سرحد اسمبلی کے شریعت ایکٹ اور حسبہ ایکٹ کے متعلق تحفظات

   
۲۸ جولائی ۲۰۰۳ء

اخباری اطلاعات کے مطابق گورنر سرحد سید افتخار حسین شاہ نے سرحد اسمبلی کے ۶ جون ۲۰۰۳ء کو متفقہ طور پر منظور کردہ ’’شریعت ایکٹ‘‘ کی ابھی تک توثیق نہیں کی۔ جبکہ سرحد حکومت کی طرف سے بھیجے گئے ’’حسبہ ایکٹ‘‘ کو سات اعتراضات کے ساتھ واپس کر دیا ہے، جن کے بارے میں صوبائی وزارتِ قانون نے جوابی خط میں گورنر سرحد سے کہا ہے کہ یہ اعتراضات غلط فہمی پر مبنی ہیں، جبکہ ان اعتراضات میں عدالتوں کو نظرانداز کرنے اور آئینی حدود سے تجاوز کرنے کے دو اعتراض بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف مسیحی تنظیم ’’کرسچین ڈیموکریٹک فرنٹ پاکستان‘‘ نے ’’ملتِ اسلامیہ‘‘ کے سربراہ مولانا اعظم طارق کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ’’شریعت بل‘‘ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور فرنٹ کے چیئرمین سردار خلیل طاہر سندھو نے اپنے رفقاء فادر ظفر اور جارج کلائمنٹ کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے موقف کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:

’’قراردادِ مقاصد مسلمانوں کے لیے تھی، جبکہ نظریۂ پاکستان کا مطلب مسلمانوں کی بالادستی اور تسلط ہے، ایسے قوانین کی وجہ سے اقلیتوں میں احساسِ محرومی اور غلط رویے پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘

سردار خلیل طاہر سندھو نے کہا ہے کہ

’’اگرچہ اس شریعت بل میں کہا گیا ہے کہ شریعت بل کی کسی شق کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہیں ہو گا، لیکن اس کے باوجود انہیں شریعت بل پر اعتراض ہے اور وہ اسے مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

جہاں تک سرحد حکومت کے شریعت بل اور حسبہ ایکٹ کا تعلق ہے، شریعت ایکٹ کی دفعہ ۱ میں کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق شمال مغربی سرحدی صوبے پر ہو گا، اور دفعہ ۵ میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ

’’قانون سازی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ کوئی بھی قانون شریعتِ اسلامیہ یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے متصادم نہ ہو۔‘‘

اس کے ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی ہے کہ

’’یہ قانون غیر مسلموں کے شخصی قوانین، مذہبی آزادی، رسم و رواج و طرز زندگی پر لاگو نہیں ہو گا۔‘‘

جبکہ حسبہ ایکٹ میں صوبائی سطح پر ایک محتسب کے تقرر کی بات کی گئی ہے، جو صوبہ میں اسلامی احکامات پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا، اور معروفات کے فروغ اور منکرات کی روک تھام کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے مہیا کردہ فورس کے ذریعے ایک نظام قائم کرے گا۔ اس ایکٹ میں صوبائی محتسب اور اس کے تحت قائم کیے جانے والے نظامِ احتساب کے ذمہ جو کام لگائے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈال لیجئے:

  1. پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔
  2. تبذیر یا اسراف (فضول خرچی) کی حوصلہ شکنی کرنا، خصوصاً شادیوں یا اس قسم کی خاندانی تقریبات کے موقع پر۔
  3. عیدین کی نمازوں کے وقت ایسی مساجد کے آس پاس جہاں نمازِ عید ہو رہی ہو، کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔
  4. جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادائیگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔
  5. کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔
  6. غیر متنازعہ مالی دعاوی کے تصفیے میں غیر ضروری تاخیر کو روکنا۔
  7. جانوروں پر ظلم کو روکنا۔
  8. مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔
  9. لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ وارانہ تقاریر سے روکنا۔
  10. غیر اسلامی معاشرتی آداب کی حوصلہ شکنی کرنا۔
  11. پبلک مقامات پر ناشائستہ رویہ اختیار کرنے سے روکنا۔
  12. آوارہ گردی کا تدارک کرنا۔
  13. پیشہ وارانہ تعویذ فروشی، گنڈے، دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔
  14. اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کا تحفظ۔
  15. جہیز میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔
  16. گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔
  17. افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب و آداب۔
  18. غیر اسلامی رسومات، جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں، خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کرنا۔
  19. میراث سے خواتین کو محروم کرنے کے رجحان کا سدباب کرنا۔
  20. خواتین کو شرعی حقوق دلانا۔
  21. ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔
  22. مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔
  23. سرکاری املاک کی حفاظت اور نگرانی کرنا۔
  24. سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔
  25. سرکاری اہلکاروں میں عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا۔
  26. والدین کی نافرمانی پر مواخذہ کرنا۔
  27. غیر متنازعہ مالی امور میں متاثرہ فریق کی مدد کرنا۔
  28. قتل، اقدامِ قتل، یا امن و امان میں خلل اندوز ہونے والے جھگڑوں میں فریقین کے درمیان مصالحت کرانا۔

یہ وہ امور ہیں جو مذکورہ حسبہ ایکٹ میں اس مجوزہ قانون کے مقاصد اور صوبائی محتسب کے دائرہ کار کے طور پر درج ہیں۔ اور ان میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جس کی معاشرے میں اس وقت ضرورت محسوس نہ کی جا رہی ہو، یا جس کی افادیت سے اختلاف کیا جا سکے۔ ان میں سے بہت سے معاملات ملک میں رائج پہلے متعدد قوانین میں شامل ہیں، بہت سے معاملات کی حیثیت محض اخلاقی ہے، لیکن چند امور ایسے بھی ہیں جن کا عالمی سطح پر پاکستان سے تقاضا کیا جا رہا ہے، اور جن کے لیے بین الاقوامی اور ملکی این جی اوز ایک عرصہ سے سرگرمِ عمل ہیں۔ مثلاً چائلڈ لیبر، لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال، فرقہ وارانہ تقاریر کی حوصلہ شکنی، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام، خواتین کو وراثت اور دیگر حقوق دلانے کا عزم، گداگری کا سدباب، اور شادی وغیرہ کے مواقع پر فضول خرچی اور نمائش کی حوصلہ شکنی جیسے امور تو ایسے ہیں کہ ان کے لیے عالمی سطح پر اور ملک کے اندر بھی مختلف حلقوں کی طرف سے مسلسل آواز اٹھتی رہتی ہے اور حکومت سے مطالبات کیے جاتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اقدامات کرے۔

اس لیے یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان میں سے کون سی بات آئین سے متصادم ہے؟ اور ان مقاصد کے لیے صوبائی سطح پر قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کوئی مستقل نظم قائم کرنے پر گورنر سرحد کو کیوں اعتراض ہے؟

باقی رہی بات ایک اقلیتی گروپ کی طرف سے شریعت ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کی، تو سرحد اسمبلی کے منظور کردہ شریعت ایکٹ کے حوالے سے مذکورہ بالا سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اقلیتوں کے شخصی اور مذہبی معاملات کو اس کے دائرہ کار سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے، اور مولانا اعظم طارق کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے شریعت ایکٹ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے کہ

’’اس بل میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہیں ہو گا۔‘‘

تو اس واضح ضمانت کے بعد بھی اگر کسی اقلیتی گروپ کو اس پر اعتراض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بات اقلیتوں کے حقوق کی نہیں بلکہ سرے سے اسلام کے نفاذ اور شرعی قوانین کی عملداری کو روکنے کی ہے۔ اور اعتراض اور چیلنج کرنے والوں کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ پاکستان میں ’’نظریۂ پاکستان‘‘ اور ’’قرارداد مقاصد‘‘ پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے، جو تحریکِ پاکستان کے قائدین بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ان اعلانات کی نفی ہے جو انہوں نے پاکستان میں قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کے حوالے سے علی الاعلان کیے تھے۔ بلکہ یہ اس کمٹمنٹ کی بھی خلاف ورزی ہے جو مذکورہ بالا اعلانات کے باوجود پاکستان کے قیام کی حمایت کے لیے اقلیتوں نے تحریک پاکستان کے قائدین سے کی تھی، اور جس کے تحت جسٹس اے آر کار نیلس اور جوشوا فضل دین جیسے ممتاز مسیحی رہنما پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کی مسلسل حمایت کرتے رہے۔

اس پس منظر میں اصحابِ دانش سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں، اس لیے کہ ملک کے نظریاتی تشخص اور جغرافیائی وحدت کے تحفظ اور مروجہ نظام کی اصلاح کی صرف ایک ہی صورت ممکن ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کریں، اور تحریکِ پاکستان کے جذبے اور ماحول کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے ایک نظریاتی، فلاحی، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ محنت کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter