میرے نیویارک کے سفر کے مقاصد میں بلیک مسلم تحریک کے مختلف گروپوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور کسی صحیح العقیدہ گروپ کے ساتھ رابطہ کی کوشش کرنا بھی تھا۔ چنانچہ اس میں اس حد تک کامیابی حاصل ہو سکی کہ حلقہ اسلامی شمالی امریکہ کے امیر جناب عبد الشکور کی وساطت سے بلیک مسلم تحریک کے ایک اہم راہنما امام سراج وہاج کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اور ’’انصار اللہ‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ایک اور بلیک مسلم گروپ کے بارے میں عربی زبان میں ایک کتابچہ میسر آگیا۔ انصار اللہ کے نام سے کام کرنے والے گروہ مہدی سوڈانی کا پیروکار ہے۔ مہدی سوڈانی نے انیسویں صدی میں سوڈان کی تحریکِ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا اور مسلح جنگ کے ذریعے برٹش استعمار کو سوڈان سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ خودمختاری اور آزادی کی اس جدوجہد کے حوالے سے مہدی سوڈانی سوڈان کی تحریکِ آزادی کا ایک روشن کردار ہے لیکن اس کتابچہ کے ذریعے مہدی اور اس کے پیروکاروں کے جو عقائد و نظریات سامنے آئے ہیں وہ ملتِ اسلامیہ کے معروف اور مسلمہ مکاتبِ فکر میں سے کسی کے ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتے۔
اس کتابچہ کا نام ہے ’’دعوۃ المہدی فی امریکا‘‘۔ اس کے صفحہ اول پر مہدی سوڈانی کی تصویر ہے جبکہ صفحہ دوم پر امریکہ میں اس تحریک کے موجودہ سربراہ الامام عیسیٰ الہادی المہدی کی تصویر اور صفحہ آخر پر مہدی سوڈانی کی قبر اور امریکہ میں انصار اللہ کی بڑی مسجد کی تصاویر کے ساتھ تحریک کا پرچم بھی دیا گیا ہے۔ پرچم سبز، سرخ اور سیاہ رنگ کی تین لمبی پٹیوں پر مشتمل ہے۔ سب سے اوپر سیاہ پٹی ہے جس پر کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے، درمیان میں سفید چاند اور ایک گرز ہے جبکہ سب سے نیچے سبز پٹی پر یہ جملہ درج ہے ’’والہدی محمد احمد خلیفۃ رسول اللہ‘‘۔ کتابچہ میں امام مہدی کے بارے میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ارشادات کا حوالہ دے کر مہدی سوڈانی پر انہیں فٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بنیادی تصور یہ دیا گیا ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب سرور کائناتؐ سیاہ فام تھے اور اصل عرب بھی سیاہ فام ہیں جو بنو امیہ کے دورِ حکومت میں سوڈان جا کر آباد ہوگئے تھے۔ اس لیے اصل عرب سوڈانی ہیں اور باقی تمام عرب مخلوط نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک نسب نامہ کے ذریعے مہدی سوڈانی کو سیدنا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتابچہ میں بہائی فرقہ کی طرح علم الاعداد کے حوالہ سے ۱۹ کے عدد کا سہارا بھی لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد مہدی سوڈانی ۱۹ ویں خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہیں۔ ۱۹ خلفاء اور اماموں کے نام اس طرح درج ہیں: (۱) امام حسنؓ (۲) امام حسینؓ (۳) امام زین العابدینؒ (۴) امام محمد الباقرؒ (۵) امام جعفر الصادقؒ (۶) امام موسیٰ الحدیمؒ (۷) امام علی الرضاؒ (۸) امام محمد التقیؒ (۹) امام علی الناجیؒ (۱۰) امام حسن عسکریؒ (۱۱) محمد المنتصر (۱۲) عبد الکبیر (۱۳) عثمان (۱۴) یونس (۱۵) محمد (۱۶) عبد اللہ (۱۷) فحل (۱۸) سید (۱۹) مہدی سوڈانی۔
مہدی سوڈانی سے منسوب بعض روایات بھی کتابچہ میں درج ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور صلحاء کی موجودگی میں جناب نبی اکرمؐ نے مجھے اپنی مسند پر (معاذ اللہ) بار بار بٹھایا۔ ایک روایت کے مطابق مہدی کا کہنا ہے کہ جب میں جنگ کے لیے نکلتا ہوں تو تمام انبیاء کرامؑ میرے ساتھ ہوتے ہیں اور حضرت عزرائیلؑ میرا پرچم اٹھائے ہوئے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی اور روایات بھی کتابچہ میں درج کی گئی ہیں۔
انصار اللہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ امریکہ کے مختلف شہروں میں یہ خاصا مؤثر گروپ ہے، بڑے بڑے مراکز ہیں اور دعوت و تبلیغ کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ ان کی گفتگو اور تقاریر میں بعض ازواج مطہراتؓ بالخصوص ام المومنین حضرت عائشہؓ کا ذکر نامناسب انداز میں کیا جاتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر منافقین کے جس بہتان کی قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ تردید کی گئی ہے اس تہمت کو درست سمجھ کر اس کا بھی یہ لوگ ذکر کرتے ہیں۔
امام سراج وہاج بلیک مسلم تحریک کے صحیح العقیدہ گروپ کے ایک راہنما ہیں جو نیویارک کے علاقہ بروکلین کی مسجد تقویٰ کے خطیب و امام ہیں۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ میں متحرک اور پرجوش ہیں اور نامور مسلم اسکالر جناب احمد دیدات کے ساتھ مل کر عیسائیوں کے ساتھ مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ میری ان سے ملاقات جناب عبد الشکور کی قیام گاہ پر دوپہر کے کھانے پر ہوئی اور بہت سے مسائل پر ان سے کھل کر بات چیت ہوئی۔ ترجمانی کے فرائض جناب عبد الشکور نے سرانجام دیے۔ ہمارے ساتھ دور اور دوست آغا امان اللہ اور جناب عبد الرحمان بھی شریک محفل تھے۔ جناب سراج وہاج نے اپنی عمر ۳۷ برس بتائی اور کہا کہ وہ نیویارک یونیورسٹی کے طالب علم تھے جب وہ عالیجاہ محمد کی تحریک سے متاثر ہوئے اور مسیحی مذہب ترک کر کے عالیجاہ محمد کے حلقہ میں شامل ہوگئے۔ عالیجاہ محمد کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ سیاہ فام امریکیوں کو ان کے حقوق کا شعور بخشنے اور بیدار و منظم کرنے میں ان کا کردار سب سے نمایاں ہے اور انہوں نے اس محاذ پر طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے۔ لیکن ان کا دعوٰی یہ تھا کہ:
- وہ خدا کے آخری نبی ہیں۔
- خدا انسانی شکل میں دنیا میں موجود ہے۔
- قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے لیکن اڑھائی ہزار سال کے بعد اس کا بدل جانا ضروری ہے۔
- سفید فام لوگ شیطان کی نسل سے ہیں۔
- نماز صرف کھڑے ہو کر دعا کرنے کا نام ہے۔
- روزے رمضان المبارک کی بجائے ماہ دسمبر کے فرض ہیں۔
- مچھلی، سفید چاول اور سفید آلو حرام ہیں۔
عالیجاہ محمد کے قریبی ساتھیوں میں اس کے ایک منسٹر ’’مالکم ایکس‘‘ تھے۔ سابق امریکی صدر مسٹر کینیڈی کے قتل کے موقع پر ایک اخباری بیان دینے پر ان دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے بتدریج بڑھتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد مالکم ایکس کو حج بیت اللہ کے لیے جانے کا موقع ملا تو انہوں نے بے شمار سفید فام مسلمانوں کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جس سے ان کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوا کہ حرم پاک میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے والے یہ بے شمار سفید فام آخر شیطان کی نسل سے کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس شک نے بڑھتے بڑھتے تجسس کی شکل اختیار کر لی۔ مالکم ایکس نے مختلف لوگوں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو اصل اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور پایا۔ واپس جا کر انہوں نے عالیجاہ محمد سے بغاوت کا اعلان کیا اور صحیح اسلام کا پرچار شروع کر دیا۔ بہت سے لوگ جن کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پہلے سے موجود تھے مالکم ایکس کے گرد اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ مالکم ایکس نے اپنے نام کے ساتھ ایکس کا لاحقہ ہٹا کر شہباز کو اس کا متبادل بنایا اور ’’مالکم شہباز‘‘ کہلانا شروع کر دیا لیکن یہ مرد مجاہد ابھی پوری طرح اپنا حلقہ منظم نہ کر پایا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں اسے شہید کر دیا گیا۔ مالکم شہباز شہیدؒ کے قتل کے الزام میں تین افراد پکڑے گئے جن میں سے دو بری ہو چکے ہیں جبکہ تیسرا ابھی جیل میں ہے۔ وہ قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور اس کا تعلق عالیجاہ محمد کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے ہے۔ اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ مالکم شہباز کو عالیجاہ محمد کی جماعت نے شہید کرایا ہے۔
عالیجاہ محمد کے مرنے کے بعد اس کا لڑکا ویلس دین محمد اس کا جانشین بنا لیکن اس کے عقائد میں بہت زیادہ تبدیلی آچکی ہے۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر نہیں بدلا لیکن اب تک عالیجاہ محمد کے بہت سے نظریات سے وہ منحرف ہو چکا ہے اور تبدیلی کا یہ عمل ابھی جاری ہے۔ مگر دوسری طرف مالکم شہیدؒ کا ایک قریبی ساتھی لوئیس فرخان ان کی شہادت کے بعد عالیجاہ محمد کے عقائد کی طرف لوٹ گیا اور اس وقت عالیجاہ محمد کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ مالکم شہباز شہیدؒ کوئی باقاعدہ جماعت منظم نہیں کر سکے تھے لیکن ان کی روشن کی ہوئی شمع نے بے شمار لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور اسلام کے صحیح عقائد کی دعوت و ترویج کا عمل نہ صرف سیاہ فام باشندوں بلکہ سفید فاموں میں بھی جاری ہے۔ امام سراج وہاج نے بتایا کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کے مختلف گروپ دعوت و تبلیغ کے عمل میں مصروف ہیں اور بہت سے سفید فام لوگ مسلمان ہو کر ہماری اس جدوجہد میں شریک ہو چکے ہیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہے کہ ان گروپوں کے درمیان ایک مستقل رابطہ کا نظام تشکیل دیں اور وسیع پیمانے پر مل جل کر کام کو آگے بڑھائیں۔
اپنے بارے میں جناب سراج وہاج نے بتایا کہ انہوں نے عیسائیت ترک کرنے کے بعد طالب علمی کے زمانے میں عالیجاہ محمد کی تعلیمات کو اسلام سمجھ کر قبول کیا تھا لیکن مالکم شہیدؒ کی طرح انہوں نے بھی سوچنا شروع کیا پھر انہیں مکہ مکرمہ جانے کا موقع ملا۔ وہاں کچھ عرصہ ’’ملک عبد العزیزؒ یونیورسٹی‘‘ میں بھی رہے۔ اس دوران انہیں اسلام کے صحیح عقائد اور دیگر ضروری امور سے آگاہی ہوئی اور اب وہ اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد پر پختگی سے کاربند ہیں اور انہیں صحیح اسلام سمجھتے ہوئے ان کے پرچار میں مصروف ہیں۔ جناب سراج وہاج نے بتایا کہ امریکہ میں عالیجاہ محمد کے گروپ کے علاوہ مہدی سوڈانی گروپ ’’انصار اللہ‘‘ کے نام سے متحرک ہے اور ایک اور گروپ بھی نمودار ہوا ہے جس کی راہنمائی ٹوسان نامی شہر کے ڈاکٹر راشد خلیفہ کر رہے ہیں۔ ان صاحب نے پہلے ایک مقالہ میں علم الاعداد کے حوالہ سے ۱۹ کے عدد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس کے ذریعے قرآن کریم کی صداقت کو ثابت کیا۔ ایک نئی فنی تحقیق ہونے کی وجہ سے اسے پسند کیا گیا لیکن ان کی دوسری تحقیق یہ تھی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ۱۹ کے عدد کے فارمولا پر پوری نہیں اترتیں اس لیے احادیث سب جعلی ہیں۔ اور اب قرآن کریم کی بعض سورتیں اور آیات بھی ان کی تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں اور تنقید کی بنیاد وہی ۱۹ کا عدد ہے۔
امریکہ میں رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت کی محنت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عام مسلمانوں کی اصلاح اور انہیں اسلامی احکام پر عمل کا پابند بنانے کی حد تک اس جماعت کا عمل بہت مفید اور مؤثر ہے اور اس کے اچھے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں زیادہ ضرورت غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کے عمل کو وسیع کرنے کی ہے اور ہم اس سلسلہ کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امام سراج وہاج دعوت و تبلیغ کے ساتھ اصلاحِ معاشرہ کے لیے جذبۂ جہاد سے بھی سرشار ہیں اور اس سلسلہ میں جیل بھگت چکے ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نیویارک میں ایک فلسطینی کی بلڈنگ میں کچھ کرایہ داروں نے منشیات کے کاروبار کا اڈہ بنایا ہوا تھا۔ بلڈنگ کے مالک نے پولیس کو شکایت کی مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ اس نے اپنی پریشانی کا ذکر امام سراج وہاج سے کیا، انہوں نے چند ساتھی ساتھ لیے اور بلڈنگ میں جا کر منشیات کا کاروبار کرنے والوں سے کہا کہ وہ فوری طور پر مکان خالی کر دیں۔ انہوں نے لیت و لعل سے کام لیا تو جناب سراج وہاج اور ان کے رفقاء نے زبردستی عمارت خالی کرا لی اور کرایہ داروں کا سامان وغیرہ نکال کر باہر پھینک دیا۔ اس کے بعد پولیس آئی اور انہیں گرفتار کر کے لے گئی، وہ پانچ دن جیل میں رہے، ان کے باقی ساتھی بھی جیل میں کچھ عرصہ رہے پھر ضمانت پر رہائی ہو گئی۔ مگر ٹی وی اور اخبارات نے اس واقعہ کو بہت زیادہ اہمیت دی اور پولیس کے رویہ کو ہدفِ تنقید بنایا کہ اس نے منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اس کاروبار کے خلاف جہاد کرنے والوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس واقعہ سے امریکہ کے عوامی حلقوں میں امام سراج وہاج کی شہرت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
جناب سراج وہاج نے ان دنوں ایک اور معرکہ کا آغاز کر دیا ہے اور وہ ان کی دوسری شادی ہے جس کا امریکی معاشرہ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی پہلی اہلیہ موجود ہیں جن سے پانچ بچیاں اور دو بچے ہیں اور اب انہوں نے دوسری شادی کی ہے جو امریکی قانون کے مطابق جرم ہے اور اس کی سزا پانچ سال قید ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ ’’جرم‘‘ انہوں نے کیوں کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا ہے اور میں اس کے ذریعے عدالت کا سامنا کرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ اس جرم میں مجھے پکڑا جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے اور خدا کرے کہ بات سپریم کورٹ تک پہنچے۔ میں جج صاحبان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک عورت اور چند بچے ہیں، وہ شخص عدالت کو بتاتا ہے کہ یہ عورت میری بیوی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ میرے ویسے ہی تعلقات ہیں اور اس سے یہ بچے میرے ہی ہیں۔ عدالت کے استفسار پر وہ کہتا ہے کہ میری بیوی کو ان تعلقات کا علم نہیں ہے اور میں خفیہ طور پر ان تعلقات کو نباہ رہا ہوں۔ عدالت کے دوسرے استفسار پر وہ بتاتا ہے کہ وہ نہ تو اس عورت کو کوئی خرچہ دے رہا ہے اور نہ ہی اس کے بچوں کے اخراجات اور تعلیم کا بندوبست کر رہا ہے۔ اس شخص کو عدالت کہتی ہے کہ جاؤ تم آزاد ہو تم نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ دوسری طرف ایک اور شخص عدالت میں پیش ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک عورت اور چند بچے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس عورت کے ساتھ میں نے نکاح کیا ہے جس کا میری پہلی بیوی کو علم ہے اور وہ اس پر راضی ہے بلکہ میں نے اس شادی کا مسجد میں اعلان کیا ہے۔ اس سے ہونے والے یہ بچے میرے ہیں، میں اس عورت کو خرچہ دیتا ہوں اور ان بچوں کی پرورش اور تعلیم کا انتظام بھی کرتا ہوں۔ اس شخص کو عدالت کہتی ہے کہ تم نے ’’جرم‘‘ کا ارتکاب کیا ہے اس لیے تمہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔
(امام سراج وہاج نے کہا کہ) میں امریکی نظامِ قانون کے ذمہ دار حضرات کے سامنے کھڑے ہو کر ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انصاف کا تقاضا یہی ہے اور کیا قانون و انصاف کا یہ نظام انسانیت کے وقار و معیار پر پورا اترتا ہے؟
جناب سراج وہاج پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے اس عزم کا اظہار کر رہے تھے اور میرے ذہن کے پردۂ اسکرین پر ایک اور سیاہ فام امریکی نومسلم محمد علی کلے کی تصویر ابھر رہی تھی جس نے ویت نام کی جنگ کے لیے جبری بھرتی کو اپنے مذہبی عقائد کے منافی قرار دے کر بھرتی ہونے کی بجائے امریکی نظام انصاف کا سامنا کرنے اور جیل بھگتنے کو ترجیح دی تھی۔ اللہ تعالیٰ امام سراج وہاج کو اپنے اس عزم میں ثابت قدم رکھیں اور امریکی معاشرت کے نازک اور حساس پہلو کو چیلنج کے اس معرکہ میں کامرانی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔