توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۱۲ء

توہینِ رسالت کا مسئلہ ایک حالیہ امریکی فلم کے حوالے سے ایک بار پھر پوری دنیا میں موضوع بحث ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے ایمان و عقیدت کا مظہر ہے، اور اس حقیقت کا عالمی فورم پر ایک بار پھر بھرپور اظہار ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان کسی بھی حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس سلسلے میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ میں نے وہ فلم نہیں دیکھی، نہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہ ہی شاید دیکھ سکوں، اس لیے کہ ایک عام انسان کی توہین پر بھی میرے دل میں کچھ نہ کچھ کسک ضرور پیدا ہوتی ہے، کائنات کی سب سے محترم شخصیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا منظر کیسے دیکھ سکوں گا؟ میں نے سلمان رشدی کی بدنامِ زمانہ تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ بھی چند صفحات پر نظر ڈال کر چھوڑ دی تھی کہ اس سے آگے پڑھنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔

اخبارات میں اس شرمناک فلم کے ہدایتکار نکولا سبیلی نکولا کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں اس نے کہا کہ مسلمانوں میں برداشت اور حوصلہ نہیں ہے، انہیں اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ یہ بات مغرب کے بہت سے دانشور عرصے سے کہتے آ رہے ہیں اور آج بھی یہ بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ میرا مغرب کے ان دانشوروں سے سوال ہے کہ اختلاف و تنقید اور اہانت و تحقیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور کیا اختلاف و تنقید کے نام پر ہم سے تمسخر و استہزا اور توہین و تحقیر کا حق تو نہیں مانگا جا رہا؟ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے اس کو مسلمانوں سے زیادہ کس نے برداشت کیا ہے؟ مغرب کے مستشرقین صدیوں سے اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرمؐ اور مسلمانوں کی تہذیب و کلچر کے خلاف مسلسل لکھتے آ رہے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس قسم کی کتابوں اور مقالات سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان کا جواب مقالات اور کتابوں کی صورت میں دلائل کے ساتھ دیا ہے اور اب بھی دلیل اور متانت کے ساتھ کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دلیل اور متانت کے ساتھ ہی دیا جا رہا ہے۔ لیکن تمسخر و استہزا اور توہین و تحقیر کو کسی دور میں بھی برداشت نہیں کیا گیا، وہ آج بھی برداشت نہیں ہے اور آئندہ بھی کبھی برداشت نہیں ہوگا۔

مسلمانوں میں اختلاف اور توہین کے درمیان فرق کا شعور بحمد اللہ قائم ہے اور وہ تنقید اور استہزا کے درمیان فاصلے کو بحمد اللہ اچھی طرح سمجھتے ہیں، البتہ مغرب نے یہ فاصلے ختم کر دیے ہیں۔ انہوں نے استہزا، تمسخر، توہین، تحقیر اور تذلیل کو بھی اختلاف اور تنقید کا عنوان دے رکھا ہے اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنے کے عنوان سے اسلام دشمنوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ سمیت مسلمانوں کی کسی بھی محترم اور مقدس شخصیت کو استہزا و تمسخر اور توہین و تحقیر کا جب چاہیں نشانہ بناتے رہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہوگا۔ نکولا سبیلی نکولا اور اس کے ہمنوا مغربی دانشور اور میڈیا اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لیں ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کے بغیر مسلمانوں سے امن یا برداشت کے نام پر کوئی اپیل کارگر نہیں ہوگی، اس لیے کہ مسلمان کا خمیر ہی غیرت و حمیت کے مقدس پانی میں گوندھا گیا ہے۔

توہینِ رسالت پر مبنی امریکی فلم کے علاوہ پاکستان میں بھی رمشا مسیح کیس کے تناظر میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے دو تین پہلو بہرحال ارباب فکر و دانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔

ایک یہ کہ اس عنوان سے بین الاقوامی سیکولر لابیاں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور لابنگ کے لیے اس قسم کے کیسوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خاص طور پر ورلڈ چرچ کونسل کی طرف سے آئندہ چند روز میں اس موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے قبل اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کو پاکستان میں توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو غیر مؤثر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ بین الاقوامی سیکولر لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص، پاکستان میں نافذ چند اسلامی احکام و قوانین اور خاص طور پر ناموس رسالت کے تحفظ اور قادیانیوں کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی روک تھام کے قوانین کے درپے ہیں اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ ان قوانین کو ختم کرا دیا جائے یا کم از کم عملی طور پر غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ یہ صورتحال ملک کے دینی حلقوں اور علمی مراکز کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ اس قسم کے معاملات میں وقتی دباؤ کے تحت ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور احتجاجی میدان میں کچھ نہ کچھ کر بھی دیتے ہیں جس کے فوائد وقتی طور پر مل جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں مستقل طور پر کوئی پروگرام ہمارے ہاں نظر نہیں آ رہا جس سے ہم عالمی سیکولر لابیوں کی اس مہم کا سنجیدگی کے ساتھ مستقل طور پر سامنا کر سکیں اور اس کے سدِباب کا کوئی معقول راستہ تلاش کر سکیں۔ اگر مسلم حکومتیں اس سلسلے میں کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دینی قوتوں کو ہی باہمی مشاورت کے ساتھ اس کا اہتمام کر لینا چاہیے۔

دوسری طرف یہ صورتحال بھی ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم لاکھ انکار کریں، مگر توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا مبینہ طور پر غلط استعمال اس مسئلہ پر ہماری پوزیشن کو مسلسل کمزور کرتا جا رہا ہے اور مسلکی تنازعات میں توہینِ رسالت کے قانون کی آڑ میں ہم خود اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسرے واقعات کو ایک طرف رکھیں، گوجرانوالہ میں تین ایسے واقعات خود میرے مشاہدے میں موجود ہیں جو ہمارے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔

چند سال قبل گرجاکھ میں ایک مسجد کے امام صاحب قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے کہ ان کے ایک مسلکی مخالف نے دیکھ لیا اور شور مچا کر لوگوں کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا، مقدمہ کا اندراج ہوا اور توہین قرآن کریم کے جرم پر انہیں سزا دلوانے کی مہم شروع ہو گئی۔ پولیس نے ہم سے رابطہ کیا تو خود میں نے لکھ کر دیا کہ قرآنِ کریم کے بوسیدہ اوراق کو تلف کرنے کے لیے جلانے کی روایت موجود ہے اور فقہائے کرام نے بھی بعض صورتوں میں اجازت دی ہے، اس لیے اس عمل کو غیر محتاط اور ناپسندیدہ قرار دے کر اس پر سرزنش تو کی جا سکتی ہے مگر اس پر توہین کی دفعات کا اطلاق درست نہیں ہے۔ اس پر اس غریب امام صاحب کی جان چھوٹی۔

پھر کچھ عرصہ کے بعد کھیالی میں ایک حافظِ قرآن کو اسی طرح کے ایک عمل پر ان کے مخالف مسلک کے امام نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر کھول کر شور کر دیا اور لوگوں کو جمع کر کے اس قدر اشتعال دلایا کہ اس حافظ صاحب کو سڑک پر گھسیٹ پر تھانے لے جایا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس ساری کارروائی کے بعد بات کھلی کہ یہ اس کے خلاف مسلکی عناد کی وجہ سے کی گئی تھی۔

ابھی گزشتہ سال کھوکھر کی میں توہینِ رسالت کا ایک واقعہ سامنے آیا اور اس میں چند مسیحی افراد کو ملوث ظاہر کر کے ان کی گرفتاری کے لیے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ کمشنر گوجرانوالہ نے دانشمندی کی کہ فوری طور پر شہر کے سرکردہ علماء کرام سے رابطہ کر لیا جنھوں نے بروقت مداخلت کر کے صورتحال کو کنٹرول کر لیا، ورنہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی کسی کاروباری رقابت میں چند لوگوں کو پھنسانے کے لیے کی گئی تھی، لیکن مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے مداخلت کر کے صورتحال کو زیادہ سنگین ہونے سے بچا لیا۔

یہ تین واقعات میرے شہر کے ہیں اور میرے چشم دید ہیں، اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ اس قسم کے مقدمات کی چھان بین کی جائے تو گزشتہ دس سال میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد بیسیوں میں ہوگی۔ اس لیے ہمیں تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کا مکمل دفاع اور تحفظ کرتے ہوئے اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے اور کوئی معقول موقف اور طرزِعمل اختیار کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter