علماء اور عوام میں پیدا ہوتی دوری اور اُس کا حل

   
جامعہ دارالارشاد والاحسان، ملت ٹاؤن، فیصل آباد
۲۱ اگست ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم مولانا کفایت اللہ ہمدانی صاحب کا شکرگزار ہوں، وقتاً‌ فوقتاً‌ یاد کرتے ہیں، آپ حضرات سے ملاقات ہو جاتی ہے، اپنے محترم بزرگ حضرت مولانا محمد اشرف ہمدانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور کچھ وقت ایک اچھے ماحول میں گزر جاتا ہے۔ آج بھی اسی سلسلہ میں حاضری ہوئی ہے، مجھے گفتگو کے لیے جو موضوع دیا گیا ہے کہ علماء اور عوام الگ الگ کیوں نظر آتے ہیں؟ ہم مولوی کوئی الگ مخلوق ہیں، یہ کوئی الگ مخلوق ہے، ہمارے آپس میں رابطے نہیں ہیں، جو ہیں وہ بہت کم ہیں، اور ہم الگ الگ نظر آتے ہیں۔ بڑا لمبا موضوع ہے، میں اس پر ایک دو حوالوں سے مختصر گفتگو کروں گا۔

(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ دو باتوں پہ غور فرما لیں، پبلک کے ساتھ رابطہ، اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟ اس مناسبت سے بھی کہ لوگوں کے ساتھ عام حضورؐ کے اوقات کیسے گزرتے تھے، اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات میں لوگوں کو کیا آسانیاں حاصل تھیں اور کیا رکاوٹیں ہوتی تھیں۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں تو پانچ پڑھاتے ہی تھے، جمعہ بھی پڑھاتے تھے، لوگوں کے ساتھ میل جول رہتا تھا، لیکن ایک بات جو حضورؐ کا یومیہ معمول تھی، وہ ہماری نظروں سے غائب ہے۔ سیرت کی کتابوں میں بالخصوص شمائل کی کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کی نماز کا وقت اشراق تک مسجد میں ہی گزرتا تھا۔ نماز کے بعد اشراق کے وقت تک تقریباً‌ پینتیس چالیس منٹ پون گھنٹہ ہوتا ہے۔ اور اگر فجر تھوڑا سا پہلے پڑھ لی جائے تو تقریباً‌ ایک گھنٹہ ہوتا ہے، اس وقت نماز ویسے ہی منع ہے،فجر کی نماز کے بعد اشراق کے وقت تک نوافل وغیرہ نہیں ہیں، اشراق کا وقت ہو گا تو نوافل وغیرہ ہوں گے۔ کیا حضورؐ بیٹھ کر ذکر اذکار کیا کرتے تھے؟ یہ وہ پہلے کر لیا کرتے تھے۔ کیا تلاوت کرتے تھے؟ وہ بھی رات کو ہو جایا کرتی تھی۔ تو اس وقت کیا کرتے تھے؟

شمائل ترمذی میں سمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آدھ پون گھنٹے کی مصروفیت بیان فرماتے ہیں۔ نمازیوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے، کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا تھا، کوئی درس نہیں ہوتا تھا، کوئی کلاس نہیں ہوتی تھی، اوپن مجلس ہوتی تھی۔ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کرتا تھا یا رسول اللہ! یہ خواب دیکھا ہے، تعبیر بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پوچھتے تھے کہ کسی نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا بھئی؟ دیکھا ہوتا تو بیان کرتے۔

آج ہی صبح اتفاق سے ایک خواب کا ذکر آ گیا سبق میں، وہ میں مثال کے طور پر عرض کر دیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں لڑکا تھا نوجوان تھا، مسجد میں ہی سویا کرتا تھا، میرے سامنے لوگ حضورؐ کے سامنے خواب بیان کرتے، حضورؐ تعبیر بیان کرتے، تو میرا بھی جی چاہتا تھا کہ کاش میں بھی کوئی خواب دیکھوں تو میں بھی پوچھوں کہ یا رسول اللہ تعبیر کیا ہے۔ بخاری کی روایت ہے۔ ایک دن ایک خواب دیکھ لیا، خواب بظاہر خطرناک تھا، فرماتے ہیں میں نے خواب دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑے ہوئے کھینچ کر لے جا رہے ہیں۔ لے جا کدھر رہے ہیں؟ آگ کا کنواں جل رہا ہے، جہنم کا کنواں جل رہا ہے، فرشتے مجھے پکڑے ہوئے ہیں اور اس کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یا اللہ! یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ اب میں نے استغفار شروع کر دیا، اعوذ باللہ، یا اللہ مہربانی فرما، یہ کیا کر رہے ہیں؟ فرماتے ہیں، میں نے اس آگ میں لوگ دیکھے اور بعض کو پہچانتا بھی تھا۔ اب مجھے فکر پڑ گیا کہ معاملہ سیریس لگتا ہے۔ جب قریب گئے تو ایک فرشتہ سامنے آیا، پوچھا اس کو کدھر لے جا رہے ہو؟ واپس چلو،واپس چلو، اس نے مجھے پکڑا اور واپس بھیج دیا۔ میری آنکھ کھل گئی۔ اب یہ خواب میں نے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کے لیے مجھے خود حوصلہ نہیں ہوا کہ یا رسول اللہ یوں ہوا ہے میرے ساتھ۔ میں نے باجی جان سے کہا۔ باجی جان کون؟ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ میں کہا باجی جان، ذرا یہ خواب پوچھ دو۔ انہوں نے پوچھا، حضورؐ نے کہا، یہ عبد اللہ کا خواب ہے؟ جی۔ مسکرائے، فرمایا خواب اچھا ہے۔ ’’نعم العبد‘‘ عبد اللہ بہت اچھا بچہ ہے، لیکن اس کو کہو کہ تہجد پڑھا کرے، اچھا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد زندگی بھر میرے تہجد قضا نہیں ہوئے۔

میں یہ ماحول بتا رہا ہوں کہ سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں، صبح کی نماز کے بعد لوگ خواب بیان کرتے تھے، حضورؐ سنتے تھے۔ خود حضورؐ نے خواب دیکھا ہے تو وہ بیان کرتے تھے کہ آج میں نے یہ خواب دیکھا ہے اور تعبیر بھی بیان کرتے تھے۔ مثلاً‌ ایک خواب بیان کیا حضورؐ نے کہ میں نے خواب میں دیکھا، لوگ میرے سامنے سے گزارے جا رہے ہیں، کرتے پہنے ہوئے ہیں، کسی کا کرتا یہاں تک ہے، کسی کا پیٹ تک ہے، کسی کا ٹخنوں تک ہے، اور عمرؓ گزرا تو اس کا کرتا زمین پر گھسٹ رہا تھا، اتنا لمبا تھا۔ باقیوں کے کرتے چھوٹے بڑے تھے، کسی کا ویسٹ کوٹ ہے، کسی کا عام کرتا ہے، کسی کا چغہ ہے۔ عمرؓ کا کرتا زمین پر گھسٹتا ہوا جا رہا تھا۔ پوچھا یارسول اللہ، کیا مطلب؟ فرمایا، یہ دین ہے، عمر کا دین اتنا مضبوط ہے کہ اس کا کرتا زمین پر تک پہنچا ہوا ہے۔

حضورؐ خواب پوچھتے تھے، خواب بیان کرتے تھے، تعبیر بتاتے تھے۔ کسی کو کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا تھا تو پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہ یہ مسئلہ ہے، کوئی مشورہ کرنا ہے تو یا رسول اللہ یہ مسئلہ پیش آ گیا ہے، کیا کرنا ہے؟ کوئی ہدایات دینی ہیں کہ آج یہ کام کرنا ہے، تم نے یہ کرنا ہے، تم نے یہ کرنا ہے، تم نے یہ کرنا ہے، ہدایات دیتے تھے۔ کوئی لشکر بھیجنا ہے کہیں، آج فلاں کی ڈیوٹی ہے، فلاں لشکر وہاں جائے گا۔ اس کو ہمارے ہاں کیا کہتے ہیں؟ کھلی کچہری۔ خود کوئی بات کہنی ہے وہ فرماتے تھے، کسی نے پوچھنی ہے وہ پوچھتا تھا، کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی اور کھلی باتیں ہوتی تھیں، کوئی ایجنڈا، کوئی کلاس نہیں ہوتی تھی، سوال جواب ہوتے تھے۔ اس ماحول میں حضورؐ کا فجر کی نماز کے بعد سے اشراق تک کا وقت گزرتا تھا اور لوگوں کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرتے تھے۔

آج کل ہمارا ماحول نہیں ہے یہ۔ ہمارے پاس کوئی بے تکلفی سے بیٹھنا بھی چاہے تو ہم گھور دیتے ہیں۔ میں بھی ایک زمانے میں بڑا پکا امام رہا ہوں، اب بھی خطیب ہوں، میں نے الحمد للہ تیس پینتیس سال اس حالت میں گزارے ہیں کہ مصلے کے قریب کسی کو آنے نہیں دیتا تھا، اب بھی فجر کی نماز خود پڑھاتا ہوں، درس بھی دیتا ہوں، آج بھی دے کر آیا ہوں، رات کو جاؤں گا تو صبح درس دوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ، میرا معمول ہے ۔ تو ہمارا لوگوں کے ساتھ عام میل جول نہیں ہے، اس حوالے سے کہ ہماری عوامی مجلس بہت کم ہے، یہ بھی فاصلے کی ایک وجہ ہے۔

کسی کو حضورؐ کے پاس آنا ہے تو کیا ہوتا تھا؟ دروازے پہ آواز دی، یا رسول اللہ! فلاں ہوں، حضورؐ تشریف لے آتے تھے۔ بخاری کی ایک روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے ہیں، ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے، کوئی بھائی ہو گا، خاوند ہو گا، کوئی رشتہ دار تازہ تازہ فوت ہوا ہو گا، بیٹھی رو رہی ہے۔ حضورؐ نے پاس سے گزرتے ہوئے جملہ فرمایا، بی بی صبر کرو حوصلہ کرو، اللہ کے ہاں اجر ملے گا، اس طرح رو نہیں۔ تو وہ مڑ کر کہتی ہے، آپ کو کیا پڑی ہے میری مصیبت کی، آپ کو کیا پتہ میری کیا مصیبت ہے؟ اس نے پہچانا نہیں۔ حضورؐ گزر گئے۔ کسی دوسرے آدمی نے پوچھا، بی بی، رسول اللہ! کیا فرما رہے تھے؟ وہ رسول اللہ تھے، اوہ خدا کے بندے، میں نے کیا گستاخی کی، میں تو سمجھی کوئی آدمی ہے گزرتے ہوئے بات کر رہا ہے۔ اٹھی اور حضورؐ کے گھر گئی۔ وہ کہتی ہے کہ حضورؐ کے دروازے پر کوئی دربان نہیں تھا، میں سیدھی گھر گئی، یا رسول اللہ میں نے پہچانا نہیں تھا، میں نے ویسے گزرتے ہوئے بات کہہ دی تھی، گستاخی ہو گئی مجھ سے، معافی چاہتی ہوں۔

میں ایک بات تو یہ کر رہا ہوں کہ ہمارا لوگوں کے ساتھ عام میل جول، مسجد میں بے تکلفانہ ماحول، کھلی گپ شپ، یہ ماحول اب بہت کم ہے، ہو گا، میں انکار نہیں کرتا، لیکن بہت کم ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے درمیان میں حجابات ہیں۔

(۲) دوسری بات کہ خود مسجد کا ماحول کیا تھا؟ ہمارے تبلیغی بزرگ ایک بات کہا کرتے ہیں کہ مسجد کے اعمال کو زندہ کرنا ہے۔ یہ ہمارے تبلیغی ماحول کی بڑی اہم اصطلاح ہے کہ ہماری محنت کیا ہے؟ مسجد کے اعمال کو زندہ کرنے کی محنت۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد کے اعمال کیا تھے؟ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مسجد کے اعمال کیا تھے؟ اور آج مسجد کے اعمال کیا ہیں، بڑھے ہیں یا کم ہوئے ہیں؟ ایک نظر اس پہ ڈال لیں۔ مسجد میں نماز تو الحمد للہ اب بھی ہوتی ہے۔ تعلیم بھی ہوتی ہے۔ وعظ و نصیحت بھی ہوتا ہے۔ یہ تین کام تو ہوتے ہیں، الحمد للہ، اللہ پاک جاری رکھنے اور ہمیں اس میں وسعت کی توفیق عطا فرمائے۔

لیکن مسجد میں کچھ اور اعمال بھی ہوتے تھے۔ مسجد اپنے علاقے کا رفاہی مرکز بھی ہوتی تھی۔ کوئی ضرورتمند ہے، ضرورت پیش آ گئی ہے تو سیدھا مسجد میں آتا تھا، یا رسول اللہ، فلاں چیز چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو وہ چیز مہیا کرتے تھے۔ ایک واقعہ ہم عام طور پر بیان کیا کرتے ہیں لطیفے کے ماحول میں، وہ بھی ٹھیک ہے، حضورؐ تشریف فرما ہیں، ایک صاحب آئے، سلام عرض کیا، یا رسول اللہ، میں فلاں جگہ سے فلاں جگہ جا رہا ہوں، لمبا سفر ہے، سواری مر گئی ہے، مجھے اونٹنی دیں۔ پہلی بات کہ اس کو پتہ ہے کہ مسجد سے مل جائے گی، اس کو یہ اعتماد ہے کہ میری ضرورت ہے، کہیں سے ملے نہ ملے، مسجد سے مل جائے گی، سفر کر رہا ہوں، گھر پہنچنا ہے، لمبا سفر ہے۔ حضورؐ دل لگی کے موڈ میں تھے، حضورؐ بڑے خوش طبع بزرگ تھے، خشک مزاج نہیں تھے، ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے۔ خود حضورؐ بھی کرتے تھے، حضورؐ کے ساتھ بھی لوگ کرتے تھے، یہ ایک الگ داستان ہے، کبھی موقع ملا تو سناؤں گا قصے۔ فرمایا، اچھا بیٹھ جاؤ، میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ پریشان ہو گیا کہ میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا، وہ مجھے اٹھائے گا یا میں اسے سنبھالوں گا؟ بیٹھ گیا، پریشان بیٹھا ہوا ہے۔ یا رسول اللہ۔ فرمایا، دیتا ہوں اونٹنی کا بچہ۔ اب وہ بیٹھ تو گیا بیچارہ لیکن پریشان بیٹھا ہوا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ کوئی ضرورت مند آیا ہے، سوال کیا ہے اس نے۔ اپنے پاس ہے تو دے دیا۔ بیت المال میں ہے تو منگوا کے دے دیا۔ مجلس میں دیکھا کسی کو، یار اس کی ضرورت پوری کرو، اس نے کر دی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے قرضہ لیتے تھے۔ مدینہ منورہ میں سب سے بڑا باڑہ جانوروں کا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔ خزرج کے سردار تھے، بڑے چودھری تھے، بڑے چودھری کا بڑا ڈیرہ ہوتا ہے، سب سے بڑے سردار وہی تھے، سب سے بڑا ڈیرہ انہی کا تھا۔ ان کے بیٹے تھے قیس بن سعدؓ۔

قیس بن سعدؓ ہمارے پہلے آئی جی پولیس ہیں۔ پولیس کیا کرتی ہے؟ بندہ پکڑ کے لے آتی ہے، انکوائری کرتی ہے، پولیس کے کام یہی ہوتے ہیں نا۔ حضورؐ کے زمانے میں پولیس سے متعلقہ کام دو آدمی کیا کرتے تھے، دونوں انصاری تھے۔ ایک قیس بن سعدؓ تھے، بڑے لمبے قد کے آدمی تھے، ان کے بارے میں آتا ہے کہ تقریباً‌ پونے آٹھ فٹ قد تھا ، ساڑھے سات سے بہرحال زیادہ تھا، میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تھا، جو تفصیل آتی ہے حدیثوں میں۔ بڑے لمبے قد کے، بڑے جوان تھے، بہت سخی تھے۔ حضورؐ فرماتے: قیس! ایک اونٹ منگوا دے یار۔ آجاتا تھا۔ اور دوسرے پولیس مین تھے محمد بن مسلمہؓ، یہ انکوائری آفیسر بھی تھے، انسپکٹر بھی تھے، پولیس سے متعلقہ کام یہ کیا کرتے تھے۔ یہ دو آدمی، ان میں سے ایک آئی جی ہے، ایک ڈی آئی جی ہے، جو آپ کی مرضی کہہ لیں، حضورؐ کے زمانے میں پولیس کے بڑے افسر یہی دو تھے، قیس بن سعد بن عبادہؓ اور محمد بن مسلمہؓ۔

خیر، اونٹ منگوایا، اس کو بہلاتے رہے کہ بیٹھ جاؤ، اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ قیس کو پیغام دیا، اس نے اونٹنی بھیجی۔ اونٹنی کی مہار پکڑائی اس کو اور فرمایا، یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے، جا لے جا۔ میں نے بات کیا کی ہے کہ ایک آدمی کو ضرورت پڑ گئی ہے، اس کو یہ اعتماد ہے کہ کہاں سے ملے گی؟ مسجد سے۔ اور مسجد سے ملی یا نہیں ملی؟ مسجد کا یہ ماحول تھا کہ مسجد رفاہی مرکز تھی۔

بہت سے واقعات ہیں، ایک واقعہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ ایک صاحب آئے، بڑا مشہور واقعہ ہے، بخاری شریف میں ہے۔ یارسول اللہ، رمضان میں گڑبڑ ہو گئی ہے، کیا کروں؟ فرمایا، کفارے کے روزے رکھو دو مہینے مسلسل۔ یا رسول اللہ، ایک نہیں رکھ سکا، دو مہینے کیسے رکھوں گا؟ اچھا، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، کفارہ دو۔ یا رسول اللہ، میرے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہے، کہاں سے کھلاؤں گا؟ بیٹھ گیا وہ۔ تھوڑی دیر کے بعد کہیں سے کوئی بڑا ٹوکرا آیا کھجوروں کا۔ فرمایا وہ کدھر ہے؟ اس نے کہا تھا یا رسول اللہ، میں جل گیا ہوں گناہ کی وجہ سے۔ ’’این المحترق‘‘ وہ جلنے والا کدھر ہے؟ فرمایا، یہ لے جاؤ، جا کر کفارہ ادا کرو۔ دیکھیں، جرم کس کا ہے؟ کفارہ کہاں سے ادا ہو رہا ہے؟ کفارہ کون دے رہا ہے، بیت المال دے رہا ہے۔ وہ بھی ’’نیک‘‘ آدمی تھا۔ یا رسول اللہ، کس کو دوں؟ مدینہ منورہ کے فقراء کو دو۔ میرے گھر سے زیادہ فقیر کون ہے؟ اچھا جاؤ، جا کر کھا لو۔ میں یہ بتا رہا ہوں کہ مسجد کا ماحول کیا ہے۔ ضرورت مند کو ضرورت ہے، اور پتہ ہے کہاں سے ملنی ہے، اور مل جاتی ہے۔

ایک بات اور۔ عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، بڑی عید قریب تھی۔ یہ میں بیت المال کی بات کر رہا ہوں، مسجد کا اپنا ماحول ہے، بیت المال کا اپنا ماحول ہے کہ بیت المال کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں، بڑی عید میں دو تین دن رہتے تھے، بیت المال میں ایک ریوڑ تھا بکریوں کا۔ حضورؐ نے عقبہؓ سے کہا، ادھر آؤ، لوگوں میں بانٹ دو قربانی دے دیں گے، پرسوں عید کا دن ہے۔ یہ بکریاں چالیس تھیں، پچاس تھیں، انہوں نے ساری بانٹ دیں۔ ایک بکروٹا چھوٹا سا رہ گیا، عمر پوری نہیں تھی۔ یا رسول اللہ، میں بانٹ آیا ہوں، ساری تقسیم کر آیا ہوں، یہ بکروٹا میں کر لوں؟ اب عمر کم ہو تو قربانی ہوتی ہے؟ فرمایا تجھے اجازت ہے، تیرے بعد کسی کو نہیں۔

اب یہ میں پوچھ رہا ہوں کہ قربانی واجب کس پر ہے؟ بکری کون دے رہا ہے؟ بیت المال کا اور مسجد کا ماحول کیا ہے، آج کل میری کوشش ہوتی ہے باقاعدہ دو باتوں کی۔ ایک یہ کہ مسجد کے خطباء کرام اور منتظمین اگر ہلکا پھلکا مرکز بنا لیں کہ محلے کے ضرورتمندوں کی ضرورتیں ہم نے پوری کرنی ہیں، تو کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے؟ اگر این جی اوز کر سکتی ہیں تو مسجد نہیں کر سکتی؟ یہ انجمنیں بنتی ہیں تو کیا کرتی ہیں، کرتی ہیں یا نہیں کرتیں؟ بلکہ اس کا بھی کچھ کرتی ہیں اور اپنا بھی کرتی ہیں، اپنا بھی ساتھ ہو جاتا ہے۔ تو کیا مسجد کی کمیٹی کے لوگ، خطیب صاحب، منتظمین کوئی ایسا ماحول بنا لیں کہ محلے کے ضرورت مندوں کی ضروریات کا خیال کریں اور چھوٹی موٹی ضرورت پوری کر دیا کریں، تو کیا مسجد کے ساتھ لوگوں کا تعلق بڑھے گا یا نہیں بڑھے گا؟

(۳) تیسری بات، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے تھے۔ ایک ہے کہ کوئی کیس آیا ہے۔ اور ایک ہے ویسے کسی کو جھگڑتے دیکھا ہے۔ بخاری کی روایت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں ہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اپنے حجرے میں ہیں۔ آواز آئی کہ دروازے پہ دو آدمی جھگڑ رہے ہیں، باہر نکلے، ایک عبداللہ بن ابی حدرد اسلمیؓ تھے، دوسرے کعب بن مالک انصاری تھے۔ کیا جھگڑا ہے بھئی؟ یا رسول اللہ، اس نے میرے پیسے دینے ہیں اور دے نہیں رہا۔ کتنے ہیں؟ اتنے ہیں۔ حضورؐ نے اشارہ کیا، آدھا آدھا کر لو یار (کچھ قرض معاف کر دو)۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے جی۔ اب یہ جھگڑا حضورؐ کے پاس آیا نہیں ہے لیکن حضورؐ نے جھگڑا نمٹایا ہے۔ حضورؐ کے پاس جو تنازعات اور جھگڑے آتے تھے وہ تو نمٹاتے ہی تھے۔ یہاں یہ دیکھا ہے کہ دو آدمی جھگڑ رہے ہیں، باہر آئے ہیں، یار کیوں لڑ رہے ہو؟ پیسے دینے ہیں۔ کتنے؟ اتنے۔ اشارہ کیا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اگر ہم یہ مسجد میں ایک کام اور کر لیں۔

میں پھر بات دہراؤں گا کہ نمازوں کا کام مسجد میں ہوتا ہے، الحمد للہ۔ درس تدریس کا کام بھی ہوتا ہے۔ ذکر اذکار کا کام بھی ہوتا ہے۔ دعوت تبلیغ کا کام بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر دو کام ہم شامل کر لیں: ایک یہ کہ مسجد والے کوئی نظم ہلکا پھلکا بنا لیں کہ اپنے مسجد کے ماحول کے ضرورت مندوں کی ضرورت کہیں سے پوری کر دیا کریں، کوئی نظم بنا لیں تو مشکل بات نہیں ہے۔ اور دوسری بات کہ اگر محلے اور مسجد کے ماحول میں دوستوں میں کسی کا جھگڑا یہیں نمٹا دیں تو بڑی مصیبت سے بچ جائیں گے؟ اگر لوگوں کو چھوٹے موٹے جھگڑوں میں تھانے کچہری سے بچا لیں، خود دلچسپی لے کر، کتنی بڑی خدمت ہے لوگوں کی۔ اب یہ میری تجویز ہے، پتہ نہیں مجھ پر نہ کوئی فتویٰ لگ جائے کہیں۔

اس میں ایک فائدہ اور بھی ہے، تھانے کچہری میں تو پھر لڑائی ہوتی ہے، مقدمے میں گنجائشیں نہیں ہوتیں، لیکن صلح میں ساری گنجائشیں ہوتی ہیں۔ میں مفتیان کرام سے بھی عرض کیا کرتا ہوں، دارالافتاء میں کسی نے مسئلہ پوچھنے آنا ہے تو مفتی صاحب فتویٰ بتائیں گے کتاب کے مطابق، اس میں آگے پیچھے نہیں کر سکتے، جو کتاب کہے گی وہ بتائیں گے۔ لیکن اگر دونوں فریقوں کو بلا کر صلح کرا دیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں، جتنی گنجائشیں صلح میں ہوتی ہیں، فتوے میں نہیں ہوتیں، جتنی گنجائشیں صلح میں ہوتی ہیں قضا میں نہیں ہوتیں، قضا میں تو لگا بندھا قانون کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے جج صاحبان بھی کیا کرتے ہیں؟ بہت سے مقدمات میں فیصلہ سنانے سے پہلے لمبی تاریخ دے دیتے ہیں کہ یار آپس میں صلح کر لو۔ کیوں دیتے ہیں؟ اس لیے کہ صلح میں گنجائشیں بہت ہوتی ہیں، فیصلے میں گنجائشیں نہیں ہوتیں۔ تو مفتی صاحبان سے میں کہا کرتا ہوں کہ یا تو دونوں فریقوں کو بلا کر صلح کرا دیا کرو، یا اس کو مشورہ دے دو کہ تم کیسے اس مخمصہ سے نکل سکتے ہو۔ مشورہ دینا بھی مفتی کا کام ہے، فتویٰ تو آخری بات ہے۔ اس کو تو کچھ پتہ نہیں بیچارے کو، اس کو مشورہ دو کہ یار یوں کر لو تو ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک ہے کہ ’’یوں کرنا ہے‘‘ یہ تو فتویٰ ہے۔ اور ایک ہے کہ یوں کر لو گے تو ٹھیک ہو جائے گا۔

اس پر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت عرض کرتا ہوں۔ مسئلہ بڑا نازک ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے معاملات کے انچارج تھے یعنی وزیرِ امورِ خانہ داری تھے، گھر کا خرچہ ورچہ، غلہ وغیرہ، کھانا وانا، مہمان، یہ سب سنبھالتے تھے اور حساب کتاب بعد میں کر لیا کرتے تھے، کبھی قرضہ لے کر بھی کر لیا کرتے تھے، انہوں نے ہی لانا ہے جو لانا ہے، بعد میں حساب کرنا ہے کہ اتنے پیسے بنتے ہیں جی، یہ دے دیں، یہ لے لیں۔ ایک دن کھجوریں لے آئے، بڑی اچھی کھجوریں، حضورؐ کی خدمت میں پیش کیں۔ فرمایا، بلال، مدینے میں یہ کھجوریں بہت کم ہوتی ہیں، کہاں سے لائے ہو؟ عام کھجوریں ہماری ہوتی ہیں تو آج اتنی اچھی کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟ یا رسول اللہ، آج میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کو اچھی کھجوریں کھلاؤں، تو عام کھجوریں دو صاع دے کر ایک صاع یہ لایا ہوں۔ او خدا کے بندے، یہ سود ہے ’’عین الربوا‘‘۔ جنس کا جنس سے تبادلہ ہو تو کمی بیشی کیا ہوتی ہے؟ سود ہوتی ہے۔ یا رسول اللہ، برابر تو کوئی نہیں دیتا، تو کیا کروں؟ اب اے وَن مال کو بی ٹو کے برابر کوئی دے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا، جب ایسے ضرورت پڑے تو پیسے پر بیچ دیا کرو اور انہی پیسوں سے خرید لیا کرو۔ حضورؐ مشورہ کس کو دے رہے ہیں؟ بلالؓ کو۔ اور اپنے گھر کے لیے دے رہےہیں۔ کھجوروں کا تبادلہ کرنا ہے، یہ اچھی ہے، یہ کمزور ہیں، برابر کوئی نہیں کرے گا، کمی بیشی کرے گا تو سود ہو جائے گا۔ اب یہ کھجوریں پیسے کی بیچ دو، انہی پیسوں سے وہ خرید لو، اب سود نہیں ہو گا۔

میں مفتی صاحبان سے کہا کرتا ہوں کہ فتویٰ بعد میں دیا کرو، پہلے مشورہ دیا کرو کہ یار یوں کر لو بچ جاؤ گے۔ تو میری گزارش کا مقصد یہ ہے جو میں نے تین باتیں عرض کی ہیں۔ پہلی بات کہ مسجد میں ہمارا لوگوں کے ساتھ کھلی گپ شپ کا ، اوپن کچہری کا ماحول بھی ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ مسجد ایک رفاہی مرکز کے طور پر بھی ہو، لوگوں کو پتہ ہو کہ میری ضرورت کہیں اور سے نہیں پوری ہو گی تو یہاں سے پوری ہو جائے گی، ایک سسٹم بن جائے۔ اور تیسری بات کہ لوگوں کے جھگڑے نمٹانے ہیں، جس کو آج کی اصطلاح میں کونسلنگ کہتے ہیں، کہ دو آدمیوں یا فریقوں کا جھگڑا ہو تو بیٹھ کر حل کرا دیا۔ اگر ہم محلے کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے خود حل کرانا شروع کر دیں تو کچہریوں کا بوجھ بھی کم ہو گا اور لوگوں کی مشکلات میں بھی کمی ہو گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں عوام کے ساتھ میل جول بڑھانا چاہیے، اس کے لیے مختلف اسباب ہیں، دو تین عرض کیے ہیں، اس کو بڑھانا چاہیے تاکہ ہمارا سوسائٹی کے ساتھ میل جول زیادہ ہو۔ ایک بات اور کہہ کر بات ختم کرتا ہوں۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کو ایک بات کی بہت سختی سے تلقین کیا کرتے تھے۔ کوئی شاگرد آیا ہے۔ کیا کر رہے ہو؟ مسجد میں امام ہوں۔ اچھا، کونسی مسجد میں؟ فلاں مسجد میں۔ درس دیتے ہو؟ نہیں۔ کیوں؟ پانچ نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں درس دو، اور قرآن پاک کے ترجمے کی کلاس لگاؤ، محلے کے لڑکوں کو جوڑ کر قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا دو۔ اور ایک بات کہا کرتے تھے کہ مقتدی اور امام کا تعلق اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا استاذ اور شاگرد کا ہوتا ہے۔ کیوں جی، مقتدی اور امام کا تعلق مضبوط ہوتا ہے یا استاذ اور شاگرد کا؟ اور اگر سارا محلہ ہی شاگرد ہو تو پھر؟ اور شاگرد ایسے ہی نہیں بنتے، ماحول بنائیں گے تو بنیں گے۔ تو یہ محلے میں تعلیم کا سلسلہ، وعظ و نصیحت کا، رفاہی کاموں کا، مشورے کا، لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافے کے لیے اور بے تکلفی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اگر یہ چھوٹے چھوٹے کام کر لیں، جو چھوٹے چھوٹے تو خیر نہیں ہیں، تو ان شاء اللہ صورتحال بہت بہتر ہو گی، اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter