بل کلنٹن سے چند گزارشات

   
تاریخ : 
۲۵ جنوری ۲۰۰۲ء

ایک قومی روزنامہ نے جدہ سے اے ایف پی کے حوالہ سے ۲۱ جنوری ۲۰۰۲ء کو خبر شائع کی ہے کہ امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے ’’جدہ اکنامک فورم‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ باہمی اختلافات کو برداشت کرنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سیاسی معاشرہ تشکیل دیا جائے، اور امریکہ اس مقصد کے لیے دنیا سے رابطہ کرے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ختم کر دیں۔

چند روز قبل اے ایف پی نے ہی ریاض سے یہ خبر دی تھی کہ سعودی وزیر تعلیم محمد الرشید نے اس بات کی تردید کی ہے کہ مغرب کی طرف سے اس تنقید پر کہ ’’سعودی تعلیمی پروگرام انتہا پسند پیدا کر رہا ہے‘‘ سعودی عرب کا نظام تعلیم تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک عربی اخبار کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نصاب تعلیم ہماری ضرورتوں اور معاشرے کے تقاضوں کے مطابق اور مسلمہ اصولوں پر مبنی ہے، اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے یا ڈکٹیٹ کرائے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس خبر کو بھی قارئین اپنے ذہنوں میں تازہ کر لیں کہ امریکی سینٹ کے چیئرمین نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور اپنے وطن واپسی پر تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دورہ سے خوش نہیں آئے، کیونکہ سعودی عرب کا رویہ امریکی فوجوں کے بارے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور خاص طور پر سعودی عرب میں امریکہ کی موجود فوجوں میں شامل خواتین بہت تنگ ہیں، اس لیے کہ وہ وہاں کے ماحول سے خوش نہیں ہیں۔

ہم ایک عرصہ سے عرض کر رہے ہیں امریکہ دنیا کے جس خطے میں جاتا ہے بلکہ امریکہ سے قبل مغربی ممالک جہاں جہاں گئے ہیں اور دنیا کے جس حصے میں بھی انہوں نے نوآبادیاں قائم کی ہیں وہاں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو عسکری بالادستی، سیاسی کنٹرول اور معاشی استحصال تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس کے ساتھ ان کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ محکوم ممالک اپنے عقیدہ و مذہب سے بھی دستبردار ہو جائیں اور اپنی تہذیب و ثقافت کو خیرباد کہہ کر مغرب کے کلچر اور تہذیب و ثقافت کو قبول کر لیں۔ برطانوی اور فرانسیسی استعمار دنیا میں جہاں کہیں گئے ہیں ان کی کوشش یہی رہی ہے اور مسلمانوں سے ہٹ کر دوسرے معاشروں میں انہیں اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے، لیکن عالم اسلام اور مسلم ممالک میں وہ سیاسی جکڑبندی، معاشی استحصال اور فوجی قہر سامانی کی انتہا تک پہنچنے کے باوجود عقیدہ، ثقافت اور تہذیب کے حوالے سے مسلمانوں کو ان کے ماضی اور تہذیبی تسلسل سے کاٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یہی بات مغرب کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔

اب بھی یہی صورتحال ہے۔ یورپی ممالک میں استعماری کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہ رہی تو ان کی جگہ امریکہ آگے آ گیا، مگر ایجنڈا اور پروگرام وہی رہا۔ امریکہ تازہ دم قوت ہے اور یورپ سے زیادہ طاقت و حشمت کا مالک ہے، اس لیے اس نے حجاب اور ڈپلومیسی کے وہ پردے بھی ایک طرف کر دیے ہیں جو یورپ یا استعماریوں نے اپنی پالیسیوں پر ڈال رکھے تھے اور امریکہ اپنے زیر اثر علاقوں سے کھلم کھلا مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اس کے سامنے صرف سیاسی اور معاشی طور پر سپرانداز نہ ہوں، بلکہ عقیدہ و ثقافت سے بھی دستبرداری کا اعلان کریں، ورنہ انہیں امریکہ کے سایہ عاطفت میں جگہ نہیں ملے گی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوج کشی اور لاکھوں افغان عوام کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے غربت و افلاس اور فاقہ کشی کے باوجود اپنے عقیدہ و ایمان اور تہذیب و ثقافت سے دستبردار ہونے اور عقیدہ و ثقافت کے عوض ڈالر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان سے امریکہ اور اقوام متحدہ کے جو مطالبات ہیں ان کی فہرست پر نظر ڈالیں اور بین الاقوامی ادارے انسانی حقوق کے نام پر پاکستان سے جو مسلسل تقاضے کر رہے ہیں ان کا مطالعہ کریں تو ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے عقیدہ اور ثقافت سے دستبردار ہو جائیں، اسلام کے جن قوانین کے نفاذ کی وہ بات کرتے ہیں یا جو برائے نام چند قوانین پاکستان میں نافذ ہیں ان کو ختم کر دیا جائے اور پاکستان ایک سیکولر ریاست کے طور پر امریکہ کے ساتھ اس عالمی نظام میں شریک ہو جائے جس کا مقصد دنیا میں ایک عالمی صہیونی ریاست قائم کرنا ہے۔

سعودی عرب کی صورتحال یہ ہے کہ تیل اور سونے کی دولت سے مالامال یہ ملک پون صدی قبل تک خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا اور مسلمانوں کے ایک عالمی نظام میں شریک تھا، جسے برطانوی استعمار نے مکہ مکرمہ کے عثمانی گورنر شریف حسین کو ورغلا کر اور اسے خلیفۃ المسلمین بنانے کے لالچ میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر کے مسلمانوں کے عالمی نظام سے الگ کیا۔ اور جب یہ خطہ خلافت عثمانیہ سے الگ ہو گیا تو شریف مکہ حسین کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آل سعود کے تحت ایک الگ ملک بنوا دیا، جہاں اگرچہ اسلامی خلافت کی بجائے خاندانی بادشاہت کا نظام قائم ہے اور امریکہ اور مغرب کے مفادات کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت موجود ہے، لیکن عدالتی اور تعلیمی شعبوں میں شرعی نظام کا تسلسل قائم ہے۔ سعودی عرب کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں اور سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم کی بنیاد اسلامی عقائد و احکام پر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے اس وقت سعودی عرب کا تعلیمی نصاب و نظام عالم اسلام کا سب سے بہتر نظام ہے اور اس میں عقیدہ و ثقافت کے تحفظ اور عام مسلمانوں کو دینی ماحول، اقدار اور تاریخی تسلسل سے وابستہ رکھنے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے مغرب کو یہ شکایت ہے کہ سعودی عرب میں مذہب کے ساتھ شدت کی وابستگی اور اسلام کے ساتھ دوٹوک کمٹمنٹ کو کمزور کرنے کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا، اور ایک عام سعودی شہری امریکہ اور مغرب کے تمام تر پراپیگنڈے اور لابنگ کے باوجود دین اور دینی ثقافت کی کسی بات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سعودی عرب میں عوامی سطح پر رائے اور جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں ہے، لیکن تمام تر پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود افغانستان کے خلاف امریکہ کی فوج کشی پر سعودی عوام کے جذبات کسی سے مخفی نہیں رہ سکے اور خاموشی کی زبان میں بھی انہوں نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف افغانستان کے نہتے اور مظلوم عوام پر امریکی بمباری اور جارحیت سے نفرت کرتے ہیں، بلکہ خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ مگر امریکہ اس نفرت کے اسباب اپنے رویہ میں تلاش کرنے کی بجائے سعودی عرب کے نظام تعلیم کے ساتھ اس کو جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے امریکیوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ صرف عسکری طاقت اور معاشی قوت کے لحاظ سے ہی دنیا کی سپر طاقت نہیں ہیں، بلکہ غلطیوں اور خطاؤں سے بھی مبرا قوم ہیں۔ اس لیے وہ اپنے خلاف دنیا کے رویے کو سمجھنے کے لیے اپنی حرکتوں پر غور کرنے اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی بجائے مصنوعی اسباب و عوامل کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور اس کا اظہار سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مسلمانوں کو اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ترک کر دینے کے مشورہ کی صورت میں کیا ہے۔

جناب کلنٹن سے گزارش ہے کہ مسلمانوں کو عقیدہ سے دستبردار کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ ہی یہ عقیدہ کسی قوم کے خلاف نفرت کی بنیاد ہے۔ انہیں امریکہ کے خلاف مسلمانوں کی نفرت اور بڑھتے ہوئے غیظ و غضب کے اسباب اپنے رویہ، طرز عمل اور کردار میں تلاش کرنا ہوں گے، اور اپنے عمل و کردار کا جائزہ لے کر ہی یہ بات ان کی سمجھ میں آئے گی کہ دنیا ان سے نفرت کیوں کرتی ہے اور ان کی سیاسی، معاشی اور عسکری بالادستی کے باوجود ان کی ثقافت و کلچر کو منہ لگانے کے لیے کیوں تیار نہیں ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter