مبینہ دہشت گردی کے اصل اسباب

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۱۱ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ فروری ۲۰۱۱ء کی خبر کے مطابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے جاپان کے تین روزہ سرکاری دورے کے موقع پر جاپانی سرمایہ کاروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے دہشت گردی کے خاتمہ میں مدد ملے گی اور عالمی امن کو تقویت حاصل ہو گی۔‘‘

جہاں تک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو توجہ دلانے کا مسئلہ ہے یہ ملکی معیشت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس کے لیے حکمرانوں کی کوششوں کو ہم سراہتے ہیں لیکن سرمایہ کاری کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کی بات ہمارے لیے ہمیشہ نا قابل فہم رہی ہے۔دراصل عالمی قوتوں کو یہ مغالطہ ہے کہ جسے وہ دہشت گردی قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف جنگ کا بگل بجا کر انہوں نے اپنے سارے وسائل میدان جنگ میں جھونک دیے ہیں، اس کی اصل وجہ غربت ہے اور یہ فقر و فاقہ کے مارے ہوئے لوگ ہیں جو دولت کی تلاش میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لیے اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار کی فراہمی کی صورت عام ہو جائے اور لوگوں میں خوشحالی کا ماحول پیدا کیا جا سکے تو اس مبینہ دہشت گردی کا زور کم کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کو دہشت گردی اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ہم نے متعدد بار یہ عرض کیا ہے کہ یہ بات خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے کہ مبینہ دہشت گردی کے اسباب میں غربت کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے بلکہ جس عمل کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خاتمہ کے لیے عالمی قوتیں کوشاں ہیں اس کی وجہ عقیدہ و ثقافت ہے اور عالمی قوتوں کی وعدہ خلافیاں اور فریب کاریاں اس کا اصل سبب ہیں۔ جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی زندگی کو اپنے عقیدہ و ثقافت کے مطابق استوار کرنا چاہتے ہیں اور ریاستی و معاشرتی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کےمغربی فلسفہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جبکہ ان کے ساتھ تاریخ کی یہ سب سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ان کی قوت سے بھرپور استفادہ کرنے کے بعد جب جہادِ افغانستان کے اصل ایجنڈے یعنی ملک میں نفاذ شریعت کو بروئے کار لانے کا مرحلہ آیا تو مغربی قوتوں نے نہ صرف انہیں یہ حق دینے سے انکار کر دیا بلکہ مغربی ممالک پوری قوت کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑے۔ اس شرمناک دھاندلی کے ردعمل میں افغانستان کے لوگ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ اردگرد کے بہت سے گروہوں نے غصے اور نفرت سے بھرپور اسی ردعمل میں ہتھیار اٹھا لیے ہیں جسے دہشت گردی قرار دے کر ان کے خلاف عالمی سطح پر جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اس صورتحال کے اصل اسباب و عوامل پر پردہ ڈال کر ہتھیار اٹھانے والے گروہوں کے جذبات کو معاشی اسباب کے ساتھ نتھی کرنا اور ان کے عقیدہ و ثقافت کو نظر انداز کر دینا سراسر ناانصافی اور ظلم کی بات ہے اور ہمارے خیال میں مغربی ملکوں کو مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہونے کی ایک وجہ اصل حقائق اور اسباب کو ڈھٹائی کے ساتھ نظر انداز کر دینا بھی ہے۔

صدر پاکستان سے ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ مبینہ دہشت گردی کو غربت کے ساتھ نتھی کرکے معاشی سہولتوں کی فراہمی کو اس مسئلہ کا حل بتانا مغرب کی خود فریبی اور مغالطہ کاری ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو تو کم از کم اس فریب کاری کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر معروضی حقائق سے منہ نہیں پھیرنا چاہیے۔ پاکستان کے حکمرانوں سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہے کہ جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے، ان کا اصل مسئلہ غربت اور افلاس نہیں بلکہ عقیدہ و ثقافت ہے اور ان کے عقیدہ و ثقافت کو تحفظ و احترام فراہم کیے بغیر مبینہ دہشت گردی کے کمزور پڑنے کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے، اس حقیقت کو عالمی طاقتیں اور ان کے ہمنوا جتنی جلدی سمجھ لیں خود ان کے لیے بہتر ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter