استحکامِ پاکستان کی جدوجہد کے پانچ اہم دائرے

   
۱۸ جنوری ۲۰۲۴ء

(ای لائبریری، جناح اسٹیڈیم، سیالکوٹ روڈ، گوجرانوالہ میں ’’استحکامِ پاکستان سیمینار‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مرکزی علماء کونسل گوجرانوالہ بالخصوص مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا عبید اللہ حیدری اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں کہ آج کی اہم قومی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیمینار کا اہتمام کیا اور اس میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ استحکامِ پاکستان کے حوالے سے غور و فکر اور اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے تبادلۂ خیالات آج کا اہم قومی تقاضہ ہے اور میں اس کے بارے میں پانچ دائروں میں گفتگو کروں گا۔

سب سے پہلا دائرہ تو ملکی سرحدوں اور سالمیت کے تحفظ کا ہے جو ہم سب کی ذمہ داری ہے، مگر اس کے لیے تین مراحل کا ہمارے سامنے رہنا ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کے قیام کے وقت ہم نے اس کی جو سرحدی حدود طے کی تھیں وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں، ان حدود کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے مگر ابھی تک وہ ہماری سرحدی حدود میں پورا شامل نہیں ہو سکا، اس لیے ہماری پہلی ذمہ داری کشمیر کی آزادی اور اس کی پاکستان میں شمولیت ہے، جس کے بغیر پاکستان اپنے قیام کے منصوبے کے مطابق مکمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم اس سے قبل ۱۹۷۰ء/ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی سرحدی سالمیت کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جب پاکستان دو لخت ہو گیا تھا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ ہمیں نہ صرف اسے یاد رکھنا چاہیے بلکہ اس کے اسباب و عوامل کو ذہنوں میں تازہ کرنے کے لیے ’’حمود الرحمٰن کمیشن‘‘ کی رپورٹ کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے جس میں عدالتِ عظمیٰ نے ملک کے دو لخت ہو جانے کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا تھا اور ان کے تدارک کے لیے سفارشات مرتب کی تھیں۔ میری گزارش ہو گی کہ تمام اداروں، اسٹیک ہولڈرز، طبقات، سیاسی راہنماؤں، دینی قائدین اور ارباب فکر و دانش کو اس کا ایک بار پھر سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم ان غلطیوں اور حماقتوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں جو اس سے قبل ملک کی افسوسناک تقسیم کا باعث بن چکے ہیں۔

اس سلسلہ میں تیسری بات یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اب پھر علاقائی صورتحال وہی رخ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے، اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اس سے باخبر اور چوکنا ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ’’حمود الرحمٰن کمیشن‘‘ کو دوبارہ سامنے لانا بھی ضروری ہے۔

دوسرا دائرہ ملک کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص و امتیاز کے تحفظ کا ہے۔ مسلم تہذیب کے تحفظ اور اسلامی احکام کی عملداری کا وہ مقصد جس کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا، آج مغربی تہذیب کی یلغار اور بین الاقوامی معاہدات کی زد میں ہے۔ بین الاقوامی سیکولر قوتیں اور ملک کے اندر سیکولر حلقوں اور لابیوں نے ہماری ’’اسلامیت‘‘ کا حصار کر رکھا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کو اسلام اور مسلم تہذیب کے تشخص سے محروم کر کے سیکولر ریاست بنانے کے لیے سیکولر حلقے آج جس قدر منظم اور متحرک ہیں اس سے قبل نہیں تھے۔ اس لیے استحکامِ پاکستان کی جدوجہد کا یہ بھی اہم ترین دائرہ ہے جسے ہم کسی صورت میں نظرانداز نہیں کر سکتے۔

تیسرا دائرہ قومی خودمختاری کی بحالی کا ہے کہ ہماری سیاست اور معیشت دونوں اس وقت مسلسل بین الاقوامی مداخلت کا شکار ہیں اور ہم ان میں سے کسی حوالے سے بھی اپنے فیصلے خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف اور اس جیسے دیگر بین الاقوامی اداروں نے ہماری سیاست اور معیشت دونوں کو جکڑ رکھا ہے۔ اس لیے استحکامِ پاکستان کا سب سے بڑا تقاضہ ملک کو اس دلدل سے نجات دلانا ہے، اس کے بغیر ہم کسی شعبہ میں کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔

چوتھا دائرہ قومی وحدت کا ماحول قائم رکھنے اور اسے مضبوط و مستحکم بنانے کا ہے۔ مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے، اس کے علاوہ لسانی جھگڑے اور قومیتوں کی باہمی محاذ آرائی استحکامِ پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔ ہم نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا جو دستور کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ کی ہدایات میں شامل ہے، مگر اسے ابھی تک ہمارے دفتروں، عدالتوں اور اداروں میں اس کا صحیح مقام نہیں مل سکا اور ہم پر ابھی تک انگریزی زبان مسلط ہے۔ اسی طرح مذہبی فرقوں، سیاسی گروہوں، لسانی قومیتوں اور علاقائی جماعتوں کے درمیان باہمی منافرت بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو ختم نہیں کر سکتا۔ یہ سب پاکستان کا حصہ ہیں، ان کے درمیان توازن ناگزیر ہے جو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ چنانچہ قومی وحدت کے تقاضوں کو پورا کرنا استحکامِ پاکستان کی جدوجہد کا چوتھا دائرہ ہے۔

جبکہ پانچویں نمبر پر ایک اور دائرہ کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ جنوبی ایشیا کی علاقائی صورتحال میں مسلمانوں کی حیثیت کو بتدریج کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے یہاں ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ہم اس سے محروم ہو گئے تھے جس کی کسی حد تک تلافی ہم نے پاکستان کے قیام کے ذریعے کر لی تھی۔ مگر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی مجموعی پوزیشن اور مقام آج مزید خطرات سے دوچار ہے اور ہمیں اس حوالے سے دیوار سے لگانے کی مہم جاری ہے۔ ہمیں اس کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور علاقائی منظر میں اپنے وجود، پوزیشن اور توازن کو قائم رکھنے کے لیے محنت کرنی چاہیے جو استحکامِ پاکستان کا ناگزیر تقاضہ ہے۔

مرکزی علماء کونسل کا ایک بار پھر شکرگزار ہوں کہ مجھے آج کے سیمینار میں یہ ضروری گزارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے ملک کی سالمیت و استحکام کے لیے صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter