اکابر علمائے کرام کا مشترکہ اعلامیہ

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۰۸ء

ملک کے تیس سرکردہ علمائے کرام نے، جن میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء شامل ہیں، اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ملک کی عمومی صورتحال کا جو تجزیہ پیش کیا ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی ایسی جگہ پر چلے جائیں جہاں عام لوگ مل بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا کرتے ہیں، آپ کو اسی قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی اور خیالات کی یکسانی اور ہم آہنگی کا یہ منظر آپ کو ہر جگہ اور ہر سطح پر نظر آئے گا۔ اس وقت جب کہ حکومت کے اعلان کے مطابق عام انتخابات میں صرف اڑھائی ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور بہت سی سیاسی پارٹیاں اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، وہ گہماگہمی اور عوامی دلچسپی کسی طرف دکھائی نہیں دیتی جو ہمارے ملک میں عام انتخابات کے موقع پر ہوا کرتی ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ عوام ان انتخابات سے کسی ایسی تبدیلی کے امکانات کی امید نہیں کر رہے جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے روز افزوں مسائل و مشکلات میں بہتری کی کوئی شکل نظر آتی ہو۔ اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ خود ان انتخابات کے بروقت انعقاد پر بھی بہت سے لوگوں کو یقین نہیں ہے اور بے یقینی اور تذبذب کی کچھ ایسی فضا پیدا ہو گئی ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار بھی اپنی الیکشن مہم میں اعتماد اور یقین کا عنصر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ اس وقت عمومی منظر یہ ہے کہ:

  1. ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے اور اس کی طرف پیشرفت کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔
  2. دوسری طرف اے پی ڈی ایم کے عنوان سے بعض سیاسی پارٹیاں الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے احتجاجی تحریک کو منظم کرنے کے لیے جگہ جگہ جلسے کر رہی ہیں۔
  3. تیسری طرف وکلاء کی بحالی دستور کی تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ روز ملک بھر میں وکلاء نے معزول چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے رفقاء معزول جج صاحبان کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کے اظہار کے لیے ’’یوم افتخار‘‘ منایا ہے جس کے تحت مختلف شہروں میں ریلیاں منعقد ہوئی ہیں، عدالتوں کا بائیکاٹ ہوا ہے اور احتجاجی جلسوں سے نامور وکلاء نے خطاب کیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا وہ خط بھی اس موقع پر سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے صدر پرویز مشرف کے حالیہ دورۂ یورپ کے دوران ان کی طرف سے جج صاحبان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے اور اس موقف کا دوٹوک اظہار کیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان کو معزول کرنے اور اس نوعیت کے دوسرے اقدامات ماورائے آئین اقدامات ہیں جن کا دستوری طور پر کوئی جواز نہیں ہے، اور صدر پرویز مشرف جو کچھ کر رہے ہیں اسے ایک آئینی صدر کے اقدامات کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
  4. چوتھی جانب پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل صاحبان نے بھی اس موقع پر سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے اب تک دو اجلاس ہو چکے ہیں جن میں صدر پرویز مشرف سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل صاحبان کی ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے دستبرداری کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کرے گی۔

مگر صدر پرویز مشرف اس سب کچھ کے باوجود بظاہر ابھی تک اپنے موقف اور پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور قوم کے مختلف طبقوں کی آواز پر توجہ دینے کی بجائے ان سے کمانڈو طرز پر نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں دینی حلقوں بالخصوص علمائے کرام کی جماعتوں کی اس طرح کی خاموشی کو سنجیدہ اور محب وطن حلقوں میں محسوس کیا جا رہا تھا کہ گروہی اور جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر ملک کی رائے عامہ اور اجتماعی صورتحال کے دائرے میں ان کی طرف سے کوئی واضح بات سامنے نہیں آرہی۔ جبکہ عوام کا ایک بڑا حصہ پہلے کی طرح اب بھی راہنمائی کے لیے جید علمائے کرام اور دینی جماعتوں کی طرف دیکھ رہا ہے اور ان سے اس سمت پیشرفت کی توقع رکھتا ہے۔

گزشتہ روز مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا اور بعض احباب سے اس سلسلے میں گفتگو ہوئی تو اس موقع پر بطور خاص اس بات کو محسوس کیا گیا کہ وکلاء کی طرف سے دستور کی بحالی کی جو تحریک آگے بڑھ رہی ہے اور جس کے بارے میں یہ توقع پیدا ہو رہی ہے کہ الیکشن کے بعد یا ان کے خدانخواستہ منعقد نہ ہونے کی صورت میں ملک میں عوامی تحریک کا یہی فورم سب سے زیادہ مؤثر اور بھرپور ہوگا اور بہت سے سیاسی مبصرین کے خیال میں ملک کے دستوری اور سیاسی مستقبل کا زیادہ تر انحصار اور دارومدار اب اسی تحریک کی کامیابی پر ہوگا جو اعلیٰ عدالتوں کے معزول ججوں کی بحالی اور دستور کی بالادستی کے لیے وکلاء کے پلیٹ فارم سے منظم کی جا رہی ہے، لیکن اس تحریک میں صرف جمہوری اقدار کی سربلندی کی بات کی جا رہی ہے اور اسلام کا نام برائے وزن بیت بھی کسی جانب سے سامنے نہیں آرہا۔ حالانکہ پاکستان کے قیام کے مقاصد میں:

  • اسلام اور جمہوریت دونوں کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ میں اسلام اور جمہوریت کو پہلو بہ پہلو رکھا گیا ہے،
  • تمام مکاتب فکر کے ۳۱ علمائے کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی بنیاد بھی اسلام اور جمہوریت دونوں پر ہے،
  • ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام اور جمہوریت کو متوازن دکھایا گیا ہے،
  • اور اس طرح یہ پوری قوم کا متفقہ اور اجماعی فیصلہ ہے کہ پاکستان میں طرز حکومت جمہوری ہوگا لیکن اس کی نظریاتی بنیاد اسلام پر ہوگی، جس کی عملی صورت دستور میں یہ طے کی گئی ہے کہ ملک میں حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے اور قانون سازی کی مجاز منتخب پارلیمنٹ ہوگی لیکن یہ دونوں ادارے ان پالیسیوں اور اپنے احکامات و قوانین میں قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔

مگر وکلاء کی تحریک جس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے لیے جو عزائم، بیانات اور خطابات سننے اور پڑھنے میں آرہے ہیں، ان میں اسلام اور جمہوریت کا یہ توازن نظر نہیں آتا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے نظریاتی تشخص کو غیر محسوس انداز میں دھیرے دھیرے پس منظر میں لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وکلاء کی تحریک میں ’’سول سوسائٹی‘‘ کے خوبصورت عنوان کے ساتھ وہ ’’سیکولر لابیاں‘‘ اور ’’این جی اوز‘‘ شریک ہو گئی ہیں جو ملک کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے اور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی خواہاں ہیں لیکن اپنے اصل عنوان اور اہداف کو سامنے لانے کا حوصلہ نہ پا کر وکلاء کی بحالی دستور کی تحریک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہیں۔ جبکہ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ خود دینی حلقے بالخصوص علمائے کرام دستور کی بحالی کی اس تحریک سے لاتعلق ہیں اور اس ملک گیر تحریک میں کسی جگہ بھی ان کی نمائندگی دکھائی نہیں دے رہی، اور یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس پر علمائے کرام اور ان کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کو سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔

ان حالات میں ملک کے تیس اکابر علمائے کرام کی طرف سے جاری ہونے والا یہ ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کے لیے سخت گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے سے کم نہیں ہے اور میں اسے کراچی کے علمائے کرام کا ایک ’’الہامی فیصلہ‘‘ تصور کرتا ہوں جس میں:

  1. ماورائے دستور تمام اقدامات کی منسوخی،
  2. دستور کے مطابق عدلیہ کی بحالی،
  3. بلوچستان، سوات اور وزیرستان وغیرہ میں فوجی آپریشن ختم کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے،
  4. دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے اختیار کی گئی پالیسیوں کو مکمل طور پر ناکام قرار دے کر انہیں فی الفور ختم کرنے، اور
  5. صدر پرویز مشرف سے اقتدار سینٹ کے چیئرمین کو سپرد کر دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مجھے علمائے کرام کے اس مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ اشاعت سے قبل ای میل کے ذریعے بھجوایا گیا اور میری رائے دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھی کہا گیا، چنانچہ یہ مسودہ گکھڑ بھجوایا گیا اور حضرت والد محترم مدظلہ کو سنایا گیا جس پر انہوں نے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے اسے جاری کرنے والوں میں اپنا نام شامل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس کے بعد یہ ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ اخبارات کے لیے جاری کر دیا گیا۔

میں ملک بھر کے دینی راہنماؤں، کارکنوں، علمائے کرام اور خطباء سے گزارش کروں گا کہ اس مشترکہ اعلامیہ کا بغور مطالعہ کریں اور اسے اپنے اپنے حلقہ میں وکلاء، سیاسی رہنماؤں، کارکنوں، مختلف طبقات اور تنظیموں کے نمائندوں، اخبار نویس دوستوں اور دیگر حضرات تک زیادہ سے زیادہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ اپنے خطبات جمعہ، جلسوں کے خطابات، عام دروس اور اخباری بیانات میں اس موقف اور اس اعلامیہ میں کیے گئے مطالبات کا بار بار اعادہ کریں۔ اور اس قومی جدوجہد میں بھرپور حصہ ڈال کر اس عمومی تاثر کو اپنے عمل اور محنت کے ساتھ زائل کریں کہ ان اہم، نازک اور سنگین قومی مسائل میں ملک کے دینی حلقوں، بالخصوص علمائے کرام کو کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس نازک مرحلہ میں اپنے فرائض صحیح طریقہ سے سرانجام دینے میں کامیاب رہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter