سوال: ”وان تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون“ اس آیت کا تعلق آج سے جوڑ دیجیے۔
جواب: پہلی گزارش یہ ہے کہ ایک ہے بت بنا کر اس کو پوجنا اور ایک ہے کسی کو وہ درجہ دے دینا کہ جو بتوں سے اطاعت وغیرہ کا تعلق ہوتا ہے۔ اگر کسی زندہ شخص کو یا کسی طبقے کو یا کسی اتھارٹی کو وہ درجہ دے دیں گے کہ جو خدا کو درجہ دینا ہے تو وہ بھی بت پرستی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ایسی اتھارٹی نہیں ہے کہ جس کو ہم حرفِ آخر کہہ دیں۔ آج ہمارے نظام کی یہی بنیاد ہے کہ ہم حرفِ آخر کسی اور کو سمجھتے ہیں اور بالادستی قرآن و سنت کی کہتے ہیں۔ ہمارے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ بالادستی قرآن و سنت کی ہے، لیکن فیصلے کرنے والی اتھارٹی قرآن و سنت نہیں ہے، بلکہ دوسری اتھارٹیاں فیصلے کرتی ہے۔ آپ نے بات ذکر کی ہے کہ زیادتی کے مجرم کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔ جو سزا اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے وہ کیوں نہیں ملنی چاہیے؟ آپ سزا ازخود کیوں طے کر رہے ہیں؟ ایک جرم اور اس کی سزا اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں طے فرما دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرما دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً، پریکٹیکل کر کے دکھا دی، اب اس میں مجھے اپنی طرف سے سزا مقرر کرنے کی کیا ضرورت کیا ہے اور اتھارٹی کیا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت ہے۔ اس کو اللہ پاک کہتے ہیں کہ میں نے کوئی بات نہیں کی تو تم اپنی طرف سے میرے کھاتے میں وہ باتیں کیوں ڈال رہے ہو؟
ایک ہے کہ میں یہ کہہ دوں کہ اللہ پاک یہ کہتے ہیں، اور ایک ہے کہ وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، وہ میں اپنے ذمے لے لوں۔ یہ بھی اس آیت ”وان تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون“ کا معنی ہے۔ اس میں، میں نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ یہ جو ریپ کے بارے میں قانون آیا ہے تو ایک بات تو یہ ہے کہ شریعت کا قانون ہی فطری قانون ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آپ کہہ رہے ہیں کہ اسے نامرد بنا دیں۔ (۱) مجرم کے لیے سزا بھی ہے (۲) مجرم کے لیے توبہ کا دروازہ بھی ہے (۳) اور مجرم کے لیے ایک دائرے میں اصلاح کا دروازہ بھی ہے۔ کیا یہ عمل کرنے کے بعد آپ اس کو اصلاح اور توبہ کے قابل رہنے دیں گے؟ ایک تو یہ ہے کہ کسی کو مار دیا لیکن جو زندہ ہے، موجود ہے اور آپ نے اس کو توبہ اور اصلاح کے قابل نہیں رہنے دیا، یہ کون سی فطرت ہے اور کون سی نیچر ہے؟ جو سزائیں اللہ پاک نے مقرر کی ہیں اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں وہی نیچرل ہیں، حدود کے معاملے میں اپنی طرف سے سزائیں طے کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیرات میں مداخلت ہے۔ یہ ہے ”وان تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون“ اللہ تعالیٰ کے کھاتے میں وہ باتیں مت ڈالو۔
سوال: اب ایک سوال اور ذہن میں آتا ہے، حالانکہ اس کا تعلق براہ راست تو نہیں، لیکن ضمنی سوال ہے کہ یہ قانون بن جاتا ہے تو ہمارے ججز یقیناً اسی قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے، کیونکہ جناب والا! جو وکیل کیس لڑ رہا ہے وہ تو کیس لڑے گا، اور جو ہمارے پاکستان قوانین ہیں ان کے تحت یہ فیصلہ ہوگا۔ جب یہ قانون بن جائے گا، ججز فیصلہ دے دیتے ہیں تو ججز کا اس میں کیا قصور؟
جواب: میں اس پر تھوڑی سی اور کنفیوژن عرض کرنا چاہتا ہوں، ہمارے جوڈیشیل سسٹم میں جج کو ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کریں، یہ واضح طور پر کہا گیا ہے۔ اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ تم نے اس پراسس پر فیصلہ کرنا ہے۔ وہ اُس پر فیصلہ کرے گا یا اِس پر فیصلہ کرے گا۔ اگر وہ آپ کے مسلط کردہ پراسس کے خلاف اُس پر فیصلہ کرے گا تو وہ آپ کا مجرم بنے گا، اور اگر اس کے مطابق فیصلہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا مجرم بنے گا۔
میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ ہم نے قرآن و سنت کی بالادستی لکھ تو رکھی ہے، مگر مان نہیں رہے۔ دستور میں لکھا ہوا ہے لیکن عملاً قرآن و سنت کی بالادستی نہیں ہے، عملاً ہمارے پراسس کی بالادستی ہے اور پراسس کے پیچھے کوئی اور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ بہت سے فیصلے کرتی ہے، اکثریتی اور متفقہ فیصلے کرتی ہے، مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلے کی اتھارٹی پارلیمنٹ نہیں ہے بلکہ کوئی اور پیچھے بیٹھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ تضاد دور کرنا ہوگا، ہمارے سسٹم میں تضاد ہے، سسٹم کی بیس میں تضاد ہے۔
میرا سادہ سا سوال ہے کہ جج دستور کے مطابق قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرے گا یا آپ کے طے کردہ پراسس کے مطابق کرے گا؟ دونوں میں سے کس کے مطابق کرے گا؟ جس کے مطابق بھی کرے گا تو ایک طرف تو مجرم ہو گا۔ اگر آپ کے طے کردہ پراسس پر فیصلہ کرتا ہے تو قرآن و سنت کا مجرم ہے، اور اگر قرآن و سنت پر فیصلہ کرتا ہے تو آپ کے سسٹم کا مجرم ہے۔ یہ تضاد دور کریں، اس تضاد کو دور کیے بغیر نہ عدل قائم ہوگا، نہ انصاف قائم ہوگا اور نہ جج کا فیصلے میں اختیار قائم رہے گا کیونکہ وہ پابند ہو چکا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خدائی حکم ہے وہ بھی میں چاہوں گا تو نافذ ہوگا، میں نہیں چاہوں گا تو نافذ نہیں ہوگا (یعنی) اتھارٹی میں ہوں وہ تو اتھارٹی نہیں ہے۔ قرآن پاک کا حکم ہے ہم چاہیں گے تو نافذ کریں گے، نہیں چاہیں گے تو نافذ نہیں کریں گے، تو اتھارٹی قرآن تو نہ رہا، اتھارٹی تو ہم بن گئے۔ یہ تضاد دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سسٹم کو اس نے کنفیوژن کا شکار کر رکھا ہے۔
انیق احمد: آپ نے جو بات فرمائی کہ پارلیمنٹ بظاہر تو ایک قانون بنا لیتی ہے، لیکن فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں، تو اس تعلق سے کیا کہا جائے اور یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔