ملکی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں اس وقت عجیب مخمصے میں ہیں اور ریگستان میں راستہ بھول جانے والے قافلے کی طرح منزل کی تلاش بلکہ تعین میں سرگرداں ہیں۔ مروجہ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے وقت مذہبی جماعتیں یقیناً اپنے اس اقدام پر پوری طرح مطمئن نہ تھیں اور وہ خدشات و خطرات اس وقت بھی ان کے ذہن میں اجمالی طور پر ضرور موجود تھے جن سے انہیں آج سابقہ درپیش ہے۔ مگر ان کا خیال تھا کہ مروجہ سیاست میں شریک کار بنے بغیر ملکی نظام میں تبدیلی کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی، اور یہ کہ مروجہ سیاست کی خرابیوں پر وہ مذہبی قوت اور عوامی دباؤ کے ذریعہ قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس لیے مذہبی جماعتوں نے مروجہ سیاست کی دلدل میں کود پڑنے کا رسک لے لیا۔ لیکن آج ووٹ، الیکشن اور دباؤ کی سیاست ان کے گلے کا ہار بن گئی ہے کہ
- نہ تو انہیں اس کے ذریعہ دینی مقاصد کے حصول کا کوئی امکان نظر آرہا ہے،
- نہ وہ اس سے کنارہ کش ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں،
- نہ اس مروجہ سیاست کے ناگزیر تقاضوں کو پورا کرنا ان کے بس کی بات ہے،
- اور نہ ہی وہ قومی سیاست میں اپنے موجودہ مقام اور بھرم کو باقی رکھنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔
اور صورت حال یہ ہے کہ قومی سیاست کی ریت دینی رہنماؤں کی مٹھی سے مسلسل پھسلتی جا رہی ہے اور قومی سیاست میں بے وقعت ہونے کے اثرات معاشرہ میں ان کے دینی وقار و مقام کو بھی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سنجیدہ تجزیہ کیا جائے اور ان اسباب و عوامل کا سراغ لگایا جائے جو ملکی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کا باعث بنے ہیں۔ تاکہ ان کی روشنی میں دینی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔
جہاں تک قومی سیاست میں حصہ لینے اور مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے ملکی نظام کی تبدیلی اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کا تعلق ہے اس میں کلام نہیں ہے کہ تمام تر خدشات و خطرات کے باوجود آج بھی دینی جماعتوں کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، کیونکہ دینی حلقوں کا واحد ہدف نظام کی تبدیلی ہے۔ وہ موجودہ اجتماعی نظام کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں جو یقیناً غیر اسلامی ہے اور دینی حلقے اس نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ نظام کی تبدیلی کے دو ہی طریقے ہیں، ایک یہ کہ طاقت کے بل پر موجودہ نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ رائے عامہ کو ساتھ ملا کر اس کے ذریعے نظام کی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ طاقت اگر موجود ہو اور کافرانہ نظام کا تحفظ کرنے والی طاقتوں سے نظام کی باگ دوڑ چھین لینے کی سکت رکھتی ہو تو نظام کی تبدیلی کا یہ راستہ سب سے زیادہ مؤثر اور محفوظ ہے بلکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ایسی صورت حال میں طاقت کا استعمال دینی فریضہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسی طاقت دینی قوتوں کے پاس موجود ہے نہ مستقبل قریب میں فراہم ہونے کے امکانات ہیں، اس لیے متبادل اور محفوظ راستہ میسر آنے تک پاکستان کے دینی حلقوں کے پاس صرف یہی ایک طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مروجہ سیاسی عمل کے ذریعہ ملکی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرتی رہیں۔ البتہ قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں کو ان عوامل کا ضرور تجزیہ کرنا چاہیے جو اب تک سیاست میں ان کی ناکامی یا کمزوری کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اسی ضمن میں بحث و تمحیص کے آغاز کے لیے چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
نفاذ اسلام کے لیے ہوم ورک کی کمی
ہمارے خیال میں دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے ان کا ہوم ورک نہیں ۔ کیونکہ ان کے بیشتر کارکنوں بلکہ رہنماؤں کو بھی نفاذ اسلام کے فکری اور عملی تقاضوں کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی ان نظریاتی اور واقعاتی رکاوٹوں سے آگاہی ہے جو نفاذ اسلام کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں جماعت اسلامی کے سوا کسی اور جماعت کے پاس رہنماؤں اور کارکنوں کی فکری، علمی اور عملی تربیت کا سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے، جبکہ جماعت اسلامی کے تربیتی نظام کی بنیاد بھی اجتماعی فکر کی بجائے شخصی فکر پر ہے جس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے اور نہ ہی وہ شخصی فکر دینی حلقوں کا اعتماد حاصل کر سکی ہے۔
وقتی سیاسی فوائد کا حصول
دوسری وجہ یہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نفاذ اسلام کے معاملہ میں یکساں سوچ اور طرز عمل کی حامل ہیں، صرف سیٹوں کے حصول، اخبارات کی کوریج، اور سیاسی اہمیت میں وقتی اضافے کی خاطر انہی میں سے کسی کے ساتھ سیاسی وابستگی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی مذہبی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ تمام تر طعنوں کو سہتے ہوئے بھی وقتی مفاد کی خاطر جا بیٹھتی ہے اور کوئی جماعت مسلم لیگ سے بارہا ڈسے جانے کے باوجود اسی بل میں پھر گھس جانے میں عافیت سمجھتی ہے۔ اس طرز عمل نے دینی سیاسی جماعتوں کے تشخص اور وقار کو جس بری طرح پامال کیا ہے اس کے تصور سے بھی باشعور دینی کارکنوں کو جھرجھری آجاتی ہے لیکن راہنمایانِ گرامی منزلت اس قدر احساس پروف واقع ہوئے ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
دینی جماعتوں کے مابین اتحاد کی کمی
تیسری وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ابھی تک آپس میں مل بیٹھنے اور دینی حلقوں کے باہمی اتحاد کی ضرورت و افادیت کو محسوس نہیں کیا۔ جب کبھی عوامی دباؤ سے بے بس ہو کر وقتی طور پر مل بیٹھتے ہیں تو الیکشن میں بڑے سیاسی اتحادوں کی طرف سے سیٹوں کی سبز جھنڈی بلند ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر کو لپک پڑتے ہیں جبکہ ملتا وہاں سے بھی کچھ نہیں ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین آج تک اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ ان کی اصل قوت ان کے باہمی اتحاد میں ہے اور ان کے متحد ہونے کی صورت میں عوام نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کی دینی جماعتوں نے حقیقی سیاسی اتحاد کا مظاہرہ ایک مرتبہ ۱۹۷۷ء میں کیا ہے اور اس کے ثمرات آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ انہی ثمرات کی وجہ سے ملک کی حقیقی حکمران قوتوں نے ہمیشہ کے لیے یہ حکمت عملی طے کر لی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں اور جماعتوں کو کبھی کسی عملی اور حقیقی سیاسی اتحاد کی منزل تک پہنچنے نہ دیا جائے۔
فرقہ وارانہ تشخص اور ترجیحات
دینی سیاسی جماعتوں کی قومی سیاست میں ناکامی کی ایک وجہ ان کا فرقہ وارانہ تشخص اور ترجیحات بھی ہیں۔ ملک کی کوئی دینی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک ہی مذہبی مکتبۂ فکر کی نمائندگی نہ کرتی ہو۔ جماعت اسلامی نے اس دائرہ سے نکل کر ہمہ گیر ہونے کا تصور دیا لیکن طریق کار ایسا اختیار کیا کہ عملاً ملک میں پہلے موجود مذہبی مکاتب فکر میں ایک نئے نیم مکتبۂ فکر کا عنوان بن گئی۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی تشکیل مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد پر ہے اور ان کے ہاں کارکنوں کی تربیت، قیادت کے چناؤ، اور پالیسیوں کے تعین کا دارومدار بھی فرقہ وارانہ ترجیحات پر ہے۔ پھر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں کارکنوں کی تربیت کے لیے دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے خلاف ان کی ذہن سازی کا جو معیار قائم کر دیا گیا ہے، لادین اور سیکولر لابیوں کے خلاف ان کی ذہن سازی اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کے کارکن سیکولر اور منافق سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا تو اس قدر معیوب نہیں سمجھتے لیکن آپس میں دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے کارکنوں کے ساتھ مل بیٹھنے میں ان کا حجاب بدستور قائم رہتا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام، جمعیۃ العلمائے پاکستان، جمعیۃ اہل حدیث، جماعت اسلامی اور دیگر دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انفرادی طور پر اور باہمی مل بیٹھ کر ان اسباب و عوامل کا ضرور جائزہ لینا چاہیے اور ان منفی عوامل سے گلو خلاصی کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ ہماری رائے آج بھی یہی ہے کہ ملک کی دینی سیاسی جماعتوں کے سامنے ملکی نظام کو تبدیل کرنے اور نفاذ اسلام کے لیے مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے جدوجہد ہی موجودہ حالات میں واحد راستہ ہے۔ اور اگر وہ باہمی منافرت، بے اعتمادی اور فرقہ وارانہ ترجیحات پر قابو پا کر آپس میں حقیقی سیاسی اتحاد کی کوئی مستحکم بنیاد قائم کر سکیں تو نہ صرف مروجہ سیاست کی خرابیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اسے دینی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنے کی سکت بھی ان میں موجود ہے۔