منافقین مدینہ کے خلاف رسول اکرمؐ کی حکمت عملی

   
مرکزی جامع مسجد امام اہل سنتؒ، گکھڑ
۲۰ دسمبر ۲۰۱۹ء

(نماز مغرب کے بعد درس قرآن کریم۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ! قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم‘‘ اے نبی! کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔ یہاں تاریخی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سالہ مدنی دور میں کافروں کے ساتھ جو جہاد کیے ہیں ان میں سے غزوات کی تعداد محدثین ستائیس تک بتاتے ہیں، جبکہ منافقین کے خلاف نبی اکرمؐ کی جنگ کا کوئی ایک واقعہ بھی تاریخ میں مذکور نہیں ہے، تو منافقوں کے خلاف کون سا جہاد ہوا ہے؟ یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے اس صریح حکم کو خدانخواستہ نظر انداز کر دیا ہو، یقیناً اس پر عمل ہوا ہے مگر کیسے ہوا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس پر میری طالب علمانہ گزارش عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ کافروں کے خلاف جہاد تلوار اور ہتھیار کا تھا، مگر منافقوں کے خلاف جہاد حکمتِ عملی کا تھا، جس کا ایک مختصر سا خاکہ آج کی اس محفل میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

منافقین کا ایک بڑا گروہ مدینہ منورہ میں موجود تھا جن کا ذکر قرآن کریم میں بار بار کیا گیا ہے اور ان کی مختلف قسم کی حرکتوں، شرارتوں اور سازشوں کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں کیا ہے، مگر کسی موقع پر ان کی حرکتوں پر کوئی ایسا نوٹس نہیں لیا گیا جسے ان کے خلاف ایکشن یا کاروائی سے تعبیر کیا جا سکے مثلاً:

  • غزوۂ أحد میں ایک ہزار میں سے تین سو افراد میدان جنگ چھوڑ کر واپس آگئے جو جنگی لحاظ سے سنگین جرم تھا، ان کے خلاف کاروائی کے سلسلہ میں مسلمانوں میں اختلاف رائے ہوا تو قرآن کریم نے یہ فرما کر کسی کاروائی سے روک دیا کہ ’’ فما لکم فی المنافقین فئتین الخ‘‘۔
  • ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے خلاف منافقوں نے ایک ماہ تک مدینہ منورہ میں افواہوں اور سازشوں کا بازار گرم کیے رکھا، ام المؤمنین کی برأت میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں اور تین مخلص صحابہ کرامؓ کو عتاب کا نشانہ بننا پڑا، مگر یہ سارا ڈرامہ رچانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی، حتیٰ کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق قبیلہ أوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ نے بعض سرکردہ حضرات کے خلاف کاروائی کی اجازت مانگی مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔
  • مدینہ منورہ کے ایک محلہ میں چوری کی واردات میں بعض منافقین نے وہاں کے ایک یہودی شہری کو کیس میں پھنسانے کی پوری کوشش کی جس پر یہودی کی صفائی میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں، جن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ولولا فضل اللّٰہ علیک ورحمۃ لھمت طائفۃ منھم ان یضلوک‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل نہ ہوتا تو ان لوگوں نے اس معاملہ میں آپ کو اپنے ساتھ ملانے کا پورا بندوبست کر لیا تھا۔ اس موقع پر بھی منافقین کی سازش کی نشاندہی تو ہوئی مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
  • حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ایک سفر کے دوران بعض سرکردہ منافقین کی شر انگیز باتوں کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو ان منافقوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی قسمیں اٹھائیں کہ زید بن ارقمؓ کو دو بار رسالتؐ سے ڈانٹ پڑ گئی، چنانچہ قرآن کریم میں حضرت زید بن ارقمؓ کی صفائی میں سورۃ المنافقون کی آیات نازل ہوئیں، مگر منافقین کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
  • مسجد ضرار تعمیر کرنے والے منافقین کے اس عمل کو قرآن کریم نے ’’کفرا و تفریقا بین المسلمین وارصادا لمن حارب اللّٰہ ورسولہ‘‘ سے تعبیر کیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں جانے سے روک دیا بلکہ اسے گرا کر نذر آتش کر دیا گیا مگر ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
  • غزوۂ تبوک میں جانے سے بچنے کے لیے منافقین کے جھوٹے بہانوں کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ’’لم أذنت لھم‘‘ فرمایا گیا ہے، مگر جہاد سے پیچھے رہنے پر سزا صرف تین مخلص بزرگوں کو ملی ہے باقی لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
  • اسی غزوہ سے واپسی پر چودہ افراد نے راستے میں گھات لگا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا بلکہ اس پر عمل بھی کیا مگر ناکام رہے، یہ سب لوگ پہچان لیے گئے اور ان کے نام بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہؓ کو رازداری کی شرط پر بتا دیے، مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔

یہ وہ مواقع ہیں جہاں منافقوں کے جرائم واضح تھے اور ان کے خلاف کاروائی کا ظاہری طور پر پورا جواز موجود تھا، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے کوئی ایکشن نہیں لیا حتیٰ کہ بعض مواقع پر ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمرؓ، حضرت سعد بن معاذؓ جیسے سرکردہ بزرگوں نے اجازت مانگی مگر ان کو اجازت نہیں ملی، البتہ ان منافقین کے خلاف جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں:

  • انہیں اپنے خلاف مدینہ منورہ میں محاذ بنانے کا کوئی موقع اور جواز فراہم نہیں کیا گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت کے ساتھ مدینہ منورہ کے داخلی ماحول میں کسی بھی قسم کی معاشرتی تفریق اور باہمی محاذ کی ہر چال ناکام بنا دی اور ریاست مدینہ کی داخلی وحدت کو ہر قیمت پر قائم رکھا۔
  • غزوۂ تبوک کے بعد منافقین پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ ’’أنفقوا طوعاً أو کرھاً لن یتقبل منکم‘‘ کہ تب تمہارا کوئی صدقہ یا عطیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
  • یہ پابندی بھی لگا دی گئی کہ ’’لن تخرجوا معی ابدا ولن تقاتلوا معی عدوا‘‘ اب کسی غزوہ میں تم میرے ساتھ نہیں جا سکو گے اور کسی دشمن کے خلاف جہاد میں شریک نہیں ہو سکو گے۔
  • ان کی نماز جنازہ پڑھنے اور ان میں سے کسی کی قبر پر دعا مانگنے سے منع کر دیا گیا وغیرہ ذالک۔

اس قسم کے اقدامات تو کیے گئے مگر منافقین کے عمومی معاشرتی بائیکاٹ کا ایسا ماحول قائم نہیں ہونے دیا گیا جس سے وہ ایک مستقل گروہ کے طور پر متعارف ہو سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ منافقین جن کا تناسب غزوۂ احد کے موقع پر تیس فی صد کے لگ بھگ تھا، صرف نو سال کے عرصہ میں اس قدر غیر مؤثر بلکہ معدوم ہو کر رہ گئے تھے کہ حضرت حذیفہؓ کے علم میں آنے والے تیرہ چودہ افراد کے علاوہ ان منافقین میں سے تاریخ کسی اور کا ذکر نہیں کرتی۔

اس کے ساتھ ہی غزوۂ تبوک کے بعد ان منافقین کے لیے قرآن کریم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’’اعملوا فسیری اللّٰہ عملکم ورسولہ والمؤمنون‘‘ اب تمہارے اعمال اور حرکات کو دیکھا جائے گا، اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی جماعت تمہارے اعمال پر نظر رکھے گی، گویا انہیں موقع دیا گیا کہ وہ اپنے طرز عمل میں اصلاح کر کے اور رویہ تبدیل کر کے خود کو مسلمانوں کی صف میں شامل رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ میری طالب علمانہ رائے میں یہی حکمت عملی اس بات کا باعث بنی کہ عبد اللہ بن أبی کی پارٹی آہستہ آہستہ سوسائٹی کے اجتماعی دھارے میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ وہ منافقین مدینہ جنہوں نے متعدد بار اہل ایمان کو آزمائشوں میں ڈالا اور ریاست مدینہ میں خلفشار کا ماحول پیدا کرنے کے بہت سے جتن کیے، بالآخر ناکام ہوئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم‘‘ کے حکمِ خداوندی پر خاموشی اور حکمت و مصلحت کے ساتھ منظم اور مربوط عملدرآمد کا ایک واضح نقشہ دنیا کے سامنے پیش فرما دیا۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جنوری ۲۰۲۰ء)
2016ء سے
Flag Counter