بعض مضامین میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد جب فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تو اس نے یہودیوں کے ساتھ اپنے وعدہ ’’اعلان بالفور‘‘ کے مطابق دنیا بھر کے یہودیوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ فلسطین میں آکر زمینیں خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ یہ اجازت خلافت عثمانیہ نے یہودیوں کے عالمی وفد کی باقاعدہ درخواست کے باوجود نہیں دی تھی جس کی پاداش میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے یہودیوں نے یورپ کی مسیحی طاقتوں سے اتحاد کر لیا تھا۔ اس موقع پر بعض عرب علماء نے فلسطینیوں کو یہودیوں پر اپنی زمینیں بیچنے سے روکنے کے لیے فتویٰ صادر کیا تھا کہ یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس فتویٰ کی تائید ہمارے برصغیر کے اکابر علماء کرام بالخصوص حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی فرمائی تھی۔
اس حوالہ سے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ بات خلاف واقعہ ہے اور فلسطینیوں کے خلاف غلط طور پر پھیلائی گئی ہے جس پر کچھ حضرات نے مجھ سے اس کا حوالہ طلب کیا ہے۔ چنانچہ اس کی وضاحت کے لیے گزارش کر رہا ہوں کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی ’’بوادر النوادر‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب ہے جس میں ان کے بہت سے نادر اور مختلف النوع علمی مضامین اور فتاویٰ کو یکجا شائع کیا گیا ہے، اس میں چوہترواں (۷۴) نادرہ اسی مسئلہ کے بارے میں ہے جو ایک استفتاء کے جواب میں ہے اور عربی زبان میں ہے۔ استفتاء میں کہا گیا ہے کہ بعض مسلمان فلسطین کی زمینیں یہودیوں پر فروخت کر رہے ہیں اور بہت سے مسلمان حضرات اس خرید و فروخت میں ذریعہ بن رہے ہیں، ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ کیونکہ یہودی ایک منصوبہ کے تحت فلسطین میں آباد ہو کر اور بیت المقدس پر قبضہ کر کے اپنا معبد ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد بے وطن ہو جائے گی بلکہ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ یہودی منصوبے کے مطابق تعمیر سے مسجد اقصیٰ بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس استفتاء کے جواب میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فقہی دلائل کے ساتھ یہ واضح کیا تھا کہ یہودیوں پر اپنی زمینیں فروخت کرنے والے فلسطینیوں کا یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس فتویٰ پر ’’للثلث الاول فی رمضان المبارک ۵۳ھ‘‘ کی تاریخ درج ہے اور ’’کتبہ اشرف علی التھانوی الحنفی الفاروقی عفی عنہ من الہند‘‘ تحریر ہے۔
جہاں تک فلسطینیوں کے مظلوم ہونے کا تعلق ہے اس میں کوئی کلام نہیں ہے اور یہودیوں کے جبر و تسلط اور ان کے ناپاک عزائم کی مخالفت و مزاحمت ہمارے دینی فرائض میں سے ہے، اس میں ہم مکمل طور پر فلسطینی قوم اور عرب عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر ممکن حمایت و معاونت کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کسی مظلوم کی حمایت و نصرت کے لیے اسے معصوم ثابت کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے ایسے مصائب کا سبب بننے والی غلطیوں سے آگاہ کرنا بھی نصرت و حمایت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ خود قرآن کریم کا اسلوب یہی ہے کہ اس نے ’’فبما کسبت ایدیکم‘‘ فرما کر عمومی قانون بیان کیا ہے کہ قوموں کے مصائب و آلام کے اسباب ان کی اپنی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ غزوۂ احد میں مسلمانوں کی وقتی ہزیمت اور نقصانات کے اسباب کا تفصیل کے ساتھ تجزیہ کر کے قرآن کریم نے ان غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو وقتی طور پر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ جانے کا سبب بنی تھیں۔ حتیٰ کہ جب یہ پوچھا گیا کہ ’’انٰی ھذا؟‘‘ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟ تو قرآن کریم نے دوٹوک جواب دیا کہ ’’ھو من عند انفسکم‘‘ یہ تمہاری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح غزوۂ حنین میں جب وقتی طور پر مسلمان لشکر کے پاؤں اکھڑے تو ’’اذ اَعجبتکم کثرتکم‘‘ کہہ کر قرآن کریم نے اس کا سبب بتا دیا کہ تم اپنی کثرت کے باعث بے پروا ہوگئے تھے۔
پھر اگر مصائب و مشکلات اور ناکامیوں کے اسباب واضح کرنے کی بجائے ان پر پردہ ڈالنے کی روش اختیار کر لی جائے تو اصلاح احوال کے امکانات بھی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ مظلوم کی حمایت ضرور کی جائے اور پوری قوت کے ساتھ کی جائے لیکن اسے معصوم اور بے قصور ثابت کرنے کی بجائے ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کرنا بھی اس کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا تقاضا ہوتا ہے جو اس کے مصائب و آلام کا سبب اور باعث بنتی ہیں۔
قصور کی معصوم بچی زینب شہید جس درندگی اور وحشت کا نشانہ بنی ہے اس پر ہم بھی پوری قوم کے اجتماعی کرب و اضطراب میں شریک ہیں مگر جب کچھ لکھنے کے لیے قلم پکڑا تو دماغ ماؤف سا ہوگیا ہے کہ کیا لکھوں، کیسے لکھوں اور کس کو لکھوں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ یہ درندگی کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اب تو ایسی شرمناک اور وحشتناک وارداتوں کی لائن ہی لگتی جا رہی ہے۔ خدا جانے ہماری اجتماعی بد اعمالیاں، بے حسی بلکہ سنگدلی اور کیا کیا گل کھلائے گی! جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کسی یہودی نے ایک معصوم بچی کے گلے میں ہار دیکھ کر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا تو آنحضرتؒ نے اس کیس کی خود تفتیش فرمائی تھی اور مجرم کو گرفتار کر کے اس کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان کچل کر رکھ دیا تھا۔ مگر یہ روایات اب ہمارے لیے خدانخواستہ اجنبی ہوتی جا رہی ہیں، ہم نام نہاد تہذیب و تمدن اور سولائزیشن کے اس دور میں رہتے ہیں جسے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ کہا جاتا ہے اور جس میں سزا میں سختی کو تو انسانی عزت نفس کے منافی سمجھا جاتا ہے مگر شرف و عزت اور تحفظ و وقار کے سارے حقوق قاتلوں، ڈاکوؤں، درندوں، بدکاروں اور لٹیروں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں۔
ابھی لاہور کے دانشور دوست پروفیسر رفرف صاحب نے ایک پوسٹ بھجوائی ہے اسی کو اپنے احساسات اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنا رہا ہوں:
’’نواب کالاباغ بڑے سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے دور میں لاہور میں ایک پانچ سالہ بچہ اغوا ہوگیا۔ نواب صاحب نے ایس ایس پی کو بلوا کر چوبیس گھنٹے کے اندر بچہ برآمد کرنے کا حکم دیا۔ چوبیس گھنٹے گزر گئے مگر بچہ برآمد نہ ہوا تو نواب صاحب نے اگلے دن اے ایس پی، ایس پی اور ایس ایس پی کے بچے منگوائے اور کالاباغ بھجوا دیے اور اعلان کیا کہ جب تک پولیس اغوا شدہ بچہ برآمد نہیں کرے گی اس وقت تک ان افسروں کے بچے انہیں واپس نہیں ملیں گے۔ یہ نسخہ کامیاب ہوگیا اور پولیس نے اسی دن بچہ برآمد کر لیا۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک عوام کے مسئلہ کی تکلیف بیوروکریسی تک نہیں پہنچتی افسر اس وقت تک وہ مسئلہ حل نہیں کرتے۔‘‘