قاہرہ میں صدر اوباما کا خطاب

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۰۹ء

امریکہ کے صدر جناب باراک حسین اوباما نے ۴ جون کو قاہرہ یونیورسٹی میں مسلمانوں سے خصوصی خطاب کیا ہے اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے اور وہ مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں دور کر کے منافرت کی وہ فضا ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسلم دنیا میں امریکہ کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ صدر اوباما نے اس سے قبل استنبول میں بھی اسی نوعیت کا خطاب کیا تھا اور عالم اسلام کو یہ باور کرانے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں صرف کی تھیں کہ امریکہ مسلمانوں سے دشمنی اور اسلام سے عناد نہیں رکھتا اور مسلمانوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

جناب باراک حسین اوباما کے اسلامی خاندانی پس منظر اور امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے ان کے بطور صدر انتخاب سے قبل ہی ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں اور ان کے صدر بن جانے کے بعد بھی دنیا کے بہت سے مسلمان انہی توقعات اور امیدوں کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ جبکہ یہ بات اہل دانش پر مخفی نہیں ہے کہ امریکہ کا صدر اپنے وقت میں دنیا کا سب سے زیادہ با اختیار اور طاقتور شخص کہلانے کے باوجود امریکہ کے مجموعی نظام کا صرف ایک حصہ ہوتا ہے اور وہ اگر کوئی بنیادی تبدیلی دل سے چاہے بھی تو اس سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ امریکہ کے سیاسی اور معاشی سسٹم میں ’’پنجۂ یہود‘‘ کی کارفرمائی روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اس لیے صدر بارک حسین اوباما اگر امریکہ اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے اور عالم اسلام میں امریکہ کے بارے میں پائے جانے والے منفی جذبات کو صلح و اعتماد میں تبدیل کرنے کے عزم میں مخلص ہوں تو بھی موجودہ صورتحال میں اس کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اور اس وقت تک امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان اعتماد کی بحالی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے جب تک:

  • مشرق وسطی میں یہودیوں کی خود ساختہ چودھراہٹ، اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے ہاتھوں عربوں بالخصوص فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی فضا قائم ہے،
  • اور امریکہ کے سیاسی و معاشی نظام پر یہودیوں کی اجارہ داری موجود ہے۔

ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ صدر بارک حسین اوباما عالم اسلام کے بارے میں مثبت جذبات رکھتے ہوں گے اور وہ امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان اعتماد کی بحالی کی کوشش میں بھی یقیناً مخلص ہوں گے لیکن اس کے لیے انہیں موجودہ امریکی سسٹم کے پیدا کردہ ماحول اور تناظر سے ہٹ کر زمینی حقائق کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا اور عالم اسلام کی شکایات اور مسائل کو خود عالم اسلام کے جذبات و خیالات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ کیونکہ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام کے مسائل اور مشکلات کی فہرست بھی امریکہ خود طے کرتا ہے اور ان مسائل و مشکلات پر عالم اسلام کی جانب سے امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مسلم دنیا کے نمائندوں کا انتخاب بھی امریکہ ہی کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ مثلاً صدر اوباما نے مسلم دنیا کے حوالہ سے اپنے ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’اگرچہ ماضی میں امریکہ نے اس خطے میں تیل اور گیس ہی پر توجہ مرکوز کی ہے، اب ہم وسیع تر تعلقات چاہتے ہیں، تعلیم کے میدان میں ہم دوطرفہ اشتراک کے پروگراموں کو وسعت دیں گے اور وظائف میں اضافہ کریں گے، ایسے ہی ایک وظیفے کی بدولت میرے والد امریکہ آئے تھے۔ اور ساتھ ہی امریکی طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ مسلم ممالک میں تعلیم حاصل کریں، اس کے بدلے ہم ہونہار مسلم طلبہ کو امریکہ انٹرن شپ دیں گے، دنیا بھر کے اساتذہ اور بچوں کو آن لائن تعلیم اور تربیت کو فروغ دیں گے اور نئے نیٹ ورک قائم کریں گے تاکہ کنساس بیٹھا ہوا ایک بچہ قاہرہ میں بیٹھے ہوئے بچے سے فوری تبادلہ خیالات کر سکے۔ اقتصادی ترقی کے شعبے میں ہم بزنس کے رضاکاروں کی ایک جماعت تیار کریں گے جو مسلم اکثریتی ممالک میں موجود رضا کاروں کے ساتھ مل کر کام کر سکیں اور میں اس سال انٹرپرینیورشپ کے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کروں گا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ تجارتی راہنماؤں، اداروں اور دنیا بھر کی مسلم برادریوں کے ساتھ تعلقات روابط کیسے مضبوط بنائے جائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم مسلم اکثریتی ممالک میں ٹیکنالوجی ترقی کی امداد کے لیے اور نظریات کے منڈیوں تک منتقلی کے فروغ کے لیے ایک نیا فنڈ قائم کریں گے تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکیں۔ ہم افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں نئے سائنسی مراکز قائم کریں گے اور توانائی کے نئے ذرائع، ماحول کے روزگار ڈیجیٹل ریکارڈ، صاف پانی اور نئی فصلیں اگانے کے پروگراموں میں تعارف کے لیے سائنسی اٹیچی تعینات کریں گے۔ اور آج میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ساتھ مل کر پولیو کے خاتمہ کے لیے ایک نئی عالمی کوشش کا اعلان کر رہا ہوں اور ہم زچہ بچہ کی صحت کے فروغ کے لیے بھی مسلم برادریوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں تعارف اور اشتراک کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہیں۔‘‘

صدر اوباما کی تقریر کا یہ طویل اقتباس ہم نے اس لیے نقل کیا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ امریکہ کے نزدیک عالم اسلام کے مسائل کیا ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے وہ کیا کر سکتا ہے؟ لیکن ہم امریکہ کے صدر محترم کی خدمت میں بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ عالم اسلام کے مسائل ضرور ہیں لیکن امریکہ اور عالم اسلام کے تعلقات کے تناظر میں مسلمانوں کے اصل مسائل یہ نہیں ہیں اور جب تک امریکہ اور مغرب عالم اسلام کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دیں گے محض جزوی معاملات میں وقت، رقم اور صلاحیتوں کا کسی بھی سطح پر استعمال اعتماد کی وہ فضا قائم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو گا جس کی صدر اوباما توقع کر رہے ہیں۔

امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان کشمکش کے اصل مسائل سیاسی اور ثقافتی ہیں کہ:

  1. امریکہ اور مغرب انسانی سوسائٹی میں اسلام کے معاشرتی کردار کی نفی کرتے ہوئے مسلمانوں کو اجتماعی زندگی میں اسلام سے دور کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کر رہے ہیں، جبکہ دنیا بھر کے مسلمان اسلام کے معاشرتی کردار اور اجتماعی زندگی کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔
  2. امریکہ اور مغرب عالم اسلام سے معاملات طے کرنے کے لیے مسلم رائے عامہ کے حقیقی نمائندوں سے بات کرنے کی بجائے مسلم دنیا پر اپنی مرضی کی لیڈرشپ مسلط کر کے ان کے ذریعے عالم اسلام کو اپنے ڈھب پر لانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
  3. امریکہ اور مغرب فلسطین اور کشمیر کے مسائل کے حوالہ سے عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی فیصلوں کو مسلسل پامال کرتے ہوئے ظلم و بربریت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
  4. امریکہ اور مغرب طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم دنیا کو نہ تو اقوام متحدہ کے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی عسکری طاقت اور ٹیکنالوجی میں عالم اسلام کو توازن کی پوزیشن میں آنے کا راستہ دے رہے ہیں۔
  5. حتٰی کہ امریکہ اور مغرب نے انسانی حقوق، جمہوریت اور اقوام کی خود مختاری کے احترام کے ان اصولوں کے حوالہ سے بھی عالم اسلام کے بارے میں الگ معیار قائم کر رکھا ہے جو خود امریکہ اور مغرب کے نزدیک مغربی فلسفہ کی بنیاد ہیں۔
  6. نیز عراق اور افغانستان میں امریکی اتحاد نے جو کچھ کیا ہے اور اب پاکستان کی داخلی حدود میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اس نے ملت اسلامیہ کے جسم کو زخموں سے چور چور کر دیا ہے اور اس کے تسلسل میں ابھی تک کمی کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں، وغیر ذٰلک۔

صدر اوباما نے اس خطاب میں اسرائیل کی حمایت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے مضبوط رشتوں کے بارے میں سب جانتے ہیں، یہ رشتہ نا قابل تنسیخ ہے، اس کی بنیاد ثقافتی اور تاریخی بندھنوں پر اور اس احساس پر ہے کہ یہودیوں کی ایک وطن کی آرزو کی بنیاد ایک المناک تاریخ پر ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں یہودی عوام پر صدیوں تک ظلم کیے جاتے رہے اور یورپ میں یہود دشمنی کا انجام نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کی صورت میں نکلا جسے ہولوکاسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ کل میں Buchenwald جاؤں گا، جو ان کمپنیوں کے نیٹ ورک کا حصہ تھا جہاں یہودیوں کو غلام بنایا جاتا تھا، انہیں اذیتیں دی جاتی تھیں، انہیں گولی ماری جاتی تھی اور زہریلی گیس سے موت کی نیند سلا دیا جاتا تھا، ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، یہ تعداد آج کے اسرائیل کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔‘‘

ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ہولوکاسٹ کی تاریخی حیثیت کیا ہے البتہ صدر اوباما محترم سے یہ دریافت کرنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ یہودیوں کی وطن کی آرزو پوری کرنے کے لیے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کر دینے کا آخر کیا جواز ہے؟ ہمارے ہاں یہ کام قبضہ گروپ کیا کرتے ہیں جو کسی من پسند خاندان کو مکان کا قبضہ دلانے کے لیے وہاں پہلے سے مکین خاندان کا سامان زبردستی اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں اور جبرًا گھر خالی کرا لیتے ہیں۔ پھر مبینہ ہولوکاسٹ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن کیا صدر اوباما اس بات کے لیے تیار ہیں کہ (۱) جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے ہاتھوں (۲) وسطی ایشیا میں روسی استعمار کے ہاتھوں (۳) اور عراق و افغانستان سمیت دنیا بھر میں امریکی استعمار کے ہاتھوں قتل عام کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک کمیشن قائم کیا جائے، اور گوانتاناموبے طرز کے ان بیسیوں کیمپوں کے مناظر کو بھی منظر عام پر لایا جائے جن میں گزشتہ دو صدیوں کے دوران مسلمانوں کو دہشت و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

صدر امریکہ نے اپنے خطاب میں بہت سی باتیں فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک پر بات ہو سکتی ہے مگر ہم نے بطور نمونہ ان میں صرف دو حوالوں سے مختصرًا گزارشات پیش کی ہیں، اس طرف توجہ دلانے کے لیے کہ امریکہ اور عالم اسلام میں اعتماد کی بحالی کے لیے اصل ضرورت مصنوعی ماحول سے نکلنے اور زمینی حقائق کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لینے کی ہے، اس کے بغیر اس حوالہ سے کیا جانے والا کوئی کام بھی حالات کا رخ تبدیل نہیں کر سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter