کرتارپور راہداری اور قادیانی مذہب

   
۱۵ نومبر ۲۰۱۹ء

ان دنوں کرتارپور راہداری کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سرحد پر نارووال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کرتارپور ایک جگہ کا نام ہے جہاں تقسیم ملک سے قبل دونوں طرف آنے جانے کا راستہ ہوتا تھا۔ یہ راستہ تقسیم ہند کے وقت بند ہوگیا تھا جسے گزشتہ دنوں کھول دیا گیا ہے اور ۹ نومبر کو پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے اس کا افتتاح کیا ہے۔ یہاں سکھوں کا ایک بڑا گوردوارہ ہے جو ان کے اہم اور مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے، سکھوں کو وہاں آنے جانے کی سہولت فراہم کرنے کے عنوان سے اس راہداری کو باضابطہ صورت دی گئی ہے اور اب وہاں سے بین الاقوامی مسلّمہ دستاویزات کے ساتھ کوئی بھی آ جا سکتا ہے۔

کرتارپور کا علاقہ نارروال، گورداسپور، سیالکوٹ اور شکرگڑھ کے درمیان ہے جن میں سے گورداسپور تقسیم ملک کے وقت سے انڈیا کا حصہ ہے، جبکہ باقی تینوں شہر پاکستان میں شامل ہیں۔ قادیانیوں کا مرکزی مقام ’’قادیان‘‘ گورداسپور کے علاقہ میں ہے اس لیے انہیں بھی وہاں سے آمد و رفت کی سہولت مل گئی ہے اور اس سہولت کے حاصل ہونے پر سکھوں کی طرح وہ بھی بہت خوش ہیں۔ اس پر پاکستان کے محب وطن اور دینی حلقوں میں مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے جنہیں سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پروگرام میں قادیانیوں کی شمولیت موجودہ صورتحال میں اہل پاکستان اور مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

جہاں تک سکھوں اور قادیانیوں کے باہمی ربط و تعلق کی بات ہے تو وہ قابل فہم ہے اس لیے کہ دونوں نئے مذہب ہیں۔ پانچ سو سال قبل باباگورونانک نے ہندو مذہب ترک کر کے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی کہ انہیں بت پرستی اور ذات پات سے نفرت تھی ۔چنانچہ اپنا نیا مذہبی راستہ متعین کرنے کے لیے انہوں نے مسلم صوفیائے کرامؒ کے حلقوں میں خاصی دیر آمد و رفت رکھی، بیت اللہ کا حج کیا اور بغداد میں حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ کے مزار پر چلہ کشی بھی کی، مگر اسلام قبول کرنے کی بجائے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈال دی۔ انہیں سکھوں کے ہاں اللہ تعالٰی کا فرستادہ سمجھا جاتا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی انہیں انبیاء کرام کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ بابا گورونانک کی کتاب ’’گوروگرنتھ‘‘ کو الہامی کتاب قرار دیا جاتا ہے اور آسمانی وحی کی طرح اس کی قراءت کی جاتی ہے۔

سکھوں کا سب سے مقدس مقام شیخوپورہ کے علاقہ میں ننکانہ صاحب کا شہر ہے جو باباگورونانک کا مقام ولادت ہے، جبکہ قادیانیوں کا سب سے مقدس مقام قادیان ہے ۔ ان دونوں علاقوں کا مرکز پنجاب ہے جس کا مغربی حصہ پاکستان کا اور مشرقی حصہ بھارت کا صوبہ ہے۔ پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے اور اس کے مستقبل کو اپنے نام کرنے کی خواہش دونوں حلقوں میں موجود ہے جسے ان بین الاقوامی طاقتوں اور لابیوں کی حمایت حاصل ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے اسلامی نظریاتی تشخص کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دونوں طرف سے ننکانہ صاحب اور قادیان کو ’’اوپن سٹی‘‘ قرار دینے کا مطالبہ بین الاقوامی حلقوں میں مشترکہ طور پر چلتا رہا ہے اور عالمی سیکولر لابیاں اس کی حمایت کرتی رہی ہیں۔

سکھوں نے ’’آزاد خالصتان‘‘ کے نام سے ایک عرصہ سے تحریک شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلہ میں ’’آزاد حکومت‘‘ بھی جگجیت سنگھ چوہان کی سربراہی میں تشکیل ہوئی تھی، جن سے کافی سال پہلے ساؤتھ آل لندن میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ہمراہ ایک عوامی جلسہ کے اسٹیج پر میری ملاقات ہوئی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں ’’خالصتان‘‘ کی اس تحریک کے ماحول میں سکھوں کے سب سے بڑے مرکز گولڈن ٹمپل امرتسر میں اسلام آباد کی لال مسجد کے سانحہ کی طرز پر رونما ہونے والا واقعہ قارئین کو یاد ہوگا، جس میں سرکاری مسلح آپریشن کے دوران بہت سے دیگر لوگوں کے ہمراہ سکھوں کی مسلح جماعت کے سربراہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔ آزاد خالصتان کی اس تحریک کے سلسلہ میں عام طور پر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا نام بھی لیا جاتا ہے، جبکہ خود میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر فلائیٹ کے انتظار میں بیٹھا تھا اور میرے ساتھ ایک سکھ سردار صاحب بھی بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے سرسری طور پر پوچھ لیا کہ سردارجی آپ کے خالصتان کا کیا بنا؟ انہوں نے بڑی حسرت کے ساتھ جواب دیا کہ ’’ساڈا جیاو الہق ہی مر گیا، خالصتان کتھوں بنوں؟‘‘ یعنی ہمارا ضیاء الحق ہی فوت ہوگیا ہے اب خالصتان کہاں سے بنے گا؟

اسی طرح ’’قادیانیت‘‘ بھی ایک نیا مذہب ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے نئی وحی اور نئے نبی کے عنوان سے کام کر رہا ہے مگر سکھوں کی طرح الگ عنوان اور اصطلاحات اختیار کرنے کی بجائے خود کو مسلمانوں میں شمار کرنے پر مصر ہے۔ سکھ مذہب ہندوؤں سے الگ ہو کر بنا ہے اور قادیانی مذہب اسلام کے اجتماعی عقائد اور مسلمانوں کی ملی اساس سے انحراف کر کے تشکیل پایا ہے، اس لیے نئے اور منحرف مذاہب ہونے کے پس منظر میں ان دونوں کے اشتراک عمل کے اسباب سمجھ میں آتے ہیں لیکن دونوں میں ایک بنیادی فرق موجود ہے جسے اس ساری ’’گیم‘‘ میں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور جسے اس کھیل کا کوئی فریق بھی سمجھنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا، جبکہ ہمارے نزدیک یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر اس پوری مہم کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ سکھوں نے اپنے مذہب کو ہندوؤں سے الگ ایک مستقل مذہب قرار دے رکھا ہے اس لیے ان کے ساتھ اس حوالہ سے ہندوؤں کا کوئی تنازعہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کی مذہبی روایات کے ساتھ کسی قدر مماثلت ہونے کے باوجود مسلمانوں کا بھی ان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے، چنانچہ مسلمان اور ہندو ایک مستقل مذہب کے طور پر سکھ برادری کے ساتھ معاملات کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مگر قادیانیت کے پیروکار اسلام اور مسلمانوں سے الگ ہو جانے کے باوجود خود کو مسلمانوں کی صف میں شمار کرانے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہوئے خود کو مسلمان کہلانے پر بضد ہیں، جو مسلمانوں کے لیے کسی درجہ میں بھی قابل قبول بلکہ قابل برداشت نہیں ہے اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے احساسات و جذبات سب کے سامنے ہیں جن کا اظہار پاکستان میں قومی سطح پر کئی بار ہو چکا ہے۔

ہمیں پاکستان کے مفاد میں اور علاقائی صورتحال کے تناظر میں سکھوں کے ساتھ تعلقات ازسرنو استوار کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا لیکن اس کے لیے:

  1. پاکستان کی سالمیت و وحدت اور اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا، اور
  2. قادیانیوں کا معاملہ پہلے طے کرنا ہوگا کہ اس منصوبہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھارت سے آنے والے قادیانیوں سے ان کی حیثیت ایک الگ مذہب کے طور پر تسلیم کرائی جائے، جبکہ پاکستان کے شہری قادیانیوں کو دستور پاکستان اور امت مسلمہ کے اجماعی فیصلے کے سامنے سپرانداز ہونے پر مجبور کیا جائے۔

چنانچہ ہم اس ’’گیم‘‘ کے تمام عالمی، علاقائی اور مقامی منصوبہ سازوں سے گزارش کریں گے کہ وہ معاملات کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ بات بہرحال ذہن نشین کر لیں کہ جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کے عقائد و جذبات کو نظرانداز کر کے ان کی کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکے گی اور انہیں ملت اسلامیہ کے ایمان و عقیدہ اور جذبات و احساسات کا بہرحال احترام کرنا ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter