ایران میں گیارہ روز: ایرانی انقلاب کے اثرات، معاشرتی تبدیلیاں، اور اہل سنت کے مسائل

   
تاریخ : 
۶ فروری ۱۹۸۷ء

کوئٹہ کی جامع مسجد سفید کے خطیب مولانا قاری عبد الرحمٰن ایرانی انقلاب کے ان پرجوش حامیوں میں شمار ہوتے ہیں جو نہ صرف خود انقلابِ ایران کے محاسن و فضائل کے پرچار میں مصروف رہتے ہیں بلکہ ان کی مسلسل کوشش رہتی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں کے روابط ایرانی انقلاب کے رہنماؤں کے ساتھ مثبت بنیادوں پر استوار ہوں اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے سلسلہ میں ایران کے انقلابی رہنماؤں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ گزشتہ سال حج بیت اللہ کے موقع پر مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں ان سے ملاقات ہوئی تو انقلاب ایران کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے پیشکش کی کہ اگر آپ ایران میں اس انقلاب کے اثرات کو براہ راست دیکھنا چاہیں تو حکومت ایران کی طرف سے اس کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ میں نے گزارش کی کہ میں ایرانی انقلاب کے نتائج و ثمرات کو براہ راست دیکھنے کے لیے ایران جانے کی خواہش رکھتا ہوں بشرطیکہ میرے ساتھ اور دوست بھی ہوں اور ایران میں جن حضرات سے ہم ملنا چاہیں ان سے ہمیں ملنے کی اجازت ہو۔ میری مراد اس سے ایران کے اہل سنت تھے جن کے بارے میں مختلف حلقوں سے دبے لفظوں میں یہ باتیں سامنے آرہی تھیں کہ ایران کے اہل سنت اپنے حقوق اور مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ مناسب موقع پر اس سلسلہ میں مجھ سے رابطہ قائم کریں گے۔

اس پس منظر میں مجھے پاکستانی علماء، وکلاء اور دانشوروں کے اس وفد میں شامل کر لیا گیا جس نے یکم جنوری سے ۱۲ جنوری تک ایران کے مختلف حصوں کا مطالعاتی دورہ کیا اور میری گزارش پر پنجاب اسمبلی کے رکن اور جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا منظور احمد چنیوٹی کو بھی وفد میں شامل کیا گیا۔ یہ وفد پندرہ ارکان پر مشتمل تھا جس میں ہم دونوں کے علاوہ مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے:

(۱) چودھری صفدر علی، سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان۔ (۲) حافظ حسین احمد، سیکرٹری اطلاعات جمعیۃ علماء اسلام (مولانا فضل الرحمٰن گروپ) پاکستان۔ (۳) ممتاز صحافی جناب مختار حسن۔ (۴) ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد۔ (۵) نواب محمد احسن خاکوانی ایڈووکیٹ، ملتان۔ (۶) مولانا مفتی دائم الدین، سکھر۔ (۷) جناب اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، سکھر۔ (۸) جناب راجہ رب نواز ایڈووکیٹ، کوئٹہ۔ (۹) جناب مولانا قاری عبد الرحمٰن، کوئٹہ۔ (۱۰) جناب ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، کوئٹہ۔ (۱۱) جناب رشید بیگ، کوئٹہ۔ (۱۲) جناب ڈاکٹر عبد الواسع، لورالائی۔

ہم یکم جنوری کو نماز عصر سے قبل تفتان سے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے ایران کی حدود میں داخل ہوئے اور ۱۲ جنوری کو صبح آٹھ بجے کے قریب یہیں سے دوبارہ پاکستان واپس آگئے۔ ایران کی انقلابی حکومت کا ادارہ ’’سازمان تبلیغات اسلامی‘‘ اس دورہ میں ہمارا میزبان تھا اور ادارہ کے بیرونی امور کے ڈائریکٹر حجۃ الاسلام جناب محمد علی تسخیری نے میزبانی کے امور کی براہ راست نگرانی کی۔ ایرانی سرحد پر زاھدان کی انتظامیہ کے نمائندے اور سازمان تبلیغات اسلامی کے مقامی عہدہ دار ہمارے خیرمقدم کے لیے موجود تھے اور انہوں نے ۱۲ جنوری کو واپسی پر ہمیں خدا حافظ کہا۔

دورہ کا مقصد

ایران میں گیارہ روزہ قیام کے دوران ہم نے چھ دن تہران میں قیام کیا اور انہی میں سے ایک دن کا حصہ قم میں گزارا۔ دو دن مشہد میں رہے، دو دن زاھدان میں قیام رہا اور باقی وقت سفر میں گزرا۔ وفد میں مختلف طبقات اور متنوع افکار کے حامل حضرات شریک تھے، ظاہر ہے کہ ایران میں ہر ایک نے اپنے ذہن کے مطابق صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر اسی بنیاد پر اپنی سوچ کا رخ متعین کیا۔ چنانچہ مولانا منظور احمد چنیوٹی اور راقم الحروف نے بھی اس دورہ کے آغاز پر اپنے طور پر ایک ذہنی ترتیب قائم کر لی کہ کن باتوں کا جائزہ لینا ہے اور ایرانی انقلاب کے راہنماؤں سے ملاقات کے دوران کون سے امور پر گفتگو کرنی ہے۔ ہم اپنی ترتیب کے مطابق مندرجہ ذیل امور کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

  1. ایران میں مذہبی بنیاد پر آنے والا یہ انقلاب کیا صرف شاہ ایران کے خلاف عوامی نفرت کا وقتی ردعمل تھا یا اس انقلاب کی کوئی فکری بنیاد بھی موجود ہے؟
  2. کیا ایرانی انقلاب کے قائدین اور مذہبی حلقے اس انقلاب کے تحفظ اور دوام کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہیں؟
  3. کیا اس انقلاب کے نتیجہ میں اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں کوئی عملی تبدیلی بھی آئی ہے، یا یہ صرف ایک لیبل ہے جو اسی پرانے نظام پر چسپاں کر دیا گیا ہے؟
  4. انقلاب ایران کے رہنماؤں نے فرقہ وارانہ مسائل پر کس طرح قابو پایا ہے؟
  5. ایران میں اہل سنت کس حال میں ہیں اور کیا وہ موجودہ انقلاب اور اپنے حقوق و مفادات کے بارے میں مطمئن ہیں؟
  6. پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کی راہ میں حائل رکاوٹوں بالخصوص فرقہ وارانہ الجھنوں اور فقہی تشخص کے تعین کے بارے میں ایرانی راہنماؤں کا نقطہ نظر کیا ہے؟

یہ تھے وہ سوالات جو ایران کی سرحد عبور کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں گھوم رہے تھے اور جب ہم نے واپسی پر میر جاوہ اور تفتان کے درمیان آہنی پھاٹک سے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ہم دونوں کم از کم مطمئن تھے کہ ایک حد تک ہم ان سوالات کے جوابات حاصل کر چکے تھے۔ ایران میں قیام کے دوران ہماری سرگرمیوں کی تفصیلات کچھ اس طرح رہی ہیں:

ایران میں ہماری سرگرمیاں

تہران میں یونیورسٹی کے وسیع گراؤنڈ میں ادا کی جانے والی نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت کی۔ یہ اجتماع تہران میں جمعۃ المبارک کا واحد اجتماع ہوتا ہے جس میں کم و بیش پانچ چھ لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں اور صدر ایران جناب علی خامنہ ای، یا اسپیکر قومی اسمبلی جناب ہاشمی رفسنجانی، یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خطبۂ جمعہ اور امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس روز ہم نے اس عظیم اجتماع میں شرکت کی اس روز چیف جسٹس جناب آیت اللہ عبد الکریم اردبیلی نے خطبہ دیا، ان کے پہلے خطبہ کا موضوع اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں ماں باپ کی ذمہ داری تھا جبکہ دوسرے خطبہ میں انہوں نے ایران کے قومی مسائل مثلاً عراق ایران جنگ، کویت کی اسلامی کانفرنس اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی۔ گویا یہ اجتماع ایک طرح سے قومی مسائل پر عوام کو اعتماد میں لینے کا اجتماع تھا جو ہر جمعہ کو منعقد ہوتا ہے اور اسے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پورے ایران میں نشر کیا جاتا ہے۔

ایران کی اعلی ترین کونسل ’’شورٰی نگہبان‘‘ کے فقیہ جناب آیت اللہ جنتی سے ہماری اجتماعی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے انقلاب ایران کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ باقی مسلم ممالک میں بھی دینی انقلاب کی جدوجہد ہونی چاہیے۔ اس مجلس میں ہماری طرف سے ان مشکلات کا ذکر کیا گیا جو پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہ میں حائل ہیں، بالخصوص انہیں توجہ دلائی گئی کہ پاکستان میں شیعہ فقہ کے مستقل نفاذ کا مطالبہ نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

جناب آیت اللہ جنتی نے بتایا کہ ایران میں شیعہ اکثریت کی بنا پر پبلک لاء میں صرف انہی کی فقہ نافذ ہے جبکہ اہل سنت اور دوسرے مذاہب کو پرسنل لاء میں ان کے مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہماری طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے بطور پبلک لاء نفاذ کے مطالبہ کے ساتھ ایران انقلاب کی نمائندگی کا تاثر بھی دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انقلاب ایران کے بارے میں عوامی تاثر مجروح ہو رہا ہے اور ان لوگوں کی توقعات مایوسی میں بدل رہی ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ ایران میں مذہبی انقلاب کی کامیابی کے بعد پاکستان کی دینی قوتوں کو اس سے تقویت حاصل ہوگی اور ان کے لیے منزل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔

جناب آیت اللہ جنتی سے اس امر کا ذکر کیا گیا کہ شیعہ سنی فسادات کے سلسلہ میں بھی بعض مواقع پر ایران کا حوالہ سامنے آتا ہے جس سے عمومی تاثر انقلاب ایران کے خلاف بن جاتا ہے اس لیے مناسب ہوگا کہ یہاں سے ایک وفد پاکستان جائے اور صورتحال کا خود جائزہ لے کر ان شکایات کے ازالہ کی کوشش کرے۔ جناب آیت اللہ جنتی نے اس سلسلہ میں ضروری غور و خوض اور اقدامات کا وعدہ کیا۔ جناب آیت اللہ جنتی کو ’’شریعت بل‘‘ کے مختلف پہلوؤں اور تازہ صورتحال سے بھی آگاہ کیا گیا۔

شورٰی نگہبان کے ایک اور ممبر جناب آیت اللہ خزعلی کے ساتھ ایک مستقل نشست قرآن کریم کے سلسلہ میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں ایک نوجوان ایرانی قاری نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور عمدہ تلاوت کی۔ پھر جناب آیت اللہ خزعلی نے قرآن کریم کے بارے میں ایران کی انقلابی حکومت کے اقدامات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ان کی نگرانی میں ایک مستقل سرکاری ادارہ قرآن کریم کی اشاعت میں مصروف ہے۔ انہوں نے اس خبر کو افسوسناک قرار دیا کہ پاکستان میں ایران کے مطبوعہ قرآن کریم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ہماری طرف سے وضاحت کی گئی کہ ایران کے کسی ایک مطبع کے چھاپے ہوئے قرآن کریم کو اس میں واضح غلطیوں کے باعث ضبط کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جناب آیت اللہ خزعلی نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہیں، یہ بات غلط ہے، ماضی میں کچھ حضرات نے ایسا لکھا ہے مگر ہم اسے نہیں مانتے اور اسی قرآن کریم پر ہمارا ایمان ہے جو آج موجود ہے اور اس میں کسی حرف کی کمی یا زیادتی کو ہم نہیں مانتے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی نے اس موقع پر کہا کہ شیعہ اکابر کی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں جن میں موجودہ قرآن کریم کو اصلی ماننے سے انکار کیا گیا ہے، اس کے جواب میں جناب آیت اللہ خزعلی نے کہا کہ یہ ضعیف روایات ہیں ہم انہیں معتبر تسلیم نہیں کرتے، جس طرح اہل سنت کے بعض حضرات کی کتابوں میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جنہیں اہل سنت تسلیم نہیں کرتے۔ مولانا چنیوٹی نے کہا کہ اہل سنت کے ہاں تو ایسی چند ایک روایتیں ہیں لیکن آپ کے ہاں ہزاروں روایات ہیں۔ خزعلی صاحب نے جواب دیا کہ ضعیف روایت ایک ہو یا ایک ہزار ہو بہرحال ضعیف ہیں ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ مولانا چنیوٹی نے کہا کہ اس کی وضاحت تو ہوگئی لیکن ایک بات کی وضاحت باقی ہے، وہ یہ کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہے وہ مسلمان نہیں ہے، کیا آپ بھی اس فتوٰی کی تائید کرتے ہیں؟ جناب آیت اللہ خزعلی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا اور بات کا رخ دوسری طرف مڑ گیا۔

بہرحال اس گفتگو سے قطع نظر ہم نے یہ محسوس کیا کہ ایرانی انقلاب کے راہنماؤں کا رخ قرآن کریم کی اشاعت کی طرف خاصا واضح ہے، ان کی تقاریر و بیانات میں جابجا قرآن کریم کی آیات سے استدلال ہوتا ہے، ریڈیو پر وقتاً فوقتاً قرآن کریم کی تلاوت اور درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور دیواروں پر مختلف مسائل کے حوالہ سے قرآن کریم کی آیات کے جملے جگہ جگہ نمایاں طور پر تحریر دکھائی دیتے ہیں۔

ہمیں ایران کے معروف آرٹسٹ حسین صادق کے فن پاروں کی ایک نمائش دکھائی گئی جس میں زندگی کے مختلف حقائق کو انقلابی افکار کے حوالہ سے پیش کیا گیا ہے اور اس نامور فنکار نے انسانی زندگی کے تضادات کو بڑے خوبصورت انداز میں اجاگر کیا ہے۔ بالخصوص ’’ناصر خان‘‘ کے عنوان سے ایک فن پارہ کو بہت پسند کیا گیا جس میں ایک روایتی جاگیردار کے مظالم اور کمزور طبقوں کی مظلومیت اور بے بسی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

تہران میں چھ روزہ قیام کے دوران ہمیں ایک دن قم لے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ قم ایران کا دینی و علمی مرکز ہے اور جناب آیت اللہ خمینی کا مدرسہ فیضیہ بھی قم میں ہے جو انقلاب ایران کا فکری مرکز ہے۔ ہمارے ساتھ سازمان تبلیغات اسلامی کی طرف سے سرینگر سے تعلق رکھنے والے جناب مقصود علی رضوی اور لکھنو کے جناب خادم حسین بطور رہبر اور ترجمان ہمسفر تھے، ان کی زبانی جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں ان کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ:

  • قم کے مختلف مدارس میں اس وقت اٹھارہ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان میں ایک ہزار طلبہ پاکستانی ہیں، بعض پاکستانی طلبہ سے ہماری ملاقات بھی ہوئی۔
  • ان مدارس میں اثنا عشری جعفری فقہ کے مطابق مکمل مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہر طالب علم کے لیے عربی اس معیار کی لازمی ہے کہ وہ لکھ سکے اور گفتگو اور تقریر کر سکے، اس کے علاوہ انگریزی یا فرانسیسی زبانوں میں سے بھی ایک زبان اسی معیار پر لازمی ہے۔
  • ان مدارس میں اسلامی نظام حیات کے مختلف شعبے بطور نصاب پڑھائے جاتے ہیں، مدرسہ فیضیہ کے ایک کلاس روم میں داخل ہوئے تو کم و بیش تین سو طلبہ کلاس میں تھے اور آیت اللہ قفقازی اسلامی حکومت کے معاشرتی فرائض پر لیکچر دے رہے تھے اور طلبہ کو املاء کرا رہے تھے۔ دس پندرہ منٹ ہم بھی لیکچر میں شریک ہوئے، بے حد معلوماتی لیکچر تھا۔
  • ہمیں بتایا گیا کہ یہ مدارس مکمل طور پر آزاد ہیں، نہ حکومت سے کچھ وصول کرتے ہیں اور نہ نظام میں حکومت کا کوئی دخل ہے۔ ان مدارس کے اخراجات خمس کی اس رقم سے پورے ہوتے ہیں جو اہل تشیع اپنے اماموں کو ادا کرتے ہیں۔
  • ہمیں بتایا گیا کہ وہ مجتہد جن کی اس وقت تمام دنیا کے اثنا عشری شیعہ تقلید کرتے ہیں وہ چار ہیں: (۱) جناب آیت اللہ خوئی، نجف اشرف (۲) جناب آیت اللہ خمینی، تہران (۳) جناب آیت اللہ گلیایگانی، ،قم۔ چوتھے بزرگ کا نام مجھے یاد نہیں رہا، شیعہ حضرات ان اماموں کو اپنا خمس ادا کرتے ہیں اور خمس کی اس رقم سے یہ مدارس چلتے ہیں۔

قم کے سفر میں ہی جناب آیت اللہ منتظری سے وفد کی ملاقات ہوئی۔ جناب منتظری کو آیت اللہ العظمی کہا جاتا ہے اور وہ جناب آیت اللہ خمینی کے قائم مقام ہیں۔ ملاقات اور گفتگو سے اندازہ ہوا کہ بے حد متین اور مرنجاں مرنج قسم کی علمی شخصیت کے مالک ہیں بلکہ بعض سنی راہنماؤں نے کھلم کھلا اظہار کیا کہ ایرانی انقلاب کے راہنماؤں سے جناب آیت اللہ منتظری اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان رواداری اور تعلقات کے حوالہ سے سب سے زیادہ موزوں اور بردبار شخصیت ہیں۔ بہرحال ان سے ملاقات ہوئی اور مختصر گفتگو بھی ہوئی، انہوں نے معاشرہ میں علماء کے فرائض، استعماری سازشوں سے واقفیت حاصل کرنے، مظلوم طبقوں کی حمایت کرنے، اور اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان زیادہ سے زیادہ رواداری پر زور دیا۔ انہی دنوں یہ خبر اخبارات میں آرہی تھی کہ ترکی میں لڑکیوں کے کالجوں میں باپردہ داخل ہونے پر قانوناً پابندی لگا دی گئی ہے، جناب آیت اللہ منتظری نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں غیر اسلامی اقتدار کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کریں۔

ہماری طرف سے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا گیا اور وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے راقم الحروف نے انقلاب ایران کے بارے میں وفد کے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ ہمارے وفد کے ایک محترم رکن جناب ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے انقلاب ایران اور پاکستان کے دینی حلقوں کے درمیان روابط کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو کرنی چاہی مگر وقت کی کمی کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔

قم میں ہی سیدہ فاطمہؒ کے مزار پر بھی حاضری اور دعا کی سعادت حاصل ہوئی، یہ امام علی رضاؒ کی بہن ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ اپنے بھائی امام علی رضاؒ سے ملاقات کے لیے مشہد جا رہی تھیں، راستہ میں قم سے گزر ہوا تو خبر ملی کہ امام علی رضاؒ کا انتقال ہوگیا ہے، غم سے بیمار ہوگئیں اور یہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا مزار اہل ایران کی عقیدتوں کا مرکز ہے اور مزار سے ملحق مسجد میں قم کے مدارس کے طلبہ اپنے اسباق کے تکرار میں مصروف رہتے ہیں۔

تہران میں امام جعفر صادقؒ کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ یونیورسٹی کی عمارت جدید معیار کی اعلٰی عمارت ہے اور اس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ہمارے وفد نے یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ان کے میس میں دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر طلبہ کی طرف سے وفد کے اعزاز میں ایک مختصر استقبالیہ دیا گیا جس میں ایک طالب علم نے شستہ عربی میں اور دوسرے طالب علم نے انگریزی میں خیرمقدمی تقریر کی۔ جواب میں مولانا منظور احمد چنیوٹی نے عربی میں اور جناب محمد احسن خاکوانی ایڈووکیٹ نے انگریزی میں تقریر کی۔

تہران میں ایران کی ’’شوریٔ ملی‘‘ یعنی قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا۔ قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، اسپیکر جناب ہاشمی رفسنجانی خود اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، ایرانی قومی اسمبلی کی کارروائی ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہوتی ہے، سوائے کارروائی کے اس حصہ کے جسے خود ایوان خفیہ قرار دے دے۔ وفد نے کم و بیش ایک گھنٹہ تک اجلاس کی کاروائی کا مشاہدہ کیا، مولانا منظور احمد چنیوٹی اپنے پارلیمانی تجربات کے حوالہ سے گہری دلچسپی لے رہے تھے اور انہوں نے بہت سی ایسی باتیں نوٹ کیں جو ہمارے ہاں کے پارلیمانی طریق کار سے مختلف ہیں۔ قومی اسمبلی کی گیلری میں ہر رکن کی تصویر اور ضروری کوائف آویزاں تھے جن میں اس کی تعلیم، حلقہ انتخاب، حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اور دوسری باتیں درج ہیں۔

اس موقع پر ایک کمیٹی روم میں قومی اسمبلی کے سنی ارکان کے ساتھ ہماری خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایران کی قومی اسمبلی میں سنی ارکان کی تعداد چودہ ہے جو بلوچستان، کردستان اور ترکمان صحرا کے علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس وقت آٹھ سنی ارکان موجود تھے جو ہمارے ساتھ اس نشست میں شریک ہوئے، ان کی ترجمانی بلوچستان سے دو منتخب ارکان اسمبلی مولانا محمد اسحاق مدنی اور مولانا محمد حامد کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ:

  • سنی ارکان کے لیے ایوان میں الگ نشستیں مخصوص نہیں ہیں بلکہ وہ بھی دوسرے ارکان کی طرح عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور اس وقت دو سو ستر کے ایوان میں چودہ سنی ارکان ہیں۔
  • ایوان میں عورتوں کے لیے بھی الگ نشستیں مخصوص نہیں ہیں بلکہ انہیں بھی عام انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور اس وقت چند خواتین عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان میں موجود ہیں۔
  • البتہ غیر مسلم اقلیتوں کے لیے پانچ نشستیں مخصوص ہیں جن میں سے تین نشستیں عیسائیوں کی، ایک یہودیوں کی اور ایک پارسیوں کی نشست ہے۔
  • ایران میں وحدانی طرز حکومت ہے، صوبوں میں گورنر ہیں لیکن الگ اسمبلیاں اور صوبائی وزراء نہیں ہیں۔
  • ملک میں ایک ہی پبلک لاء نافذ ہے جو اثنا عشری جعفری فقہ کے مطابق ہے، البتہ اہل سنت کو پرسنل لاء میں اپنی فقہ کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ فیصلے ان کے اپنے قاضی کرتے ہیں۔

اس موقع پر کردستان سے ایرانی پارلیمنٹ کے بزرگ سنی رکن جناب حسینی نے ہم سے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں بھی قرآن و سنت کے قوانین نافذ ہیں؟ ہمارا جواب یہ تھا کہ مکمل طور پر نہیں ہیں اور ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر حسینی صاحب نے کہا کہ ہماری طرف سے پاکستانی علماء اور عوام کو یہ پیغام دے دیں کہ وہ اپنے ملک میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد تیز کر دیں اور اس کے لیے سب مل کر محنت کریں۔

تہران، قم، مشہد اور زاھدان میں گیارہ روزہ قیام کے دوران ہمیں ان شہروں میں عراق ایران جنگ کے براہ راست اثرات نظر نہیں آئے، البتہ ایرانی راہنماؤں کی تقاریر اور اخبارات کی خبروں میں اس کا تذکرہ کثرت سے موجود تھا۔ جنگ کے معاشرتی اثرات روز مرہ اشیا کے نرخوں میں کسی حد تک محسوس ہو رہے تھے۔ ہمارے وفد کو دماونڈ ہوٹل میں، جہاں ہمارا قیام تھا، جنگ کے بارے میں دو فلمیں دکھائی گئیں۔ ایک فلم میں یہ دکھایا گیا کہ عراقی فوجوں نے ایرانی علاقے خالی کرتے ہوئے راستہ میں بارودی سرنگیں بچھا دیں جنہیں ایرانی فوج کے گزرنے سے پہلے صاف کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ ایرانی رضاکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر مقررہ وقت کے اندر ان بارودی سرنگوں کو صاف کر دیا۔ دوسری فلم ایک بچے کے بارے میں تھی جسے کمانڈر محاذ جنگ پر لے جانے کے لیے تیار نہیں تھا، اس نے فوجیوں کو پانی پلانے کے بہانے محاذ جنگ پر جانے کی اجازت حاصل کی اور دوران جنگ پانی پلاتے ہوئے زخمی ہوگیا، پھر ہسپتال میں اس نے پیاس کی شدت کے باعث دم توڑ دیا۔

اس کے علاوہ جنوبی تہران میں حضرت ابوذر غفاریؓ کے نام سے موسوم ایک مسجد میں عام جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس میں عراق ایران جنگ میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء زیادہ تعداد میں شریک ہیں۔ جلسہ کے شرکاء بالخصوص نوجوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اگر سارے ملک کے نوجوانوں کے جذبات ایسے ہی ہیں تو ان کو شکست دینا بہت ہی مشکل ہے۔ اسی جلسہ میں وفد کی طرف سے مجھے خطاب کرنے کا موقع ملا اور میں نے ایرانی انقلاب کے مذہبی پہلوؤں پر اپنے احساسات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔

تہران میں ہمیں سابق شاہی خاندان کے وہ محلات دکھائے گئے جہاں پہلوی خاندان کے شاہ اور شاہزادے رہائش پذیر تھے۔ شاہ ایران اور اس کی والدہ کا جس محل میں قیام تھا وہ دونوں محل دیکھے، اور ولی عہد شہزادہ علی رضا کے لیے جو محل تیار ہو رہا تھا وہ بھی دیکھا۔ یہ محلات جو کبھی شاہی جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ کا نشان تھے، اب عبرت کا عنوان بن چکے تھے۔ انقلابی لیڈروں نے ان محلات کو میوزیم کی شکل دے دی ہے اور عبرت دلانے کے لیے قرآنی آیات کے کتبے ان میں جا بجا آویزاں کر دیے ہیں۔

تہران میں شورٰی نگہبان کے چار قانون دان ارکان (۱) جناب علی زادہ (۲) جناب پیژنی (۳) جناب مہرپور (۴) اور جناب افتخار صاحب کے ساتھ ہمارے وفد کے ارکان (۱) مولانا چنیوٹی (۲) راجہ رب نواز ایڈووکیٹ (۳) مفتی دائم الدین (۴) محمد احسن خاکوانی ایڈووکیٹ (۵) اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ (۶) اور راقم الحروف کی ایک ملاقات ہوئی جس میں ایران میں عوام کو حاصل بنیادی حقوق کے تحفظ و ضمانت میں عدالتوں کے کردار، اور قانونی نظام میں انقلاب کے بعد کی اصلاحات پر تفصیلی تبادلہ خیالات ہوا۔

تہران میں چھ روزہ قیام کے بعد ہم بذریعہ ریل گاڑی مشہد روانہ ہوئے۔ ریل شام چار بجے تہران سے روانہ ہوئی اور صبح آٹھ بجے کے قریب مشہد پہنچی جبکہ فجر کی نماز ہم نے راستہ میں امام مسلمؒ کے شہر نیشاپور کے ریلوے اسٹیشن پر ادا کی۔ مشہد میں ہمارا قیام دوسرے دن دو بجے تک رہا۔ اسی دوران امام رضا رحمہ اللہ تعالٰی کے مزار پر دعا کے لیے حاضری دی۔ امام رضاؒ کے نام پر نئی تعمیر شدہ یونیورسٹی دیکھی جو واقعتاً قابل دید ہے۔ یونیورسٹی کے میس میں طلبہ کے ساتھ کھانا کھایا اور شہر میں وفد کے ارکان نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق شاپنگ کی۔

مشہد میں جمعہ کا اجتماع بھی دیکھا جو خاصا بڑا اجتماع تھا، آیت اللہ شیرازی نے خطبہ جمعہ دیا۔ پہلے خطبہ کا موضوع ازدواجی مسائل تھے اور دوسرے خطبہ میں انہوں نے قومی مسائل کا ذکر کیا۔ جناب آیت اللہ خمینی کے نمائندہ جناب آیت اللہ طبسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی اور باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر باہمی گفتگو ہوئی۔

تہران میں قیام کے دوران معلوم ہوا کہ ایرانی بلوچستان کے بزرگ سنی عالم دین مولانا عبد العزیز بیمار ہیں اور تہران میں مولانا محمد اسحاق مدنی (ممبر پارلیمنٹ) کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ مولانا عبد العزیز ایران میں اہل سنت کے سب سے بزرگ عالم دین ہیں۔ انقلاب ایران کے راہنماؤں میں شامل رہے ہیں، انقلاب کے بعد ایران کی دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے ہیں، پھر قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں، آج کل مولانا محمد اسحاق مدنی انہی کی سیٹ پر قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ مولانا موصوف سے ہماری ملاقات ہوئی تو انہیں ایران کے انقلابی راہنماؤں کے رویہ کے بارے میں بے حد شاکی پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں رویہ درست رہا اور اہل سنت کے ساتھ معاملات میں رواداری رہی لیکن انقلاب کے استحکام کے ساتھ ساتھ رویہ میں بھی تبدیلی آتی گئی حتٰی کہ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ابتدا میں صلاح مشورہ کے لیے انہیں زاھدان سے خصوصی طیارہ کے ذریعے تہران لایا جاتا تھا لیکن اب وہ خود تہران میں آ کر دس دس دن بیٹھے رہتے ہیں کسی ذمہ داری سے ملاقات نہیں ہوتی، اور اگر ملاقات ہو جاتی ہے تو جو گفتگو ہوتی ہے اس کا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا، شکایات بڑھتی جا رہی ہیں اور اعتماد کی فضا بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ مولانا عبد العزیز کے لہجہ کی تلخی سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ معاملات سنگینی کی حدود کو چھو رہے ہیں اور اگر ان کو سنبھالا دینے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو یہ سنگینی کسی نئی الجھن اور بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

زاھدان میں ہمارا وفد مرکزی جامع مسجد میں گیا جو مکی مسجد کے نام سے معروف ہے۔ عشاء کی نماز ہم نے وہاں ادا کی اور نمازیوں سے ملاقات کی۔ اس مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز ہیں جن کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے اور اب مولانا موصوف کی علالت کی وجہ سے ان کے داماد مولانا عبد الحمید ان کی جگہ فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

جامع مسجد کے قریب دارالعلوم زاھدان میں اساتذہ اور طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس مدرسہ کے منتظم مولانا نذیر احمد ہیں جو دارالعلوم کراچی کے فارغ التحصیل ہیں، ان کے معاون مولانا محمد قاسم بھی دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں۔ زاھدان سے کم و بیش ڈیڑھ سو کلو میٹر دور سراوان میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے شاگرد مولانا محمد یوسف نے ایک بڑا دینی مدرسہ قائم کر رکھا ہے جہاں دورۂ حدیث بھی ہوتا ہے۔ مولانا محمد یوسف زاھدان آئے ہوئے تھے، ان سے ملاقات ہوئی اور مختلف مسائل پر گفتگو بھی ہوئی۔

پاکستانی وفد کی واپسی سے ایک روز قبل زاھدان کے گورنر سے وفد کی ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر وفد کے ارکان نے ایرانی بلوچستان کے گورنر سے تبادلہ خیالات کیا۔

وفد کی سرگرمیوں کی مختصر رپورٹ کے بعد اب میں ان امور کی طرف آتا ہوں جن کا ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ ایران جانے سے ہماری غرض کیا تھی اور وہ کون سے امور تھے جن کا جائزہ لینا ہمارا مقصد تھا۔

انقلاب کی فکری بنیاد

پہلی بات یہ تھی کہ کیا یہ انقلاب صرف شاہی خاندان کے خلاف عوامی نفرت کا وقتی نتیجہ تھا یا انقلاب کی کوئی فکری بنیاد بھی موجود تھی؟ ہم نے اس نقطہ نظر سے جو مشاہدہ کیا ہے اس سے واضح طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس انقلاب کے لیے ایک عرصہ سے فکری کام ہو رہا تھا اور انقلاب کے راہنماؤں نے صرف فکری بنیادوں پر انقلاب کی جدوجہد کو استوار کیا ہے بلکہ اس کے لیے رجال کار کی مطلوبہ کھیپ مہیا کرنے کی طرف بھی ضروری توجہ دی ہے۔ ایران کے مذہبی راہنماؤں نے لادینی نظریات بالخصوص سیکولرازم کے خلاف مسلسل فکری جنگ لڑی ہے اور مغربی تہذیب و ثقافت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے اپنے عوام کو منطق اور استدلال کے ساتھ یہ باور کرایا ہے کہ مادر پدر آزاد جمہوریت، سیکولرازم، سوشلزم اور مغربی تہذیب ان کے عقائد و نظریات اور دینی مزاج سے متصادم ہے اور انہیں اپنے مذہب کی بالادستی کے لیے ان تمام چیزوں سے دستبرداری اختیار کرنا ہوگی۔

قوم میں یہ شعور بیدار کرنے کے بعد انقلاب ایران کے فکری راہنماؤں نے اہل فکر و دانش کو اپنی فکری جدوجہد کا ہدف بنایا ہے، بالخصوص دو راہنماؤں جناب آیت اللہ باقر صدر اور آیت اللہ مرتضٰی مطہری نے انسانی زندگی کے اجتماعی مسائل پر جس طرح قلم اٹھایا ہے اور دلیل و منطق کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر جدید نظریات و افکار کے تاروپود کو بکھیرا ہے اس سے ایران کا دانشور طبقہ بھی انقلاب کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ اور بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی انقلاب کی پشت پر ایک مسلسل اور شعوری فکری جدوجہد کی قوت موجود ہے۔ اگر شیعہ سنی اختلافات کے حوالہ سے نہ دیکھا جائے تو میرے نزدیک آیت اللہ باقر صدر اور آیت اللہ مرتضٰی مطہری کی فکری کاوشوں اور جدید نظریات و تہذیب کے خلاف ان کی نظریاتی جدوجہد سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوسری بات یہ تھی کہ کیا ایران کے مذہبی حلقے اس انقلاب کے تحفظ و استحکام کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی ایران میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے مذہب کے ساتھ شعوری اور جذباتی وابستگی کے ساتھ ساتھ نظام مملکت کے اصولوں اور طریقوں سے واقف ہیں اور قم کے مدارس کے علاوہ امام جعفر صادقؒ یونیورسٹی، امام رضا یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیاں انقلاب کی نظریاتی ضرورت کے مطابق نئی نسل کو تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔

تیسرا سوال ہمارے ذہنوں میں یہ تھا کہ کیا انقلاب نے معاشرہ میں کوئی عملی تبدیلی پیدا کی ہے یا یہ محض لیبل ہے؟ اس سوال کی اہمیت ہمارے نزدیک خود ہمارے ہاں گزشتہ نو سال سے دکھائے جانے والے اسلامائزیشن کے شو کے پیش نظر زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس لیے ہماری کوشش یہ رہی کہ اس سوال کے جواب کے لیے ہم ایرانی معاشرہ کے زیادہ قریب ہونے کی صورت اختیار کریں۔ چنانچہ اس کوشش کے نتیجہ میں جن تبدیلیوں کو ہم دیکھ سکے ہیں ان کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے:

  • آزاد خیالی اور سیکولرازم کے فتنے ایران کے مذہبی حلقوں کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں، اور اگر پاکستان کے دینی حلقے مجھے اس گستاخی پر معاف کریں تو اس امر کی نشاندہی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ایران کے مذہبی حلقوں نے سیکولر حلقوں کے خلاف یہ کامیابی فتوؤں اور طعن و تشنیع کا بازار گرم کر کے نہیں بلکہ منطق و استدلال سے ان کی فکر کو شکست دے کر حاصل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں اس کامیابی کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے جبر کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ عوام کی براہ راست نمائندگی پر اعتماد کرتے ہوئے منتخب اداروں کے ذریعے حکومت کر رہے ہیں۔
  • نئی نسل کے رجحانات کو کافی حد تک مذہب کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ہمیں وہاں مذہب، انقلاب اور مذہبی اقدار کی باتیں کرنے والوں میں بوڑھوں کی بہ نسبت نوجوانوں کا تناسب زیادہ نظر آیا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ایران کی مذہبی قیادت نئی نسل کو اپنی ڈھب پر لانے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے اور یہ بات انقلاب ایران کے استحکام اور محفوظ مستقبل کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
  • یہ بھی انقلاب ایران کا کرشمہ ہے کہ ایشیا کا پیرس کہلانے والے تہران میں آج کسی خاتون کے بے حجاب چلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی عورت روایتی آرائش و زیبائش سے بیگانہ ایک سادہ سی سیاہ چادر میں ملبوس ایران کے بازاروں میں دکھائی دیتی ہے، حتٰی کہ ابتدائی سکول میں جانے والی پانچ چھ سال کی عمر کی بچیاں بھی اسی حجاب میں مستور بستے اٹھائے سکولوں کی طرف جاتی نظر آتی ہیں۔ تہران کے بعض عام شہریوں کے مطابق اس شہر میں انقلاب سے پہلے عریانی، بدکاری اور شراب خوری کے اڈے عام تھے مگر اب یہ اڈے ختم ہو چکے ہیں۔ بازاروں، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں میں پردے کی اہمیت کے بینر اور کتبے آویزاں ہیں۔ تہران ایئرپورٹ پر شہداء کے پیام کے حوالہ سے یہ کتبہ لکھا تھا کہ ’’خواہرم! سیاہی حجاب تو کو بندہ تر از سرخیٔ خونِ من است‘‘ کہ میری بہن! تیرے پردہ کی سیاہی میرے خون کی سرخی سے زیادہ مقدس ہے۔ مشہد میں امام رضاؒ کے مزار کے باہر ایک بڑا کتبہ لکھا ہوا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’مزار کی زیارت مستحب ہے مگر پردہ کی رعایت واجب ہے۔‘‘
  • الغرض اس ثقافتی انقلاب کے ذریعے انقلاب ایران کے لیڈروں نے ایرانی معاشرہ کو مغربی تہذیب کے غلبہ اور یورپی ثقافت کی بالادستی سے نجات دلانے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور نہ صرف ایرانی عورت کو ایک باوقار حجاب سے بہرہ ور کر دیا ہے بلکہ عورت کو تجارتی نمائش کا عنوان بننے سے بھی نجات دلا دی ہے۔ چنانچہ ہم نے وہاں اخبارات کے ایڈیشنوں کو عورت کے جسم اور حسن کی نمائش سے عاری پایا ہے اور جنرل اسٹوروں میں پاؤڈر اور کریم کے ڈبے بیچنے کے لیے عورت کی مسکراہٹ کو سفارشی کا روپ دھارے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا بخل اور نا انصافی ہوگا۔
  • ہمیں ایران کے بینکوں میں جا کر ان کے نئے بینکاری کے نظام کو دیکھنے اور عدالتوں میں جا کر عدالتی نظام میں انقلاب کے بعد کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملا مگر مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق ایرانی بینکوں سے سود کا نظام ختم کیا جا چکا ہے اور ’’مضاربت‘‘ اور ’’قرض حسنہ‘‘ کی بنیادوں پر بینکاری کا نیا نظام کام کر رہا ہے۔ اسی طرح عدالتوں میں اہل ایران کے مذہبی معتقدات کے مطابق شرعی حدود کا نہ صرف نفاذ ہو چکا ہے بلکہ ان پر کامیابی سے عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔

چوتھی بات جو ہم معلوم کرنا چاہتے تھے، یہ تھی کہ ایرانی انقلاب کے لیڈروں نے فرقہ وارانہ مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی، بالخصوص عدالتوں میں مذہبی قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں فقہی بنیادوں کے تعین کے مسئلہ پر انہوں نے کیا اصول طے کیا ہے؟ کیونکہ پاکستان میں ہمارے لیے یہ مسئلہ خاصی الجھن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری گفتگو قومی اسمبلی کے سنی ارکان کے علاوہ شورٰی نگہبان کے چھ ارکان بالخصوص جناب آیت اللہ جنتی سے ہوئی اور ایران کے دستور کا مطالعہ کیا۔ ان راہنماؤں نے بھی ہمیں ایران کے دستور کی طرف توجہ دلائی کہ اس میں یہ مسئلہ طے کر دیا گیا ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ:

دستور کی دفعہ ۱۲ میں کہا گیا ہے کہ ’’ایران کا سرکاری دین اسلام اور مذہب اثنا عشری جعفری ہے اور دستور کی یہ دفعہ ہمیشہ کے لیے ناقابل تبدیل ہے۔ دیگر اسلامی مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی کا مکمل احترام ہوگا، ان کے پیروکار اپنی مذہبی رسومات اپنی فقہ کے مطابق انجام دینے میں آزاد ہوں گے۔ دینی تعلیم اور شخصی قوانین (نکاح، طلاق، وراثت، وصیت) میں ان کے فیصلے ان کی فقہ کے مطابق ہوں گے۔ جس علاقہ میں ان میں سے کسی مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہوگی وہاں کے مقامی قوانین، شورٰی کے اختیارات کے دائرہ میں رہتے ہوئے وہ اپنے مذہب کے مطابق بنا سکیں گے بشرطیکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق محفوظ رہیں۔‘‘

گویا ایران میں وہاں کی آبادی کی اکثریت کی فقہ کو نہ صرف دستوری تحفظ دیا گیا ہے بلکہ دوسری فقہوں کے پیروکاروں کو پرسنل لاء، مذہبی رسومات اور مقامی قوانین میں ان کی فقہوں کے مطابق عملدرآمد کی آزادی دے کر پبلک لاء میں صرف اکثریتی فقہ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ حتٰی کہ ایران کے دستور کی دفعہ ۱۱۵ کے مطابق ایران کے صدر کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ:

’’ایران کی مذہبی اور سیاسی شخصیات میں سے ہو، ایرانی الاصل ہو، ایرانی قومیت رکھتا ہو، منتظم اور مدبر ہو، امانت و تقوٰی سے بہرہ ور ہو، اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادوں پر یقین رکھتا ہو، اور رسمی مذہب (جعفری اثنا عشری) کا پیروکار ہو۔‘‘

اسی طرح ہمیں بتایا گیا کہ اگرچہ قومی اسمبلی میں ہر فقہی مذہب کے پیروکار منتخب ہو کر ممبر بن سکتے ہیں لیکن قومی اسمبلی کے اوپر بارہ افراد کی جو شورٰی نگہبان (نگران کونسل) ہے اور جو قومی اسمبلی کے فیصلوں پر نظرثانی کر کے ان کی توثیق یا رد کرنے کی مجاز ہے، اس کی رکنیت کے لیے اثنا عشری جعفری ہونا شرط ہے۔ کسی دوسری فقہ کا پیروکار اس کونسل کا رکن نہیں بن سکتا اور نہ ہی موجودہ بارہ ارکان میں اس وقت کوئی ہے۔

چنانچہ ان معلومات کے حصول کے بعد جب ہم نے ایرانی راہنماؤں کو اس طرف توجہ دلائی کہ پاکستان میں غالب سنی اکثریت ہوتے ہوئے بھی فقہ جعفری کو بطور پبلک لاء نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے حتٰی کہ یہ مطالبہ نفاذ اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، تو انہوں نے اس مطالبہ کو غلط قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کی سنی اکثریت کا یہ حق ہے کہ ملک کا پبلک لاء ان کی فقہ کے مطابق ہو اور دوسری فقہوں کے پیروکاروں کو پرسنل لاء میں آزادی دی جائے۔

پانچواں سوال جس کا جائزہ لینا ہمارے دورۂ ایران کے اہم مقاصد میں شامل تھا، یہ تھا ایران کے اہل سنت کے بارے میں صورتحال معلوم کرنا کہ وہ کس حال میں ہیں اور انقلاب ایران کے بعد اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں؟ ہم نے اس سلسلہ میں متعدد سنی راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے حتی الامکان کرید کرید کر سوالات کیے۔ ان میں ایسے راہنما بھی ہیں جنہوں نے حکومت ایران کے تمام اقدامات کی حمایت کی ہے، اور وہ راہنما بھی ہیں جن کی مخالفت میں شدت اور تلخی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ لیکن ایک بات پر سبھی متفق تھے کہ شاہ ایران کے دور سے مذہبی طور پر انقلاب کے بعد کا دور بہرحال بہتر ہے اور انقلاب سے ایرانی معاشرہ میں نظریاتی، دینی اور معاشرتی تبدیلیاں آئی ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اہل سنت کو درپیش مسائل و مشکلات اور ان کے حل کے سلسلہ میں ایرانی حکومت کی بے توجہی کی شکایت عام طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اور یہ بے توجہی اب ان حدود کو چھو رہی ہے کہ ہمیں اہل سنت کے مسائل سے آگاہ کرنے میں بھی اس لیے ہچکچاہٹ محسوس کی جا رہی تھی کہ شاید ہمارے وہاں سے آجانے کے بعد یہ بات ان کے لیے نقصان کا باعث نہ بن جائے۔

ایران میں اہل سنت کے مسائل

  • ایران کی مجموعی آبادی میں اہل سنت کے تناسب کا صحیح تعین ممکن نہیں ہے اس لیے کہ اب تک اس فرق کے ساتھ مردم شماری نہیں ہوئی لیکن ایک ذمہ دار سنی راہنما کے اندازے کے مطابق مجموعی آبادی میں اہل سنت کا تناسب پچیس فیصد ہو سکتا ہے۔ کردستان اور بلوچستان دو صوبے ایسے ہیں جہاں اہل سنت کی اکثریت ہے لیکن صوبائی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ اکثریت بے وزن ہو کر رہ گئی ہے۔ حتٰی کہ بلوچستان کے بعض راہنماؤں کو شکایت ہے کہ اس صوبہ میں اہل سنت ساٹھ فیصد سے زیادہ ہیں لیکن اعلٰی ملازمتوں میں کوئی سنی نظر نہیں آتا، سب کے سب اعلٰی افسران غیر سنی ہیں اور وہ بھی باہر سے بھیجے گئے ہیں۔ گویا وہاں کا مسئلہ نان سنی کے ساتھ نان لوکل کا بھی ہے جو ان کے اندر محرومی اور مایوسی کے احساس کو اجاگر کر رہا ہے۔ حتٰی کہ ایک راہنما نے انتہائی تلخ لہجے میں کہا کہ ہمارے ہاں تو اینٹیں بنانے والے بھی باہر سے آتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورتحال کردستان کی بھی بیان کی جاتی ہے۔
  • اہل سنت کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ انہیں اپنے حقوق کے لیے منظم ہونے کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ ایران کے دستور کی دفعہ ۲۶ کے مطابق انہیں تنظیم بنانے کا حق حاصل ہے لیکن کردستان کے ایک اہم سنی راہنما احمد مفتی زادہ مسلسل چار سال سے صرف اس لیے جیل میں ہیں کہ انہوں نے حقوق اہل سنت کے تحفظ کے لیے ایک تنظیم کا ڈھانچہ قائم کیا تھا۔ اسی طرح سراوان کے صوفی دوست محمد ایک سال سے جیل میں ہیں بلکہ اس وقت بیمار ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ علاوہ ازیں سرخس کے مولانا محی الدین ایک سال جیل میں رہے ہیں اور اب انہیں سات سال کے لیے جلاوطن کر دیا گیا ہے۔
  • اہل سنت کو یہ بھی شکایت ہے کہ ان کے مذہبی معتقدات کا احترام نہیں کیا جاتا۔ بعض ایرانی راہنما مشترک اجتماعات میں اہل سنت کے مذہب کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور ان کے اکابر کے بارے میں وہ کچھ کہتے ہیں جو ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ایک بزرگ سنی راہنما حسرت بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ بھئی ہم غلامی کی زندگی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے اکابر کی توہین کیسے سنیں، اس سے تو موت اچھی ہے۔ ایسے ہی ایک واقعہ کی نشاندہی کی گئی کہ شورٰی نگہبان کے ممبروں میں سے کسی صاحب نے ریڈیو تقریر کرتے ہوئے جنگ جمل کے حوالہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف لڑنے والوں کو ’’ائمۃ الکفر‘‘ قرار دیا حالانکہ ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جیسے اکابر شامل ہیں۔ اس پر بلوچستان سے ایرانی پارلیمنٹ کے سابق منتخب ممبر مولانا نظر محمد نے احتجاج کیا اور ایک پبلک تقریر میں اس کی مذمت کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ابھی تک وہ نہ صرف زیر حراست ہیں بلکہ حراست کے دوران انہیں ٹی وی پر معذرت کے لیے مجبور کرنے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔
  • اہل سنت کو یہ شکوہ ہے کہ ان کی اکثریت کے صوبوں میں نہ صرف یہ کہ اعلٰی ملازمتوں اور عہدوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ دوسرے صوبوں سے غیر سنی آبادی ان کے صوبوں میں بتدریج منتقل کر کے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایک سنی راہنما کا اس سلسلہ میں یہ کہنا تھا کہ اگر دس سال تک یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو ہماری نئی نسل بالکل جاہل رہ جائے گی اور بلوچستان اور کردستان میں ہماری اکثریت باقی نہیں رہے گی۔
  • اہل سنت کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے طلبہ کو یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملتا۔ دینی تعلیم کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق اعلٰی مدارس موجود نہیں ہیں اور پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم کے لیے انہیں جانے کی سہولت میسر نہیں ہے۔ انہیں پاسپورٹ نہیں دیا جاتا اور جو طلبہ چوری چھپے پاکستان کے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں واپسی پر انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے، حالانکہ اس کے برعکس صرف قم کے دینی مدارس میں پاکستان کے ایک ہزار کے قریب طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایران کے سنی طلباء دینی تعلیم کے لیے پاکستان کے مدارس میں آنا چاہتے ہیں لیکن بے بس ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ انہیں پاکستان کے دینی مدارس میں داخلہ ملنا چاہیے اور اسی طرح پاسپورٹ پر تعلیم کے لیے پاکستان جانے کا حق ہونا چاہیے جس طرح پاکستانی طلباء کو قم جانے کا حق حاصل ہے۔

الغرض اہل سنت اپنے حقوق و مفادات کے سلسلہ میں بے یقینی کا شکار ہیں اور ان کی یہ بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم نے اپنے میزبانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ ہمارے دورے کے اختتام سے قبل ہمارے تاثرات معلوم کرنے کے لیے ایک سوالنامہ ہمیں دیا گیا تھا جس کے جوابات سب نے اپنے اپنے تاثرات کے مطابق تحریر کیے۔ راقم الحروف نے اپنے جوابات میں ایران کی انقلابی قیادت کو اس مسئلہ کے حوالہ سے ان الفاظ کے ساتھ توجہ دلائی ہے کہ:

’’ایران شیعہ اکثریت کا ملک ہے اور اہل سنت یہاں بعض صوبوں میں اکثریت میں ہونے کے باوجود مجموعی طور پر اقلیت میں ہیں۔ فطری طور پر عالم اسلام میں سنی اکثریت کے ممالک ایرانی انقلاب کو یہاں کی سنی اقلیت کے رجحانات اور جذبات کے آئینہ میں دیکھیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ایران کی انقلابی حکومت کو یہاں کی سنی اقلیت کو مطمئن کرنا چاہیے اور ناراض عناصر کو عملی طور پر اعتماد میں لینا چاہیے، تاکہ وہ عالم اسلام میں انقلاب ایران سے سنی مسلمانوں کی دوری کا باعث بننے کی بجائے اس انقلاب کے مؤثر مبلغ بن سکیں۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter