حدود آرڈیننس میں ترامیم کی بحث

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کے حوالہ سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اعلیٰ سطح پر مذاکرات ہوئے جن میں راقم الحروف کو بھی شریک ہونے کا موقع ملا، اس کی تھوڑی سی تفصیل قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں معاشرتی جرائم کی شرعی سزاؤں یعنی حدود شرعیہ کا ’’حدود آرڈیننس‘‘ کے نام سے ایک قانونی پیکج نافذ کیا گیا تھا جو سیکولر حلقوں کے اعتراض و تنقید کا مسلسل ہدف بنا ہوا ہے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسے منسوخ کر دیا جائے۔ اس میں زنا کی شرعی سزا کے قوانین بطور خاص ہدف اعتراض ہیں اور ان میں ردوبدل کے لیے ایک عرصہ سے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلہ میں روزنامہ پاکستان لاہور میں ۱۷ ستمبر ۲۰۰۶ء کو این این آئی کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ ختم نبوت سے متعلقہ قوانین، توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون اور حدود آرڈیننس کو امتیازی قوانین قرار دے کر امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ انہیں ختم کر دیا جائے، اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے۔

اس پس منظر میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے نام سے ایک مسودہ قانون منظوری کے لیے پیش کیا گیا جو دراصل حدود آرڈیننس میں ترامیم کا بل تھا۔ اس پر نہ صرف متحدہ مجلس عمل کے ارکان اسمبلی بلکہ خود سرکاری پارٹی کے بعض ارکان نے بھی شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اس کی بعض دفعات قرآن و سنت سے متصادم ہیں اس لیے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ متحدہ مجلس عمل نے اعلان کر دیا کہ اگر یہ بل اسی صورت میں منظور کیا گیا تو ایم ایم اے کے ارکان اسمبلی مستعفی ہوجائیں گے اور ملک ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوجائے گا۔

اس پر حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور دونوں میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ چند ایسے سرکردہ علماء کرام سے اس بارے میں رائے لی جائے جو موجودہ سیاسی کشمکش میں فریق نہ ہوں اور ان کی رائے کو دونوں فریق قبول کر لیں۔ اس پر اس مقصد کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا حسن جان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور راقم الحروف کے ناموں پر دونوں راہنماؤں کا اتفاق ہوا۔ اور ایک ’’خصوصی علماء کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی جس نے ۶ ستمبر سے ۱۷ ستمبر تک اسلام آباد میں متعدد اجلاس کرکے تحفظ حقوق نسواں بل کا جائزہ لیا اور حکمران مسلم لیگ کے راہنماؤں، متحدہ مجلس عمل کے ارکان اسمبلی، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان اسمبلی اور وزارت قانون کے اعلیٰ حکام (لاء سیکرٹری، ایڈیشنل لاء سیکرٹری، اٹارنی جنرل) کے علاوہ مختلف وفاقی وزراء کے ساتھ طویل ملاقاتیں کیں اور تحفظ حقوق نسواں بل کے مسودہ میں متعدد ترامیم تجویز کیں، جن میں اہم ترین امور یہ تھے:

  • نئے مسودہ میں زنا بالجبر کو حد شرعی کے دائرہ سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا گیا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ شرعی حد کے حوالہ سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کرنا قرآن و سنت کی رو سے درست نہیں ہے۔ کیونکہ حد شرعی جس طرح زنا بالرضا کی صورت میں نافذ ہوتی ہے، زنا بالجبر کی صورت میں بھی مکمل شرعی ثبوت فراہم ہونے پر حد ہی نافذ ہوگی اور اسے حد کے نفاذ سے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔
  • اس مسودہ میں زنا بالرضا کی صورت میں شرعی ثبوت مکمل فراہم ہونے پر حد شرعی یعنی رجم یا سو کوڑوں کی سزا بحال رکھی گئی ہے، لیکن شرعی ثبوت پورا نہ ہونے کی صورت میں اس سے متعلقہ جرائم (مثلاً دواعی زنا وغیرہ)کا ثبوت ریکارڈ میں آجانے پر جو تعزیری سزائیں حدود آرڈیننس میں رکھی گئی تھیں انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔ ہم نے کہا کہ یہ غلط ہوا ہے، اس لیے زنا بالرضا کی صورت میں زنا کا ثبوت مکمل نہ ہونے کی صورت میں اس سے نچلے درجے کا جو بھی جرم اسی مقدمہ میں عدالت میں ثابت ہو چکا ہے اس کی تعزیری سزا دوبارہ بحال کی جائے اور متعلقہ عدالت کو حق دیا جائے کہ وہ از خود یہ سزا دے سکے۔
  • حدود آرڈیننس میں ان قوانین کے دوسرے قوانین کے ساتھ متصادم ہونے کی صورت میں حدود آرڈیننس کو بالادستی دی گئی تھی جو نئے مسودہ میں حذف کر دی گئی ہے، اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔
  • اس مسودہ قانون کو ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس میں صرف زنا سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کو شامل کیا گیا ہے اور ہمارے معاشرے میں عورت کی مظلومیت کے جو حقیقی مسائل ہیں ان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے مثلاً:
    1. عورت کو عام طور پر وراثت میں اس کا حصہ نہیں ملتا۔
    2. بہت سی عورتوں کو مہر نہیں ملتا یا ملتا ہے تو اس کا باپ وصول کر لیتا ہے۔
    3. بعض علاقوں میں عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔
    4. بعض علاقوں میں عورت کا اس کی مرضی کے خلاف جبری نکاح کر دیا جاتا ہے۔
    5. جبری وٹہ سٹہ جسے شرعاً شغار کہا جاتا ہے، اس کا رواج بعض علاقوں میں عام ہے جو عورت کے حقوق کے منافی ہے۔
    6. بیک وقت تین طلاقیں اکٹھی دے کر دوبارہ نکاح یا رجوع کے تمام راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں، اسے تین طلاقیں اکٹھی دینے کو تعزیری جرم قرار دے کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
    7. بعض علاقوں میں عورتوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیے قرآن کریم کے ساتھ شادی کی مذموم اور شرمناک رسم کے ذریعہ انہیں باقاعدہ نکاح اور شادی کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت عورتوں کی مظلومیت کو کم کرنے اور ان کے حقوق کو بحال کرانے میں مخلص ہے تو اسے ان مسائل کے بارے میں بھی قانون سازی کرنی چاہیے۔

’’خصوصی علماء کمیٹی‘‘ نے اور بھی بہت سے امور کے بارے میں رائے دی ہے اور حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مذکورہ بالا اصولی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ہمارے موقف کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے بھی ان ترامیم اور تجاویز سے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور قومی اسمبلی میں اس بل کے لیے قائم کی جانے والی سلیکٹ کمیٹی کے سربراہ سردار نصر اللہ خان درمیشک کا کردار بطور خاص قابل ستائش رہا ہے کہ وہ شروع سے آخر تک ہر مرحلہ پر ان مذاکرات میں بذات خود شریک رہے اور ان کا دو ٹوک موقف یہ تھا کہ وہ قرآن و سنت کے منافی کوئی بات کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں، اس لیے جس شق کے بارے میں علماء کرام صراحت کر دیں گے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی ہے تو وہ ایسی کسی شق کو اس بل میں شامل نہیں رہنے دیں گے۔ یہ جذبہ قابل قدر ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اپنے اس جذبہ پر استقامت نصیب فرمائیں اور اسی جذبہ کے ساتھ ملک میں نافذ شرعی قوانین کی حفاظت بلکہ ان میں مزید پیشرفت کے مواقع اور سعادت سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter