سائنس اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے

   
تاریخ: 
۲۴ جنوری ۲۰۱۱ء

گزشتہ ہفتہ کے دوران نیو کشمیر کالونی گوجرانوالہ میں ایک کمپیوٹر لیب کے افتتاح کے موقع پر اور اس کے ایک ہفتے بعد شالامار ٹاؤن لاہور میں میرے پرانے دوست اور دورِ طالب علمی کے ساتھی مولانا محمد نعیم جالندھری مرحوم و مغفور کے بیٹے محمد طیب کی قائم کردہ طیب سائنس اکیڈمی کی سالانہ تقریب میں ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان معروضات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کمپیوٹر سائنس کی ایک اہم ایجاد ہے اور سائنس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ سائنس کی بدولت ہمیں زندگی میں قدم قدم پر سہولتیں حاصل ہوتی ہیں اور انسانی زندگی کا معیار روز بروز بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سائنس کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور اللہ رب العزت نے غیب کی دنیا میں جو بہت سی قوتیں اور صلاحیتیں چھپا رکھی ہیں وہ وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں جن سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ رب العزت کی ذات اور قدرتوں پر یقین بڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ہوا میں موجود لہریں جن کے ذریعے گفتگو اور تصویریں ایک جگہ سے دوسری جگہ آناً فاناً منتقل ہو جاتی ہیں، ہمیں کچھ عرصہ پہلے تک ان کا علم نہیں تھا اور دکھائی تو اب بھی نہیں دیتیں، لیکن سائنس نے نہ صرف انہیں دریافت کیا بلکہ ان کے استعمال کا طریقہ بھی ترتیب دیا۔ خدا جانے اس جیسی کتنی قوتیں اس فضا کے عالمِ غیب میں پوشیدہ ہیں جو وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمارے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی رہیں گی۔

سائنس جہاں قدرتِ خداوندی کے اظہار کا ذریعہ ہے وہاں وہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات کو صحیح طور پر سمجھنے کا بھی ذریعہ ہے کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جن پر ایمان تو تھا لیکن وہ مشاہدات اور محسوسات کے دائرے میں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ جوں جوں سائنس آگے بڑھ رہی ہے ایسی باتیں ایک ایک کر کے سمجھ میں آتی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر چند باتوں کا تذکرہ کروں گا۔

  • قرآن کریم میں جب یہ عقیدہ بیان کیا گیا کہ انسان کی یہ زندگی عارضی ہے اور مرنے کے بعد اسے قبر سے دوبارہ اٹھایا جائے گا اور حساب کتاب کے بعد جنت یا دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو بہت سے لوگوں کو اشکال ہوا کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور ہڈیاں بوسیدہ ہو کر بکھر جائیں گی تو ان ہڈیوں کو کون جمع کرے گا اور جسم کے بکھرے ہوئے ذرات کو کون تلاش کرے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ القیامہ میں فرمایا کہ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں دوبارہ جمع نہیں کر پائیں گے، کیوں نہیں؟ بلکہ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو بھی دوبارہ سیٹ کر دیں۔ یہاں انسان کو دوبارہ زندہ کرنے کے حوالے سے انگلیوں کے پوروں کا خاص طور پر ذکر ایک عرصے تک سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے خصوصی ذکر کی وجہ کیا ہے۔ لیکن جب سائنس نے فنگر پرنٹس کے حقائق منکشف کیے تو بات سمجھ میں آئی کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ ہڈیاں جمع کرنا اور ان کو دوبارہ منظم کرنا تو رہا ایک طرف ہم مرنے والے انسان کے دوبارہ زندہ ہونے پر اس کے پہلے والے فنگر پرنٹس دوبارہ سیٹ کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔
  • بخاری شریف میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بار سورج کو گرہن لگا تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مسجد نبویؐ میں نماز پڑھائی اور بہت لمبی نماز پڑھائی۔ جب تک سورج دوبارہ روشن نہیں ہوا آپؐ نماز کی کیفیت میں ہی رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر جناب رسول اکرمؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ مجھے نماز کے دوران اس قبلہ والی دیوار کی سطح پر بہت سی ایسی چیزیں دکھائی گئی ہیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، حتیٰ کہ جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں اور میں نے لوگوں کو جنت میں خوشی کی زندگی بسر کرتے اور جہنم میں جلتے دیکھا ہے۔ دیوار کی سطح پر مناظر دیکھنے کی یہ بات ایک عرصے تک قابل توجیہ رہی اور محدثین اپنے اپنے انداز میں اس کی کیفیات بیان کرتے رہے کہ دیوار کی سطح پر مناظر کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ مگر اب ویڈیو کی ایجاد نے یہ بات سمجھائی کہ دیوار کی سطح پر بھی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں اور ہم خود اپنے ہی مناظر ریکارڈ کرنے کے بعد سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتے ہیں۔
  • قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ میں قیامت کے دن اقوال اور اعمال کے تولے جانے کا ذکر ہے جس پر بہت سے لوگوں کو صدیوں تک الجھن رہی کہ قول بھی منہ سے نکل کر فضا میں گم ہو جاتا ہے اور عمل اور ایکشن بھی رونما ہونے کے بعد فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے، یہ تو گرفت اور قابو میں ہی نہیں آتے ان کو تولا کیسے جا سکتا ہے؟ یہ بحث اس قدر بڑھی کہ ایک گروہ نے سرے سے وزنِ اعمال اور وزنِ اقوال کا ہی انکار کر دیا کہ چونکہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے اس لیے قرآن کریم کی ایسی آیات اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات کو جوں کا توں ماننے کی بجائے اس کی تاویل کی جائے گی۔ مگر آج سائنسی ترقی کی بدولت انسان کے اعمال بھی ریکارڈ ہوتے ہیں اور اقوال بھی قابو میں آجاتے ہیں کہ یہ آڈیو اور ویڈیو کا سسٹم انسان کے اقوال و اعمال کا ریکارڈ میں لانے کا ہی عمل ہے۔ عربی کے ایک محاورے نے ہزاروں سال تک انسانی ذہنوں پر حکمرانی کی ہے کہ ’’اذا تلفظ فتلاشی‘‘ جب بات منہ سے نکلتی ہے تو فضا میں تحلیل ہو کر معدوم ہو جاتی ہے لیکن آڈیو اور ویڈیو نے اس محاورے کو غلط ثابت کر دیا اور بتایا ہے کہ لفظ بھی قابو میں آتا ہے اور عمل بھی ریکارڈ میں آجاتا ہے۔
  • بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب انسان قبر میں جا کر مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے جسم کی ہر چیز فنا ہو جاتی ہے مگر ایک جزو باقی رہتا ہے۔ اسے جناب نبی اکرمؐ نے ’’عجب الذنب‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کا آسان ترجمہ ’’دمچی کا مہرہ‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ یہ عجب الذنب فنا نہیں ہوتا موجود رہتا ہے ’’وفیہ یرکب الخلق‘‘ اور اسی سے انسانی جسم کی دوبارہ تشکیل ہوگی۔ یہ بات بھی ایک عرصہ تک بظاہر نہ سمجھ میں آنے والی باتوں میں شامل رہی ہے مگر سائنس دان ہر جاندار کے جسم میں جس کلون کی بات کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ’’کلوننگ‘‘ کے مسلسل تجربات کیے جا رہے ہیں میری طالب علمانہ رائے میں یہ وہی عجب الذنب ہے جس کا ذکر جناب رسول اکرمؐ نے چودہ سو سال قبل فرما دیا تھا۔ انسانی کلوننگ کی مذہب اور اخلاقیات کے حوالے سے مخالفت کی جا رہی ہے جبکہ میرا وجدان کہتا ہے کہ کوئی سائنسدان یہ حرکت کر گزرے گا اور یاجوج ماجوج کے جس خوفناک لشکر کے ہاتھوں انسانی سوسائٹی کی تباہی کا ذکر احادیث نبویہؐ میں موجود ہے شاید اسی کا کرشمہ ہو۔
  • جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچے کا حمل قرار پکڑتا ہے تو اس پر ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو اس کی مرحلہ وار نگرانی کرتا ہے اور اس کی رپورٹ دیتا رہتا ہے۔ جب ماں کے پیٹ میں حمل کو چار ماہ گزر جاتے ہیں تو وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہوگی، اس کا رزق کتنا ہوگا، اس کے اعمال کیسے ہوں گے اور یہ کس کیٹیگری میں ہوگا، شقی لوگوں میں سے ہوگا یا سعادت مند ہوگا۔ فرشتہ یہ ساری باتیں پوچھ کر اس کی فائل بناتا ہے اور فائل مکمل ہوجانے کے بعد بچے میں روح ڈال دی جاتی ہے۔ یہ بچہ پیدا ہو کر اور جوان ہو کر کرے گا وہی جو اس کا جی چاہے گا اور اسی پر اس کے اعمال کی جزا یا سزا کا مدار ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کامل علم کے حوالے سے اسے روح کا کنکشن دینے سے پہلے ہی اس کی فائل مکمل کرا دیتے ہیں۔ آج کل سائنسدان جس ’’جین‘‘ کی بات کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس میں سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے، انسانی زندگی کے ہر لمحے کی تفصیلات اس میں درج ہیں اور اگر اس جین کا کوڈ کھل سکے تو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص اپنی عمر کے کس مرحلے میں کیا کام کرے گا اور اس کے ساتھ زندگی کے کون سے دور میں کیا ہوگا؟ میری طالب علمانہ رائے ہے کہ یہ جین وہی فرشتے کی فائل ہے جس کا بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ روح اور جسم کا کنکشن جڑنے سے قبل ہی مکمل ہو جاتی ہے۔

اس سلسلہ میں لطیفے کی بات یہ ہے کہ چند ماہ قبل ایک برطانوی سائنسدان کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ ہمارے اردگرد کوئی غیبی مخلوق محسوس کی جا رہی ہے اور اس سائنس دان نے مشورہ دیا کہ اگر یہ مخلوق کسی انسان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے اپنے راز اور معلومات فراہم نہ کیے جائیں کیونکہ وہ غیبی مخلوق ہمارے سسٹم کو ڈسٹرب کر سکتی ہے۔ مجھے یہ بیان پڑھ کر بہت ہنسی آئی کہ اس شریف آدمی کو کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ غیبی مخلوق کے ساتھ ہمارا رابطہ اور تعلق تو پیدا ہونے سے بھی پہلے سے ہے بلکہ ہماری فائل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہمارے اردگرد ہر وقت موجود رہتی ہے حتیٰ کہ ہمارا سارا نظام اسی کے کنٹرول میں رہتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے تو اس کے اعمال و اقوال کی ریکارڈنگ کے لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں، کچھ حفاظت کے فرشتے بھی ہوتے ہیں اور کچھ خاص مواقع پر آنے والے فرشتے ہوتے ہیں۔ ایک حدیث نبویؐ میں ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت دنیا کے گرد چکر لگا کر ایسی مجالس تلاش کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو، وہ ایسی مجالس کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور جب تک مجلس قائم رہتی ہے وہ فرشتے مجلس کے شرکاء کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ہم جتنے لوگ اس مجلس میں موجود ہیں ہمیں گھیرے میں لینے کے لیے اسی حساب سے فرشتے ہونے چاہئیں۔

خدا جانے یہ بات ہمارے درمیان کیسے آگئی ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی دشمنی ہے یا سائنس اسلام سے متصادم ہے یا اسلام سائنس کے خلاف ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ سائنس اسلام کی خدمت گزار ہے کہ وہ قرآن و سنت کے بیان کردہ حقائق کو دنیا پر منکشف کرتی جا رہی ہے اور جو باتیں ابھی تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہیں مستقبل میں سائنسی ترقی کی بدولت سمجھ میں آتی رہیں گی۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۲۴ جنوری ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter