جمعیۃ علماء اسلام کے انتخابات اور دستور

   
۲۷ اپریل ۱۹۷۹ء

حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی مدظلہ نے ایک خصوصی حکم کے تحت جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی اور انتخابات کے نظام الاوقات میں درج ذیل ترمیم فرما دی ہے:

  • ابتدائی انتخابات اور رکن سازی کا باقی ماندہ کام جمادی الاخریٰ کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا۔
  • ضلعی انتخابات رجب اور شعبان کے دوران کرائے جائیں گے۔
  • صوبائی انتخابات شوال المکرم کے پہلے عشرہ میں اور مرکزی انتخابات آخری عشرہ میں منعقد کیے جائیں گے۔
  • مرکزی انتخابات کے موقع پر لاہور میں دو روزہ کُل پاکستان نظامِ مصطفیٰ کانفرنس منعقد ہو گی جو جمعیۃ کی شاندار روایات کی آئینہ دار ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت الامیر مدظلہ نے ملک بھر میں تمام کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جوش و خروش سے رکن سازی و جماعتی انتخابات مکمل کر لیں اور نظامِ مصطفیٰ کانفرنس کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کر دیں۔
  • ڈویژنل الیکشن کمیٹیوں کی فہرست ترجمانِ اسلام کی ۱۳ اپریل کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔ ان میں ہر کمیٹی کے اول الذکر رکن اس کمیٹی کے سربراہ ہیں، وہ باقی دوستوں سے فوری طور پر رابطہ قائم کر کے ضلعی جمعیتوں اور ضلع و تحصیل صدر مقامات کے جمعیتوں کے انتخابات کی نگرانی کا نظام وضع کر لیں۔
  • جمعیۃ علماء اسلام کا دستور ایک بار پھر ترجمانِ اسلام کے صفحات پر شائع کیا جا رہا ہے۔ تمام حضرات بغور مطالعہ فرما لیں اور رکن سازی و جماعتی انتخابات کے تمام عمل میں دستور کی پابندی کا بطور خاص خیال رکھیں۔


دستور کُل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام

دفعہ ۱

اس جمعیۃ کا نام ’’کُل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام‘‘ ہو گا۔ اس کا مرکزی دفتر لاہور میں اور صوبائی دفاتر صوبوں کے صدر مقامات میں ہوں گے یا جہاں صوبائی مجلسِ عمومی طے کریں گی۔

دفعہ ۲

کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں گے:

الف: علماء اسلام کو ایک مرکز پر مجتمع کر کے اقامتِ دین اور اشاعتِ اسلام کے لیے منظم جدوجہد کرنا اور اس مقصد کے لیے علماء دین کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کرنا۔

ب: اسلام اور مرکزِ اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائرِ اسلام کی حفاظت کرنا۔

(۲) قرآن مجید و احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کی روشنی میں نظامِ حیات کے تمام شعبوں سیاسی، مذہبی، اقتصادی، معاشی اور ملکی معاملات میں مسلمانوں کی رہنمائی اور اس کے موافق عملی جدوجہد کرنا۔

(۳) پاکستان میں صحیح حکومتِ اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کے لیے ایسی کوشش کرنا جس سے باشندگانِ پاکستان ایک طرف انسانیت کش سرمایہ داری اور دوسری طرف الحاد آفرین اشتراکیت کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر فطری معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں۔

(۴) مملکتِ پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظامِ تعلیم کی ترویج و ترقی کے لیے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیتِ الٰہی، خوفِ آخرت اور پابندئ ارکانِ اسلام کے علاوہ فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔

(۵) مسلمانانِ پاکستان کے دلوں میں جذبۂ جہاد فی سبیل اللہ، ملکی دفاع، استحکام اور سالمیت کے لیے جذبۂ ایثار پیدا کرنا۔

(۶) مسلمانوں میں مقصدِ حیات کی وحدت، فکر و عمل کی یگانگت، اور اخوتِ اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سے صوبائی، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصبات دور ہوں۔

(۷) مسلمانانِ عالم سے اقامتِ دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلہ میں مستحکم روابط کا قیام۔

(۸) تمام محکوم مسلم ممالک کی حریت و استقلال اور غیر مسلم ممالک کی مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کے لیے موقع پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔

(۹) مختلف اسلامی اداروں مثلاً مساجد، مدارس، کتب خانوں اور دارالیتامیٰ کی حفاظت، اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنا۔

(۱۰) تحریر و تقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کارروائیوں کی روک تھام کرنا۔

دفعہ ۳: شرائط رکنیت

ہر بالغ مسلمان (مرد اور عورت) جمعیۃ علماء اسلام کا رکن بن سکتا ہے، بشرطیکہ:

الف: وہ جمعیۃ کے اغراض و مقاصد سے متفق ہو۔

ب: سہ سالہ مدت کے لیے ایک روپیہ فیس رکنیت ادا کرے۔

ج: جماعتی نظم و نسق کی پابندی اور پروگرام کو کامیاب بنانے کا عہد کرے۔

د: فارم رکنیت پُر کرے، یا بوقتِ ضرورت امیر جمعیۃ کی اجازت سے ممبری کے رجسٹر پر دستخط کرے۔

دفعہ ۴: تشکیل

(۱) جمعیۃ علماء اسلام کی ایک مرکزی تنظیم ہو گی جس کے تحت تمام صوبائی جمعیتیں ہوں گی۔

(۲) صوبائی جمعیتوں کی تنظیم حسبِ ذیل صورت میں ہو گی:

الف: ابتدائی جمعیۃ، ضلعی جمعیۃ اور صوبائی جمعیۃ۔

نوٹ: ضلعی جمعیۃ حسبِ ضرورت ذیلی تنظیمیں بنا سکتی ہے۔
ب: جمعیۃ کی ہر تنظیم کے لیے اسی طرح پر رضاکاروں کا ایک نظام ’’انصار الاسلام‘‘ کے نام سے ہو گا۔

(۳) مرکزی اور صوبائی جمعیتوں کے عہدیدار درج ذیل ہوں گے:

امیر : ۱

نائب امیر : ۴

ناظم عمومی : ۱

ناظم : ۴

خازن : ۱

سالار : ۱

اس کے علاوہ ماتحت جمعیتوں کے لیے نائب امیر اور ناظم کا عہدہ ضروری نہیں ہو گا۔ البتہ بوقتِ ضرورت دو تک رکھ سکتی ہیں۔

(۴) ہر جمعیۃ کے لیے تین مجلسیں ہوں گی:

(۱) مجلس عمومی (۲) مجلس شوریٰ (۳) مجلس عاملہ

دفعہ ۵: مجالس عمومی جمعیۃ علماء اسلام

الف: جمعیۃ علماء اسلام کا فارم رکنیت پر کرنے والے تمام ارکان ابتدائی جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس عمومی کے ارکان ہوں گے۔ اور ہر ماتحت جمعیۃ سے بالائی جمعیۃ کے لیے منتخب نمائندوں پر مشتمل اس جمعیۃ کی مجلس عمومی ہو گی۔

ب: ابتدائی جمعیۃ کے ہر دس ارکان پر ایک رکن، ضلعی جمعیۃ کے لیے ضلع کے ہر دس ارکان پر ایک رکن، صوبائی جمعیۃ کے لیے اور صوبائی جمعیۃ کے ہر پانچ ارکان پر ایک رکن، مرکزی جمعیۃ کے لیے بطور رکن مجلس عمومی منتخب ہو گا۔

دفعہ ۶: مجالس شوریٰ

ہر جمعیۃ کا امیر اپنی مجلسِ عمومی میں سے چند صائب الرائے حضرات کو اپنے مشورہ کے لیے نامزد کرے گا۔ جن کی تعداد بشمولیت عہدیداران زیادہ سے زیادہ ۳۱ سے ۴۵ تک ہو گی۔

دفعہ ۷: مجلسِ عاملہ

ہر جمعیۃ کی مجلسِ عاملہ اس کے عہدیداروں پر مشتمل ہو گی۔

دفعہ ۸

الف: ابتدائی جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل کے لیے کم از کم دس ارکان ضروری ہوں گے۔ خواہ چند گاؤں کو ملا کر ہی جمعیۃ تشکیل دی جائے۔

ب: ضلعی سطح پر جمعیۃ کے قیام کے لیے ضروری ہو گا کہ اس ضلع میں کم از کم پانچ ابتدائی جمعیتیں موجود ہوں۔ ورنہ ابتدائی جمعیتوں کا الحاق براہِ راست صوبہ کے ساتھ ہو گا۔

ج: امیرِ جمعیۃ مجلسِ عمومی کے منتخب ارکان کے علاوہ (ابتدائی جمعیۃ کے سوا) ہر سطح پر اپنے اختیار سے مجلسِ عمومی کے لیے اتنے ممبر نامزد کر سکے گا جو کل منتخب ممبروں کے دسویں حصہ سے زیادہ نہ ہوں، مگر نامزد ارکان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

د: ہر جمعیۃ کا امیر ماتحت جمعیۃ کے عہدہ داروں اور ارکان کے خلاف حسبِ ضرورت کارروائی کر سکتا ہے اور اس فیصلہ کے خلاف اپیل ایک ماہ کے اندر امیر بالا کے پاس کی جا سکتی ہے۔

ہ: کوئی جمعیۃ اگر ضروری سمجھے تو ملک یا علاقہ کے سربرآوردہ علماء و صلحا میں سے ایک یا اس سے زائد حسبِ ضرورت سرپرست مقرر کر سکتی ہے، جن سے غیر معمولی امور میں مشورہ کیا جا سکے۔ اور یہ سرپرست اس سطح کی جمعیۃ کی مجلسِ شوریٰ کے رکن متصور ہوں گے۔

و: ہر جمعیۃ کی مجلسِ عمومی سب سے پہلے امیر کا انتخاب کرے گی، اس کے بعد باقی عہدیداروں کا، لیکن ان کا انتخاب امیر کی منظوری پر ہی حتمی متصور ہو گا۔

ی: ہر سطح پر جمعیۃ کی مجلسِ عمومی کا کوئی بھی رکن کسی بھی عہدیدار کے خلاف ایک تہائی ارکان کے دستخطوں کے ساتھ عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کر سکتا ہے۔ البتہ اس کی منظوری دو تہائی ارکان کی اکثریت سے ہو گی۔

دفعہ ۹

تمام تشکیلات میں جدید انتخاب کے وقت مجالسِ عمومی کا اجلاس سابق امیر یا ان کی عدم موجودگی میں عارضی صدر کی صدارت میں شروع ہو گا۔ اور جدید امیر کے انتخاب کے بعد تمام کارروائی ان کی صدارت میں ہو گی۔

دفعہ ۱۰: مجلس عمومی کے فرائض و اختیارات

الف: ہر جمعیۃ کی مجلسِ عمومی اس جمعیۃ کی سب سے بڑی طاقت ہو گی۔

ب: مجلسِ عمومی کے سامنے مجلسِ عاملہ و مجلسِ شوریٰ جواب دہ ہوں گی، اور اس کے فیصلے سب پر حاوی ہوں گے۔

ج: مرکزی مجلسِ عمومی جمعیۃ کے اغراض و مقاصد کی انجام دہی کے لیے موقف، پالیسی اور طریق کار متعین کرے گی۔

د: مرکزی مجلسِ عمومی ہی دستوری دفعات کے وضع کرنے اور اس میں ترمیم و تنسیخ کی مجاز ہو گی۔

ہ: مجالس کے فیصلے سادہ اکثریت کے ساتھ ہوں گے۔ البتہ دستوری دفعات ترمیم و تنسیخ کے لیے مرکزی مجلسِ عمومی کے ۲/۳ ارکان کی اکثریت لازمی ہو گی۔

و: مجلسِ عمومی جمعیۃ کے بجٹ کا اجراء کرے گی اور سال گزشتہ کے حسابات کی منظوری دے گی۔

دفعہ ۱۱: فرائض و اختیارات مجلسِ شوریٰ

الف: مجالسِ شوریٰ پیش آمدہ معاملات میں اپنے امیر کی مشیر ہوں گی۔

ب: مجلسِ شوریٰ کا اجلاس امیر جب چاہے گا بلا سکے گا۔ البتہ چھ ماہ میں ایک بار ہونا ضروری ہے۔

ج: امیر مجلسِ شوریٰ کے ارکان کی نامزدگی یومِ انتخاب سے ۱۵ دن کے اندر کریں گے۔ اور یہ نامزدگی تین سال کے لیے ہو گی۔

د: مجلسِ شورٰی کے ارکان پر لازم ہو گا کہ وہ مجلس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوں۔ اگر کوئی رکن مجلسِ شوریٰ کے مسلسل تین اجلاسوں میں شریک نہ ہو گا تو امیر اس کو عذر پیش کرنے کا موقع دے گا۔ اور معقول عذر پیش (نہ) کرنے کی صورت میں اس کا نام خودبخود رکنیت سے خارج ہو جائے گا۔

دفعہ ۱۲: فرائض و اختیارات مجلسِ عاملہ

جمعیۃ کے پروگرام کی تکمیل اور اس کی پالیسی و ماتحت جمعیتوں کی کارکردگی کی نگرانی۔

دفعہ ۱۳: امیر کے فرائض و اختیارات

الف: جمعیۃ علماء اسلام کا امیر پورے نظام کا قائد اور نگران ہو گا۔

ب: امیر مجلسِ عمومی، مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ عاملہ کے اجلاسوں کی صدارت کرے گا۔ اور ان کی عدم موجودگی میں نائب امیر یہ فرائض انجام دے گا۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے امیر اور نائب امیر موجود نہ ہو، اور اجلاس باضابطہ بلایا گیا ہو، تو ایسی صورت میں مجلس حاضرین میں سے کسی کو اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب کر کے اجلاس جاری رکھے گی، مگر بعد میں فیصلوں کی توثیق امیر سے کرانی ہو گی۔

ج: امیر اپنی علالت یا غیر موجودگی میں عارضی طور پر کسی نائب امیر کو اپنا قائم مقام نامزد کرے گا جو کہ امارت کے فرائض انجام دے گا۔

د: اگر کسی وقت امیر کے استعفیٰ یا کسی دوسری وجہ سے عہدۂ امارت خالی ہو تو نائب امیر اول تاانتخابات قائم مقام امیر شمار ہو گا۔ اس صورت میں امیر کا انتخاب چھ ماہ کے اندر ضروری ہو گا۔

ہ: امیر اپنی مجلسِ شوریٰ کے مشورے سے کام کرے گا۔ اور وہ تمام اہم معاملات جو مختلف فیہا ہو سکتے ہیں، یا جن سے جمعیۃ کی پالیسی پر اثر پڑ سکتا ہے، مجلسِ شوریٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔

و: امیر کے اختیارات میں مندرجہ ذیل امور بھی شامل ہوں گے:

معاملات کو مجلسِ شوریٰ میں پیش کرنا اور بعد از بحث ان کے متعلق فیصلہ دینا۔ جو معاملات مجلسِ شوریٰ میں مختلف فیہا ہوں گے، ان میں آخری فیصلہ امیر کی صوابدید پر ہو گا۔

کسی ماتحت جمعیۃ کو توڑنا یا الحاق کرنا۔

جمعیۃ کی تمام املاک کی حفاظت اور جمعیۃ کے مفاد کے لیے ان میں تصرف۔

جمعیۃ کے بیت المال کو جمعیۃ کے مفاد کے لیے صَرف کرنا۔

مجلسِ شوریٰ کے ارکان کو حسبِ دستور نامزد کرنا۔

بعض اہم مسائل میں مجلسِ شوریٰ کی بحثوں میں بعض غیر ممبر حضرات کو شرکت کی دعوت دینا جو متعلقہ مسائل میں خاص بصیرت رکھتے ہوں۔

کسی ماتحت امیر، عہدیدار، رکن مجلسِ شوریٰ، یا رکن جمعیۃ کو معزول کرنا جو جمعیۃ کے اغراض و مقاصد میں وفادار ثابت نہ ہوں۔

اہم امور میں اپنی صوابدید کے مطابق کسی سے خط و کتابت یا گفت و شنید کرنا اور ان کے بارے میں کوئی اعلان جاری کرنا۔

نظماء و عمّالِ دفتر کے کام کی نگرانی کرنا اور شکایتوں کی سماعت کرنا۔

نائبین امیر میں حسبِ صوابدید فرائض کو تقسیم کرنا۔

اگر کسی مقام کے عہدیدار جمعیۃ کے امور میں سستی اور کاہلی سے کام لیں اور بالائی جمعیۃ کی ہدایت کی پرواہ نہ کریں تو ایسی صورت میں امیر بالا کام چلانے کی غرض سے دوسرے قائم مقام عہدیداروں کی نامزدگی کر سکتے ہیں۔

ماتحت امراء اگر کسی معاملہ میں مجلسِ شوریٰ کی اکثریت کے خلاف فیصلہ دیں تو ان کو اس کی منظوری امیر بالا سے حاصل کرنی ضروری ہو گی۔

نائب امیر سپرد شدہ امور کو سرانجام دے گا، اور امیر کی عدم موجودگی میں اس کے نامزد کرنے پر قائم مقام امیر ہو گا۔

ایک سے زیادہ نائب امیر ہونے کی صورت میں امیر اُن میں درجات قائم کرے گا۔

دفعہ ۱۴: ناظمِ عمومی کے فرائض و اختیارات

ناظمِ عمومی جمعیۃ کی طرف سے طے شدہ امور پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہو گا، اور ماتحت جمعیتوں کی عملی کارکردگی کی دیکھ بھال کرے گا۔ اس کے ساتھ مندرجہ ذیل امور میں بھی ناظمِ عمومی کے فرائض شامل ہوں گے:

ماتحت جمعیتوں کو فیصلوں کی اطلاع دینا۔

دفتر اور اس سے متعلق تمام کاغذات کو باقاعدگی سے رکھنا۔

تمام فیصلوں کا ریکارڈ رکھنا اور امیر سے ان کی توثیق کرانا۔

مجالس کے اجلاس کے لیے امیر کی ہدایت کے مطابق حسبِ ضابطہ پیش نامہ جاری کرنا۔

دفتر کے عملہ اور ملازمین کی نگرانی کرنا۔

ناظمِ عمومی کو تنخواہ دار ملازمین کے تقرر و تنزل، تعطل و برخاستگی اور رخصت وغیرہ کا اختیار ہو گا، اور اس کی توثیق امیر سے کرائی جائے گی۔

مختلف شعبہ جات بمشورہ امیر تحریراً ناظموں میں تقسیم کرنا اور مفوضہ شعبہ جات کی نگرانی کرنا۔

حسبِ ضرورت مختلف شعبہ جات کے انچارج مقرر کرنا اور تحریراً ان کے فرائض متعین کرنا۔

ماتحت ملازمین اور کارکنوں میں تقسیم کار اور ان کے کاموں کی نگرانی رکھنا۔

تمام ماتحت مجالس کی نگرانی کرنا اور ان کی کارگزاری سے امیر کو مطلع کرنا۔

دفعہ ۱۵: نظماء کے فرائض و اختیارات

الف: اگر ناظم ایک سے زائد ہوں تو ان میں درجات کی ترتیب ہو گی جس کا تعین ناظم عمومی کریں گے۔

ب: ناظم سپرد شدہ ذمہ داریوں کو سرانجام دے گا۔ اور ناظمِ عمومی کی عدم موجودگی میں ان کی طرف سے نامزدگی کی صورت میں قائم مقام ناظمِ عمومی کے فرائض سر انجام دے گا۔

دفعہ ۱۶: انتخابات کے لیے ضروری قواعد

الف: تمام ابتدائی جمعیتوں میں اراکین کی فہرست رجسٹر میں درج ہو گی اور ضلع میں بھی تمام ماتحت جمعیتوں اور ان کے ممبروں کے نام کا رجسٹر ہو گا۔

ب: فارم رکنیت کا ایک پرت جس پر مختصراً اغراض مقاصد درج ہوں گے، پُر کر کے ممبر کو دیا جائے گا۔ دوسرا پرت ضلعی جمعیۃ کو بھیجا جائے گا۔ اور تیسرا پرت صوبائی جمعیۃ کی وساطت سے مرکز کو بھیجا جائے گا۔ فارم کے ہر پرت پر اس کی تصریح درج ہو گی۔

ج: امراء مجلسِ شوریٰ نامزد کرتے وقت خیال رکھیں گے کہ ان کی مجلسِ شوریٰ میں ضلع میں ۱/۴ علماء دین، صوبہ میں ۱/۳ علماء، اور مرکز میں ۱/۲ حصہ علماء کا ہونا ضروری ہو گا۔ اگر کسی ضلع میں علماء کی تعداد میں کمی ہو تو اس کے لیے مرکز سے خصوصی اجازت حاصل کی جا سکتی ہے۔

تشریح

عالمِ دین سے مراد وہ مسلمان ہے جس نے کسی باقاعدہ مدرسہ عربیہ میں یا کسی مستند عالمِ دین سے علومِ عربیہ اسلامیہ کی تکمیل کی ہو۔ اگر ضرورت پڑے تو ثبوت کے لیے سندِ فراغت یا کسی ایسے عالمِ دین کی تصدیق کافی ہو گی جو جمعیۃ کا ممبر ہو، اس کے بغیر بھی شہرت اور عام قبولیت کی بنا پر امیر بطورِ خود تصدیق کر سکے گا۔
ہ: بڑے شہروں، ضلع اور صوبہ کی سطح پر انتخابات کے لیے انتخاب سے کم از کم پندرہ دن پہلے تاریخ کا تعین ضروری ہے۔ جس کی اطلاع بذریعہ خطوط و اخبارات کرنی ہو گی۔

د: امیر خواہ مرکزی ہو یا ماتحت اس کے انتخاب کے لیے درج ذیل اوصاف کو مدنظر رکھنا ضروری ہو گا:

اپنے حلقہ میں ممتاز شخصیت کا مالک ہو۔

ملکی حالات سے واقف ہو۔

علمی و عملی و اخلاقی اوصاف اور امانت، دیانت، ایثار اور استقامت کی وجہ سے اپنے فرائض باحسن وجوہ انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔

نیز اراکینِ مجلسِ شوریٰ میں بھی ان اوصافِ بالا کا اسی طرح لحاظ رکھا جائے گا کہ یہ ارکان ان اوصاف میں دوسرے رفقاء سے ممتاز ہوں۔

ی: عہدیداروں، مجلسِ شوریٰ کے ارکان بلکہ عام ارکان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بے نماز نہ ہوں، اور دیگر احکامِ شرعیہ کی بھی پابندی کرتے ہوں، یا آئندہ کے لیے اس کا عہد کریں۔

نصاب

تمام مجالسِ عمومی و مجالسِ شوریٰ کے لیے کم از کم ۱/۳ ارکان کی حاضری ضروری ہے۔ ملتوی شدہ اجلاس کے لیے یہ شرط نہ ہو گی۔

دفعہ ۱۷

ایک دفعہ انتخابات مکمل ہو جانے کے بعد پھر ہر تین سال بعد انتخاب ہوں گے جن کی تفصیل اس طرح ہو گی:

ہر تیسرے سال کے رجب سے لے کر آخری ذوالحجہ تک ممبر سازی ہو گی۔

محرم، صفر اور ربیع الاول میں ابتدائی و ضلعی انتخابات مکمل کر کے تمام نمائندوں کی اطلاع مرکزی دفتر کو دی جائے گی۔

ربیع الثانی میں صوبائی عہدیداروں اور مرکزی مجلسِ عمومی کے نمائندوں کا چناؤ عمل میں آئے گا۔

جمادی الاخریٰ میں مرکزی انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔

امیر مرکزیہ حسبِ ضرورت اس شیڈول میں چھ ماہ تک توسیع کر سکتے ہیں۔

دفعہ ۱۸

اگر کوئی جمعیۃ مقررہ وقت کے اندر بالائی جمعیۃ کے لیے نمائندوں کے چناؤ سے قاصر رہے تو امیر بالا کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی طرف سے اس جمعیۃ کے نمائندے نامزد کرے۔

دفعہ ۱۹

الف: مرکزی اور صوبائی مجالسِ عمومی کا اجلاس کم از کم سال میں ایک دفعہ منعقد ہونا ضروری ہے۔

ب: مجلسِ عمومی کے معمولی اجلاسوں کی تاریخِ انعقاد سے کم از کم ایک ماہ قبل اور خصوصی اجلاسوں کے انعقاد سے کم از کم دس دن قبل ناظمِ عمومی ہر رکن کے پاس تحریری اطلاع نامے بھیجے گا جس میں وقت، مقامِ اجلاس، تاریخ اور پیش نامہ (ایجنڈا) درج ہو گا۔

ج: اگر ۱/۳ ارکان کے دستخطوں سے انعقادِ اجلاس کا تحریری مطالبہ ناظمِ عمومی کے پاس بھیجا جائے تو جمعیۃ کا خصوصی اجلاس طلب کر لیا جائے گا۔ اس اجلاس کا پیش نامہ تاریخِ اجلاس سے کم از کم دس دن قبل جاری ہو جائے گا۔ البتہ ہنگامی اجلاس میں اگر امیرِ جمعیۃ چاہے تو کم مدت میں بھی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وقت اگر اس کی گنجائش نہیں رکھتا تو مجلسِ شوریٰ کا اجلاس بلا کر فیصلہ کیا جائے گا جس کی منظوری بعد میں مجلسِ عمومی کے کسی اجلاس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

د: اگر کوئی رکن کوئی تجویز پیش کرنا چاہے تو اسے ناظمِ عمومی کے پاس دس دن قبل مع عبارت تجویز پیش کرنے کی اجازت بھی دے سکتا ہے۔

دفعہ ۲۰: نظمِ مبلغین

چونکہ جمعیۃ کا اہم مقصد ترویج و اشاعتِ دینِ اسلام ہے جو کہ جمعیۃ کے اغراض و مقاصد میں درج ہے، اس لیے جمعیۃ کے ہر ضلع میں اپنے مبلغین مقرر کر سکتی ہے۔ اور ان کا تقرر جو جمعیۃ کرے گی وہی ان کے اخراجات اور نگرانی کی ذمہ دار ہو گی۔

فرائضِ مبلغین:

مبلغین جماعت کے اغراض و مقاصد کی اشاعت اور دینی احکام کی ترویج و اشاعت کے لیے مفوضہ علاقہ کا دورہ کریں گے۔ ان کا پروگرام متعلقہ جمعیۃ مشورہ سے طے کرے گی۔ مبلغین جمعیۃ کی مالی امداد کے لیے عامۃ المسلمین کو ترغیب دیں گے۔ ماہانہ چندہ وغیرہ مقرر کر کے ان کی فہرست متعلقہ جمعیۃ کے سپرد کریں گے۔

مبلغین اور ملازمین کا حسبِ ضرورت جمعیۃ کے زیر اثر حلقہ میں تبادلہ بھی ہو سکے گا۔ کسی ملازم کو اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہو گی۔ تمام مبلغین کے پروگرام ضلعی اور صوبائی دفتر میں بھیج دیے جائیں گے اور ہر ماہ پوری کارگزاری ۵ تاریخ تک صوبائی دفتر میں پہنچ جانی چاہیے۔

دفعہ ۲۱: فرائض و اختیارات ماتحت مجالس و عہدیداران

ماتحت مجالس کو اپنے مقامی مصارف کے لیے ماہانہ، ہنگامی، سالانہ، اور یکمشت چندہ جمع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ مگر یہ چندہ ان رسید بکوں پر وصول کیا جائے گا جو مرکزی دفتر کی طرف سے جاری ہوں گی۔

ہر جمعیۃ کے پاس اندراج حسابات و دیگر ضرورت کے لیے درج ذیل رجسٹروں اور فائیلوں کا ہونا ضروری ہے:

(۱) رجسٹر آمد و خرچ۔

(۲) رجسٹر اندراج ممبران۔

(۳) رجسٹر اندراج ماہانہ چندہ۔

(۴) رجسٹر اندراج خط و کتابت۔

(۵) رجسٹر کارروائی مجالس۔

(۶) فائیل برائے نقول و ریکارڈ خط و کتابت۔

(۷) رجسٹر برائے کٹنگ اخبارات۔

(۸) رجسٹر برائے اندراج اشیاء مملوکہ۔

(۹) رجسٹر چارج جس میں سابق ناظم سے چارج لے کر اشیاء کا اندراج کیا جائے۔

(۱۰) فائیل برائے ریکارڈ اخباری بیانات۔

(۱۱) فائیل برائے رسیدات اخراجات۔

(۱۲) رجسٹر برائے معائنہ۔ جس میں بالائی جمعیۃ کے عہدیدار کے معائنہ کے بعد تاثرات کا اندراج کریں گے۔

جدید ناظم چارج لیتے وقت جو اشیاء وصول کرے اس کی ایک نقل بالائی جمعیتوں کو بھیج دے گا۔

ہر جمعیۃ اپنے سے بالا دفتر کو ماہانہ کارگزاری کی رپورٹ ارسال کرے گی۔ اور اسی طرح جمعیۃ اختتامِ سال پر ایک روئیداد مرتب کر کے صوبائی دفتر کو روانہ کرے گی جس میں سال بھر کی کارگزاری، کُل آمد و خرچ اور دورانِ سال تبلیغی کاموں کی کیفیت اور اس کے نتائج درج ہوں۔

ہر مقامی محاسب جمعیۃ کے حسابات کی پڑتال کر کے ہر تین ماہ کے بعد رپورٹ مرتب کر کے اپنے بالا دفتر میں روانہ کرے گا۔ حسابات کا آغاز یکم محرم سے ہو گا۔

کوئی خازن دستور کے خلاف نہ خود رقم خرچ کر سکتا ہے، نہ ہی کسی کو رقم خرچ کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، جب تک اس کے مجاز ہونے کی قانوناً تصدیق نہ ہو جائے۔

ماتحت مجالس اپنی اپنی مجلسِ عمومی میں ایسے ذیلی قوانین وضع کر سکتی ہیں جن سے جمعیۃ کے کام کو خوش اسلوبی سے چلایا جا سکے، بشرطیکہ دستورِ جمعیۃ کی کسی دفعہ پر اثرانداز نہ ہوں۔

دفعہ ۲۲: شعبہ مالیات

کُل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام مرکزیہ کی آمدنی کی مدات حسبِ ذیل ہوں گی:

الف: ابتدائی فیس رکنیت۔

ب: خصوصی عطیات۔

ج: ماہانہ و سالانہ چندہ جو کم از کم ایک روپیہ ماہانہ تک ہو سکتا ہے۔

د: وہ آمدنی جو کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد یا کسی سامان کی فروخت یا اس کے کرایہ سے وصول ہو۔

ز: وہ آمدنی جو جمعیۃ کے کسی خاص اجلاس کے سلسلہ میں وصول ہو۔

و: زکوٰۃ اور عشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ، قیمت چرم ہائے قربانی۔

ہ: ہنگامی چندہ۔

دفعہ ۲۳: مالیات کی وصولی اور اس کی حفاظت کا انتظام

الف: ہر درجہ کی جمعیۃ آمدنی کے ذرائع پر غور کرے گی۔

ب: آمدنی کی وصولی کے لیے مناسب انتظام کرے گی اور اس کے لیے محصل بھی مقرر کر سکے گی۔

ج: ہر بالائی جمعیۃ اپنی ماتحت جمعیۃ کی مالی حیثیت کے لحاظ سے بالائی جمعیۃ کے لیے کوئی رقم ماہوار یا سالانہ مقرر کرے گی، اور اس سلسلہ میں بالائی امیر کی بات قطعی تصور کی جائے گی۔

د: امداد کی رقوم مرکزی جمعیۃ کی رسیدات پر وصول کی جائیں گی۔ اور یہ رسیدات ہر بالائی جمعیۃ کی وساطت سے ماتحت جمعیتوں کو ملیں گی، اور بالائی جمعیۃ پر ان کی نگرانی واپسی کی ذمہ داری ہو گی۔

ہ: حاصل شدہ رقوم میں سے ابتدائی ممبری کی فیس، عشر، زکوٰۃ، نذر اور چرم قربانی کی رقوم براہ راست مرکزی بیت المال کو بھیجی جائیں گی، جہاں امیر مرکزیہ مجلسِ عاملہ کے مشورے سے شرعی ہدایات کی روشنی میں صَرف کریں گے۔

و: اگر کوئی جمعیۃ کسی اجلاس یا ہنگامی ضرورت کے لیے چندہ جمع کر کے صَرف کرے تو اس کا حساب آمد و خرچ کے رجسٹر میں باضابطہ درج کرے گی۔ اور ہنگامی چندہ کی ضرورت سے بچ کر جانے والی رقم میں نصف رقم بالائی جمعیتوں کو برابر تقسیم کرنا ہو گی۔

دفعہ ۲۴: مدات مصارف

الف: ابتدائی جمعیتیں اپنے پاس جمع شدہ رقوم کو ترویج اغراض و مقاصد میں صَرف کریں گی۔ جس کا باضابطہ حساب آمد و خرچ کے رجسٹر میں درج کرنا ہو گا۔ اور اخراجات کی باقاعدہ رسیدوں کی ایک الگ فائیل میں ریکارڈ رکھنا ہو گا۔ آمد و خرچ کا حساب ہر تین ماہ بعد پانچ تاریخ تک ضلعی دفتر کو بھیجنا ضروری ہو گا۔ ضلعی جمعیۃ آمد و خرچ کا سہ ماہی گوشوارہ ہر تیسرے ماہ کی دس تاریخ تک صوبائی دفتر کو، اور صوبائی جمعیۃ ۱۵ تاریخ تک مرکزی دفتر کو ارسال کر دے گی۔

ب: کسی جمعیۃ کا کوئی عہدیدار اگر اپنے حلقہ میں جماعتی مقاصد کے لیے سفر کرے تو اس کے اخراجاتِ سفر اسی جمعیۃ کے خزانہ سے ادا ہوں گے۔

ج: ناظمِ عمومی مرکزی مبلغ پندرہ سو روپے تک یکمشت اور ناظمِ عمومی صوبائی پانچ سو روپے یکمشت اپنے دستخطوں سے صَرف کر سکتے ہیں۔ اس سے زائد رقم کے لیے امیر سے اجازت لینا ضروری ہو گی۔

دفعہ ۲۵: شعبہ نشر و اشاعت

جمعیۃ کے لٹریچر، اغراض و مقاصد، طریق کار، احکام و ہدایات، اور خبروں کی وسیع پیمانے پر تشہیر کے لیے نشر و اشاعت قائم ہو گا۔ جس کے لیے گوشوارہ (بجٹ) میں رقم مخصوص کی جائے گی۔ یہ شعبہ مستقل ایک ناظم کے تحت ہو گا۔ اس شعبہ کے ذمہ اخبارات و رسائل جاری کرنا، جمعیۃ کے لٹریچر شائع کرنا، ملکی جرائد کو ہمنوا بنا کر جمعیۃ کے تبلیغی اور اصلاحی مقاصد میں ان کی حمایت حاصل کرنا ہو گا۔ نفاذِ آئینِ اسلامی کے راستہ میں جو رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہوں ان کی نشاندہی کرنا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں پوری کوشش کرنا اس شعبہ کے اہم مقاصد ہوں گے۔

دفعہ ۲۶: نظمِ دفتر

دفتر کے لیے ایک مستقل ناظم ہو گا جس کی تحویل میں دفتر کا تمام اثاثہ ہو گا اور اس کے ذمہ مندرجہ ذیل امور ہوں گے:

آمدہ خطوط و کاغذات کا وصول کرنا۔ مشورہ طلب امور کا مشورہ کے بعد جواب لکھنا۔

ضروریاتِ دفتر کی خرید۔

مطبوعات کی تقسیم۔

رقوم کی وصولی، خزانہ میں جمع کرنا اور امیر اور ناظمِ عمومی کی اجازت سے حسبِ ضرورت خزانہ سے رقوم نکلوانا۔

واردین و صادرین کی خدمت اور ان کی مطلوبہ معلومات بہم پہنچانا۔

ماتحت مجالس اور عہدیداروں سے رابطہ قائم رکھنا۔

جمعیۃ کی کارکردگی میں کسی کی سستی نظر آئے تو متعلقہ عہدیدار کو اس کی اطلاع دینا۔

جمعیۃ کے عملہ کی نگرانی اور مشاہرات کا تقسیم کرنا۔

ہدایات اور احکام کو اپنی نگرانی میں تحریر کرا کے متعلقہ اشخاص تک پہنچانا۔

اخبارات اور مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطہ رکھنا۔

دفعہ ۲۷: تنظیم انصار الاسلام

رضاکارانہ تنظیم جماعتوں کی روح تصور کی جاتی ہیں۔ اس لیے نظامِ اسلام کو بروئے کار لانے کے لیے انصار الاسلام کی تنظیم بے حد لازمی ہے جس کے لیے درج ذیل ضوابط طے کیے گئے ہیں:

(۱) ہر مسلمان پابندِ صوم و صلوٰۃ، مستعد اور باہمت نوجوان انصار الاسلام کا فارم پُر کرنے پر جمعیۃ کا ابتدائی رکن متصور ہو گا۔

(۲) انصار الاسلام کا نظام جمعیۃ کے تحت ہو گا، البتہ سالارِ اعظم اپنا خاص نظامِ تربیت بنا سکے گا، جس کی منظوری امیر مرکزیہ بشمول مجلسِ شوریٰ سے ضروری ہو گی۔

(۳) انصار الاسلام کے عہدیدار حسبِ ذیل ہوں گے:

سالار اعظم: کُل پاکستان تنظیم کا انچارج۔

سالار اعلیٰ: صوبائی تنظیم کا انچارج۔

سالار ضلع: ضلعی تنظیم کا انچارج۔

سالار شہر: شہری تنظیم کا انچارج۔

نائب سالار: ابتدائی تنظیم کا انچارج جو براہ راست سالارِ شہر کے تحت ہو گا۔

(۴) ہر بالائی سالار ماتحت جمعیۃ کے مشورہ سے اس سطح پر انصار الاسلام کا سالار مقرر کر سکے گا۔

(۵) انصار الاسلام کی وردی حسبِ ذیل ہو گی: ملیشیا سلیٹی رنگ کی دو پاکٹوں والی قمیص، خاکی رنگ کی شلوار، گرم لپڑے کی گول خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہو گا، اور نسواری رنگ کا جوتا۔

(۶) ٹرینڈ رضاکاروں کے لیے پیٹی دوہری ہو گی۔

(۷) انصار الاسلام کے بیج پر، خواہ کپڑے کا ہو یا کسی اور چیز کا، عہدہ اور حلقہ بھی درج ہو گا۔

(۸) کسی سطح پر انصار الاسلام اپنی فوری ضرورت کے لیے رقم جمع کرنا چاہیں تو متعلقہ امیر کی اجازت سے کر سکتے ہیں، بشرطیکہ جمعیۃ علماء اسلام کی رسید بکوں پر وصول کر کے مقامی خزانہ میں جمع کرانے کے بعد آمد و خرچ کا باضابطہ حساب رکھا جائے۔

(۹) سالارِ اعظم ہر ماہ کی دس تاریخ تک اپنی کارکردگی کی رپورٹ امیر کو پیش کرے گا۔

(۱۰) ہر اجتماع (کانفرنس) کے موقع پر اس کی نوعیت کے مطابق مقامی، ضلعی یا صوبائی رضاکار اجتماع میں اجتماع کے ذمہ دار حضرات کے مشورہ سے شریک ہو سکیں گے۔

(۱۱) انصار الاسلام کے ہفتہ وار، ماہوار، سہ ماہی، شش ماہی اجتماعات اور باہمی تبادلۂ خیالات تربیت کے لیے بالائی سالار ہدایات جاری کر سکیں گے۔

(۱۲) جمعیۃ علماء اسلام کا پرچم سفید اور سیاہ دھاریوں والا ہو گا، جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہو گی۔

پرچم ساڑھے چار فٹ لمبا اور ۳ فٹ چوڑا ہو گا۔ جس میں کُل ۹ دھاریاں ہوں گی۔ پانچ پانچ انچ کی پانچ سیاہ دھاریاں۔ اور اڑھائی اڑھائی انچ کی ۴ سفید دھاریاں ہوں گی۔ اوپر اور نیچے کی دھاریاں سیاہ اور درمیان والی دھاریاں سفید ہوں گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter