آزادیٔ مساجد و مدارس اور علماء کا موقف

   
تاریخ : 
۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمود ایم این اے نے ۱۰ نومبر ۱۹۷۶ء کو راولپنڈی میں وفاق کی مجلس شوریٰ اور دیگر مکاتیب فکر کے ذمہ دار علماء کرام کا ایک مشترکہ کنونشن طلب کیا ہے جس میں مساجد و مدارس کی آزادی و خودمختاری کو بعض سرکاری اقدامات سے درپیش خطرات کا جائزہ لیا جائے گا اور ان خطرات کے سدباب کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مساجد و مدارس کی آزادی و خودمختاری کے بارے میں علماء کرام کے موقف پر ایک سرسری نگاہ ڈال لی جائے تاکہ اسلامیانِ پاکستان اس امر کا پوری طرح ادراک کر سکیں کہ اس دور میں جب کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ از خود جدوجہد کر کے سرکاری تحویل میں آنے اور اس طرح روزگار کے تحفظ اور دیگر مراعات کے حصول کے لیے بے تاب ہیں، آخر علماء کرام کو کیا ہوا کہ وہ مساجد و مدارس پر سرکاری کنٹرول کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں؟ اور وہ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے معاشرتی مقام بلند کرنے، معاشی مفادات اور روزگار کے تحفظ جیسے واضح اور پرکشش لالچ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ علماء کرام کے اس طرزِ عمل کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں مساجد و مدارس کے موجودہ نظام کے پس منظر کو سامنے رکھنا ہوگا ورنہ سرکاری تحویل سے گریز کے حقیقی اسباب کی نشاندہی مشکل ہو جائے گی۔

امدادِ باہمی کی بنیاد پر مدارس و مساجد کا موجودہ رضاکارانہ نظام اس وقت قائم ہوا تھا جب فرنگی سامراج نے:

  • برصغیر پر اپنا تسلط مضبوط کر لینے کے بعد ہزاروں مدارس کا ’’جھٹکا‘‘ کر دیا تھا،
  • مدارس و مساجد کے لیے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں ضبط کر کے مساجد و مدارس کے خودکار نظام کو کلی طور پر سبوتاژ کر دیا تھا،
  • سرکاری ملازمت کو عربی اور فارسی کی بجائے انگریزی تعلیم کے ساتھ مشروط کر کے برصغیر میں عربی علوم و فارسی زبان کے مستقبل کو مخدوش بنانے کی سازش کی تھی،
  • اور ۱۸۵۷ء کے جہاد کے بعد لاکھوں علماء کی اسارت، ہزاروں علماء کی شہادت اور اکثر مدارس عربیہ کی یک لخت بندش نے عملی طور پر یہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ رجال کار اور افرادی قوت کے حیرت انگیز فقدان کے باعث پورے برصغیر میں مسلمانوں کی مذہبی راہ نمائی، قرآن و حدیث کی تعلیم اور مساجد کی آبادی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو چکا تھا۔

اس وقت علماء کرام اور دیندار مسلمانوں کے امدادِ باہمی کی بنیاد پر مساجد و مدارس کا نظام قائم کرنے کی بنیادی غرض کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تفصیلات کریدنے کی بجاے صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہے کہ جب دارالعلوم دیوبند کے فضلاء کی فرض شناسی اور حسنِ کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے حیدرآباد دکن کے نظام نے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا حافظ محمد احمد کو یہ پیشکش کی کہ دارالعلوم سے جو طلبہ فارغ ہوں انہیں ہمارے پاس بھیج دیں، ہم انہیں روزگار فراہم کریں گے اور اس کے عوض دارالعلوم کے جملہ اخراجات کی کفالت ہم ادا کریں گے۔ تو اس کے جواب میں دارالعلوم کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے یہ تاریخی فیصلہ ارشاد فرمایا تھا کہ

’’ہم دارالعلوم میں طلبہ کو نظام حیدرآباد کی ریاست چلانے کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کی مسجدیں آباد رکھنے کے لیے پڑھاتے ہیں۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد مدارس و مساجد کے رضاکارانہ نظام کے بنیادی مقاصد کو سمجھنے کے لیے کسی مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اس کے ساتھ مناسب ہوگا کہ معاشرہ پر مساجد و مدارس کے رضاکارانہ نظام کے اثرات اور اس کے تاریخی کردار کو بھی ایک بار ذہنوں میں تازہ کر لیا جائے تاکہ ہم سرکاری تحویل سے علماء کرام کے گریز کی تہہ میں کارفرما جذبات و احساسات کا پوری طرح ادراک کر سکیں۔ اردو زبان کے محاوروں میں ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا ذکر آتا ہے لیکن برصغیر میں مساجد و مدارس کے رضاکارانہ نظام کے تحت علماء کرام کی جدوجہد کا احاطہ کرنے میں یہ محاورہ بھی قصور و کوتاہی کا اعتراف کرتا نظر آتا ہے۔ آپ خیال فرمائیں کہ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جہاں ان علماء و صلحاء نے اپنی تگ و تاز کے انمٹ اور گہرے اثرات نہیں چھوڑے۔ سیاست کا ذکر ہوگا تو آپ دیکھیں گے کہ سرفروشوں کا یہ قافلہ قدم قدم پر آگ او رخون کے دریا عبور کرتے ہوئے آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوا۔ شہادت گہہ بالاکوٹ، جہاد ۱۸۵۷ء اور بنگال کی فرائضی تحریک کا تو خیر کافی دیر کا قصہ ہے لیکن ماضی قریب میں جن اکابر نے آزادی کی جدوجہد اور تحریک پاکستان میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے ان میں مولانا شیخ الہند محمود الحسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا مفتی کفایت اللہؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، اور مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ جیسے عظیم اکابر ملت اور سرفروشان تحریک آزادی مساجد و مدارس کے اسی رضاکارانہ نظام کے پروردہ اور خوشہ چین ہیں۔

علمی خدمات اور علوم اسلامیہ کی حفاظت کی بات ہوگی تو آپ کو برصغیر میں قدم قدم پر مدارس و مساجد کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا جہاں ہر قسم کے سرکاری امداد و مداخلت سے بے نیاز ہو کر قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کی امانت نئی نسل تک پہنچانے کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جا رہا ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی تشریح و تفسیر اور علوم اسلامیہ کی ترویج سے متعلق علمی ذخیرہ میں ان حضرات کا پیش کردہ ایسا مہتمم بالشان اضافہ آپ کو نظر آئے گا جس پر آج عرب و عجم کے علماء کو فخر ہے۔

عقائد و نظریات کے محاذ پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ملت اسلامیہ کے اجماعی عقائد سے انحراف اور مسلمانوں کی راسخ الاعتقادی کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کا مقابلہ اگر مساجد و مدارس کے رضاکارانہ نظام کے پلیٹ فارم سے پوری جرأت و استقامت کے ساتھ نہ کیا جاتا تو بظاہر آج پورے برصغیر میں ایک بھی صحیح العقیدہ مسلمان نظر نہ آتا۔ سر سید احمد خان سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز تک جس شخص نے بھی برصغیر میں نظریاتی انارکی پیدا کرنے اور ملاازم کی مخالفت کی آڑ میں مسلمانوں سے ان کی راسخ العقیدگی چھیننے کی کوشش کی ہے، اس نے مساجد و مدارس کے اس نظام کو اپنے سامنے ایسی مضبوط دیوار پایا ہے جس کے ساتھ ٹکرا کر اپنی شوریدہ سری ترک کیے بغیر اسے کوئی چارۂ دکھائی نہیں دیا۔

اور اب معاشرتی محاذ پر آجائیے، مغربی تہذیب جس کی چمک چمک اور خیرہ سامانیوں نے پوری دنیا کو فریب میں مبتلا کر رکھا ہے، مساجد و مدارس کے اس رضاکارانہ نظام کے خوشہ چینوں کی آنکھ کو خیرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور پوری دنیائے اسلام میں آج یہی ایک طبقہ ہے جس نے پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن، زبان و کلچر، وضع قطع، لباس اور بود و باش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کسی حالت میں بھی مشرقی و اسلامی معاشرت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

مساجد و مدارس کے رضاکارانہ نظام کے بنیادی مقاصد، معاشرہ میں اس کے اثرات اور سیاسی، تعلیمی، نظریاتی اور معاشرتی محاذوں پر اس کی فیصلہ کن جدوجہد پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد اب اس امر کا تجربہ کیجئے کہ کیا مساجد و مدارس کے موجودہ نظام سے وابستہ علماء کرام سرکاری تحویل میں آجانے کے بعد بھی اپنے ان عظیم مقاصد، کردار اور جدوجہد کو باقی رکھ سکیں گے؟ اور کیا وہ پہلے کی طرح پورے اعتماد و استقامت کے ساتھ سیاسی، تعلیمی، نظریاتی اور معاشرتی شعبوں میں اپنے بزرگ اسلافؒ کی روایات کے مطابق ملت اسلامیہ کی راہ نمائی و قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں گے؟ واقعات و تجربات گواہی دیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آج حکمران گروہ واضح لفظوں میں یہ کہہ رہا ہے کہ مساجد میں سیاسی تقریریں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ سیاست اسلام کا جزو ہے اور قرآن و حدیث کا ایک بہت بڑا حصہ حکمرانی، سیاست، اقتصادیات، قانون اور ہر حال میں ظلم و جبر کی مخالفت کے واضح احکام پر مشتمل ہے جن سے ایک عالم دین تو کجا عام مسلمان بھی ایک لمحہ کے لیے صرف نظر نہیں کر سکتا۔

حکمران طبقہ خلاف اسلام عقائد و نظریات اور یورپی تہذیب و معاشرت کی بیخ کنی کی بجائے خود ان کی سرپرستی و آبیاری میں مصروف ہے، اور مساجد و مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے سے اس کی غرض یہی ہے کہ ان دینی مراکز سے بلند ہونے والی حق و صداقت کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ یہ الزام نہیں حقیقت ہے اور اس کے ثبوت میں اس سے بڑی کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ ابھی ایک ماہ قبل محکمہ اوقاف نے بہاولپور کے ڈسٹرکٹ خطیب مولانا ٰغلام مصطفیٰ کو صرف اس جرم میں ملازمت سے برطرف کر دیا ہے کہ انہوں نے عید الفطر کے خطبہ میں حقوقِ نسواں کمیٹی کی سفارشات کے خلاف اسلامی پہلوؤں پر نکتہ چینی کیوں کی ہے؟ ان حالات میں علماء کرام کے سامنے صرف دو راستے ہیں:

  1. اولًا وہ سیاسی، علمی، نظریاتی اور معاشرتی محاذوں پر اپنی عظیم جدوجہد اور تاریخ ساز کردار سے، جو ان کا شرعی و ملی فرض ہے، دستبردار ہو جائیں اور سرکاری ملازمت قبول کر لیں۔ اس سے یقیناً ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، ان کی ملازمتوں کو تحفظ مل جائے گا، وہ محلوں او ربستیوں میں چند افراد پر مشتمل کمیٹیوں کے رحم و کرم پر نہیں رہیں گے، انہیں چندے وصول کرنے ان کا حساب رکھنے اور جا بجا طعنے سننے کی مصیبت سے نجات مل جائے گی، اور اس جیسے بیشتر معاشی مفادات حاصل ہوں گے۔ لیکن ان کی حیثیت قرآن و حدیث کے ترجمان اور منبر رسولؐ علی صاحبہ التحیۃ والسلام کے وارث علماء حق کی نہیں بلکہ ریڈیو و ٹی وی کے اناؤنسروں جیسی ہوگی۔
  2. ثانیًا یہ کہ وہ تنخواہوں میں اضافہ اور روزگار کے تحفظ وغیرہ جیسے مفادات کو قربان کرتے ہوئے عزیمت و استقامت کا پرچم بلند کیے رکھیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter