ہے۔
- اور دوسری یہ کہ قادیانی جماعت کی حیثیت غیرمسلم ہونے کے ساتھ ساتھ دستورِ پاکستان سے منحرف گروہ کی بھی ہے کیونکہ قادیانیوں نے جماعتی طور پر اپنے بارے میں دستورِ پاکستان کے واضح فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے، اور اسی وجہ سے جداگانہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے، اور ووٹروں کی فہرستوں میں بطور غیر مسلم ووٹر اپنے نام درج کرانے سے قادیانی جماعت کے تمام افراد کو منع کیا ہوا ہے۔
اس سے یہ بات اپنی جگہ محلِ نظر ہے کہ دستور کے واضح فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کے بعد کسی قادیانی کا اسی دستور کے تحت کسی منصب کے لیے حلف اٹھانا دستوری طور پر کیا حیثیت رکھتا ہے، اور اس حلف کا کوئی دستوری یا اخلاقی جواز بھی ہے؟ ہمارے خیال میں حکومت کو اس مسئلہ پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لینا چاہیے اور دستورِ پاکستان کے فیصلے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تحریکِ ختمِ نبوت کے مطالبہ کو منظور کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔