قدرتی آفات ۔ اسباب و عوامل اور ہماری ذمہ داری

   
تاریخ: 
۲۶ نومبر ۲۰۰۵ء

جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم ہمارے ملک کے پرانے دینی مدارس میں سے ہے اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی رحمہ اللہ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے۔ حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فضلاء میں سے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے، اور وکیلِ صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ کے رفیق کار اور دست راست تھے۔ ساری زندگی اہل سنت کے عقائد و حقوق کے تحفظ اور علماء دیوبند کے مسلک و خدمات کی اشاعت و فروغ کی جدوجہد میں گزری۔

۲۶ نومبر ۲۰۰۵ء کو مجھے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں رات کی نشست سے خطاب کا موقع ملا۔ گفتگو کا عنوان ’’حالات حاضرہ‘‘ تھا۔ اس گفتگو کا خلاصہ تھوڑے سے حذف و اضافہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے سالانہ جلسہ میں گفتگو کرتے ہوئے میری نظروں کے سامنے اس اسٹیج کا وہ پرانا منظر گھوم گیا، جب اس اسٹیج پر حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ، حضرت مولانا حکیم سید علی شاہ رحمہ اللہ آف ڈومیلی اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی رحمہ اللہ جیسے بزرگ تشریف فرما ہوتے تھے اور ہم ان کی زیارت اور ارشادات سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ مجھ سے پہلے قاری سید انوار الحسن شاہ نے قرآن کریم کی تلاوت کی تو ایک اور بزرگ چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحب رحمہ اللہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے، میرے تو دادا استاد تھے۔ ہمارے پاس گکھڑ میں تشریف لایا کرتے تھے اور میں نے جن چند بزرگوں کو حفظ قرآن کریم کا آخری سبق سنایا ان میں وہ بھی شامل تھے۔ اب یہ بزرگ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی یادگاریں اور صدقات جاریہ موجود ہیں، ان کی نسبت باقی ہے اور یہی نسبت ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نسبت پر قائم رہنے اور اس کا حق ادا کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

مجھے گفتگو کے لیے حالاتِ حاضرہ کا عنوان دیا گیا اور اس حوالے سے آج کا اہم موضوع زلزلہ اور اس کے اثرات ہیں، اس پر ملک بھر میں گفتگو ہو رہی ہے، اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے، مختلف قسم کے شکوک و شبہات پھیلائے جا رہے ہیں، اور ہر سطح پر میڈیا اور لابیاں اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ میں اس کے ایک الگ پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس وقت اس کے بارے میں مختلف حلقوں میں جو باتیں ہو رہی ہیں ان میں دو تین سوالات بطور خاص زیر بحث ہیں۔

  1. ایک یہ کہ یہ زلزلہ کون لایا ہے؟
  2. دوسرا یہ کہ زلزلے اور دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟
  3. اور تیسرا یہ کہ زلزلے سے ہونے والی خوفناک تباہی کے بعد اس کے نقصانات کو کم کرنے اور اس کے اثرات کو سمیٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ زلزلہ کون لایا ہے بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس زلزلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے۔ ایک ممتاز دانشور نے ایک بڑے قومی اخبار میں یہ بات تحریر کی تو میں نے انہیں خط لکھا کہ اگر فطری قوانین خودمختار اور خودکار ہیں تو اسے کسی حد تک قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر فطری قوانین اور نیچرل سورسز کے پیچھے کوئی کنٹرولر اور نگران موجود ہے تو یہ بات درست قرار نہیں پاتی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان صاحب کے نزدیک یہ سادہ اور فطری قوانین ہی کائنات کی اصل قوت محرکہ ہیں اور ان کے پیچھے کسی ذات کے وجود کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ مگر ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ اس لیے ہم سب اس کو نیچرل سورسز کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھ سکتے۔

ان محترم دانشور نے اپنے کالم میں میرے اس خط کا ذکر کر کے اس کا یہ جواب دیا کہ نیچرل سورسز ’’فیڈ‘‘ کیے ہوئے پروگرام پر چلتی ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ اس جواب سے بھی بات نہیں بن رہی، اس لیے کہ فیڈ کرنے والا پروگرام کو فیڈ کرنے کے بعد نہ تو بے اختیار ہوگیا ہے اور نہ ہی نیچرل سورسز کی کارروائی سے بے خبر ہے بلکہ سب کچھ اس کے علم اور مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ بات تو عقیدہ کے طور پر بہرحال تسلیم کرنا ہوگی کہ اس زلزلہ کے دنیاوی اسباب کچھ بھی ہوں لیکن جو کچھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس کے علم اور حکم کے مطابق ہوا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ زلزلے، سیلاب، طوفان، اور دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمارے سائنس دان اور ماہرین ان اسباب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، ہمیں ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں ہے۔ اسباب کے درجے میں ہم ہر معقول بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، وباؤں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔

  • ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسا کہ پہلی امتوں پر کی تھی۔
  • ترمذی شریف میں حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
  • ابو داؤد شریف میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نا فرمانی کے اعمال کو دیکھیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے۔
  • ابن ماجہ شریف میں حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہوگا، مردوں کے سروں پر گانے کے آلات بج رہے ہوں گے، اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دے گا۔
  • ترمذی شریف میں حضرت علیؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے راویت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پس پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرمانبردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچنے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگیں۔

اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی۔ اس لیے زلزلہ کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے بچاؤ اور تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو اس پر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سزا اور تنبیہ تو مجرموں کو ہوتی ہے، جو لوگ جرائم میں شریک نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے اور معصوم بچوں اور عورتوں کا کیا جرم ہے کہ وہ بھی بہت بڑی تعداد میں زلزلہ کی زد میں آگئے ہیں۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بات بھی جناب نبی اکرمؐ نے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔ جب حضورؐ نے آنے والی ان آفتوں کا ذکر کیا تو یہ سوال خود آپؐ سے بھی کیا گیا تھا کہ کیا نیک لوگوں پر بھی یہ عذاب آئے گا؟ نبی اکرمؐ نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔

  • بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
  • مسلم شریف میں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میری امت کا ایک شخص حرم مکہ میں پناہ لیے ہوگا اور میری امت کا ہی ایک لشکر اس کے تعاقب میں مکہ مکرمہ کی طرف یلغار کرے گا۔ لیکن ابھی وہ بیداء کے مقام پر ہوں گے کہ سب لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ ان میں بہت سے لوگ غیر متعلق بھی ہوں گے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ ان میں مستبصر بھی ہوں گے یعنی وہ لوگ جو اپنی مرضی کے ساتھ شریک ہوں گے، کچھ مجبور بھی ہوں گے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ساتھ ہوں گے، اور ابن السبیل یعنی راہ گیر بھی ہوں گے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا لیکن جب زمین پھٹے گی تو سب لوگ اس میں سما جائیں گے، البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔
  • بخاری شریف میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرمؐ نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو ام المومنین نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا؟ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں جب خباثتوں کی کثرت ہو جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔
  • مسلم شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے بھی اسی نوعیت کی روایت ہے کہ انہوں نے جناب نبی اکرمؐ سے دریافت کیا کہ جو شخص نافرمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوگا، کیا اس پر بھی عذاب آئے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں دنیا کے عذاب میں سب ایک ساتھ ہوں گے، پھر قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔‘‘

چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرما رہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت کے لیے ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

اب آخری سوال کی طرف آئیے کہ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔

اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ میں خود زلزلہ کے متعدد علاقوں سے ہو کر آیا ہوں اور تباہی کے خوفناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقتی مسئلہ نہیں ہے اس پر کئی سال لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے غیر معمولی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter