پاکستان پیپلز پارٹی کا قادیانی امیدوار

   
تاریخ اشاعت: 
جنوری ۲۰۰۸ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم، نائب امیر حضرت مولانا سید نفیس الحسینی دامت برکاتہم اور ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری نے تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان کی صوبائی سیٹ پر ایک قادیانی امام بخش قیصرانی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹکٹ دیے جانے کی مذمت کی ہے اور ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پی پی کی مرکزی اور صوبائی قیادت تک احتجاج پہنچائے جانے کے باوجود مسلم سیٹ پر قادیانی کا ٹکٹ بحال رکھنا بد ترین نوعیت کی قادیانیت نوازی ہے۔

قادیانیوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ جسے پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اپنے کارناموں میں اکثر بیان کرتے رہتے ہیں اور بھٹو مرحوم کی زندگی کے آخری ایام کے حوالہ سے جیل میں ان کے فوجی نگران کرنل رفیع الدین نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ بھٹو مرحوم بھی آخری دنوں میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں اپنے اس فیصلے کا اس انداز سے ذکر کیا کرتے تھے کہ یہ آخرت میں ان کی نجات کا باعث ہو گا۔

قادیانیوں نے تب سے اس دستوری فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے وہ پوری دنیا کی امت مسلمہ کے اجماعی فتوٰی اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خود کو زبردستی مسلمانوں میں شمار کرانے کی ضد پر اب تک قائم ہیں۔ اور اسی وجہ سے انتخابی فہرستوں کی تیاری کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ان میں غیر مسلم ووٹروں کے طور پر وہ اپنے نام درج نہیں کراتے اور نہ ہی اقلیتی نشست کے طور پر اسمبلی میں نمائندگی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر ایک طرف یہ بائیکاٹ جاری رکھتے ہوئے دوسری طرف وہ مسلمانوں کی نشستوں پر مسلمان نمائندے کے طور پر منتخب ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک قادیانی کو ٹکٹ دینا مسلمانوں کے دینی جذبات کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کے تقاضوں سے انحراف اور خود بھٹو مرحوم کی پالیسی اور جذبات کی نفی کے مترادف ہے جس پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بزرگ راہ نماؤں کا یہ احتجاج بر وقت اور درست ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter