نظام حکومت کی اصلاح کے لیے سعودی علماء کی تجاویز

   
تاریخ : 
۲۷ فروری ۱۹۹۹ء

اب سے دو سال قبل افغانستان میں جلال آباد کے قریب ایک خفیہ مرکز میں الشیخ اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ ایک رات رہنے کا اتفاق ہوا تو ان کے عزم و حوصلہ، جوش و جذبہ، حکمت و تدبر اور خلوص و للہیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ یہ شخص عالم اسلام کی بیداری میں اہم کردار ادا کرے گا۔ مگر یہ توقع نہیں تھی کہ اتنی جلدی اور اس سطح پر اسے پذیرائی ملے گی کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی ظاہری قوت امریکہ کے طاقتور حکمران صدر کلنٹن کے لیے ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کر جائے گا۔آج اسامہ بن لادن کی روپوشی امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے مستقل مسئلہ بن گئی ہے اور چھپا ہوا اسامہ نفسیاتی طور پر سامنے چلتا پھرتا نظر آنے والے اسامہ سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس لیے آج پھر وہ عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع ہے اور اس کے حوالہ سے وسیع تناظر میں میڈیا ماہرین اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کے صحافیوں میں سے شیخ اسامہ بن لادن کے ساتھ سب سے پہلا انٹرویو جناب حامد میر نے روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا تھا۔ جبکہ اسامہ کے موقف اور جدوجہد کے بارے میں ابتدائی ایک دو کالم راقم الحروف نے لکھے تھے۔ اس وقت ہمیں یہ کہا جاتا تھا کہ آپ لوگوں نے بہت مشکل گھاٹی میں قدم رکھ دیا ہے مگر ہمیں یقین تھا کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے اسلام کے لیے، ملت اسلامیہ کے لیے، اور سچائی کے لیے کیا ہے اس لیے ہماری محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ چنانچہ آج جب کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اسامہ بن لادن اخبارات و جرائد کا سب سے اہم موضوع ہے اور اس کے موقف اور جدوجہد کے مختلف گوشے منظر عام پر آرہے ہیں، ہم اپنی چھوٹی سی کاوش کے بارآور ہونے پر خوشی اور اطمینان کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہیں۔

روزنامہ اوصاف سے پہلے روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں میرے مضامین جن دوستوں کی نظر سے گزرتے رہے ہیں انہیں ’’سعودی حکمران خاندان اور اہل دین کی کشمکش‘‘ کے عنوان سے میرا مضمون ضرور یاد ہوگا جو ۲۸ اپریل ۱۹۹۷ء کو روزنامہ پاکستان کے لاہور ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ اس میں اسامہ بن لادن کے ساتھ جناب حامد میر کے تفصیلی انٹرویو کے حوالہ سے سعودی عرب کے دینی حلقوں کی جدوجہد کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی گئی تھیں اور یہ عرض کیا تھا کہ اس جدوجہد میں اسامہ بن لادن تنہا ایک شخص نہیں ہیں بلکہ وہ سعودی عرب کے دینی حلقوں اور دانشوروں کے ایک بہت بڑے طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں جو سالہا سال سے سعودی عرب کے داخلی نظام کی اصلاح اور بیرونی مداخلت کے خاتمہ کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس مضمون میں ’’مذکرۃ النصیحہ‘‘ کے عنوان سے ایک یادداشت کا تذکرہ بھی تھا جو سعودی عرب کے علماء کرام کی طرف سے شاہ فہد کو پیش کی گئی تھی۔ اس یادداشت کی پاداش میں سینکڑوں علماء کرام اور دانشور گرفتار کر لیے گئے تھے جن میں سے ڈاکٹر محمد مسعری اور ڈاکٹر سعد فقیہ جیسے اصحاب جلا وطن ہو کر لندن میں بیٹھے ہیں جبکہ الشیخ سفر الحوالی اور الشیخ سلیمان عودہ جیسے اکابر علماء ۱۹۹۲ء سے اب تک مسلسل جیل میں ہیں۔

آج کی صحبت میں اس یادداشت کا تھوڑا سا خلاصہ پیش کرنے کو جی چاہتا ہے تاکہ اس جدوجہد کا ایک خاکہ قارئین کے سامنے آجائے جس کے لیے سعودی عرب کے علماء اور دانشور صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اور جس کے لیے الشیخ اسامہ بن لادن ایک عظیم مجاہد اسلام کے طور پر عالمی فورم پر اپنے ملک کے دینی حلقوں اور دانشوروں کی جرأت و عزیمت کے ساتھ ترجمانی کر رہے ہیں۔

مذکرۃ النصیحہ کے عنوان سے یہ یادداشت عربی زبان میں ہے جو ۱۳۸ صفحات پر مشتمل ہے اور اس پر ۱۰۹ حضرات کے دستخط ہیں جن میں اکثریت ممتاز علماء کرام، وکلاء، اساتذہ اور دانشوروں کی ہے۔ یہ یادداشت جولائی ۱۹۹۲ء میں شاہ فہد کو پیش کی گئی۔ یادداشت کے آخر میں دستخط کرنے والوں کے نام اور ان کے دستخطوں کے عکس موجود ہیں اور ان کے علاوہ سعودی عرب کے چار اکابر علماء کرام (۱) الشیخ عبد اللہ الجلالی (۲) الشیخ سلیمان عودہ (۳) الشیخ سفر الحوالی اور (۴) الشیخ عبد اللہ الجبرینؒ کے تصدیقی خطوط کے فوٹو بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ جبکہ اکابر علماء کی سرکاری کمیٹی نے الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن الباز کی سربراہی میں اس یادداشت پر جو تنقید کی ہے اور حکومت پر نکتہ چینی کے اس طریقے سے جو اختلاف کیا ہے وہ بھی کتابچہ میں شامل ہے۔

اس یادداشت میں ملک کی داخلی، خارجی، دفاعی، معاشی، انتظامی اور قانونی پالیسیوں پر الگ الگ بحث کرتے ہوئے ان میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور شرعی نقطۂ نظر سے اصلاحی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان سب تجاویز کا احاطہ تو اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے، البتہ ان میں سے چند تجاویز کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الشیخ اسامہ بن لادن اور سعودی عرب کے دیگر علماء اور دانشوروں کا اصل موقف اور مشن کیا ہے جس کے لیے وہ محاذ آرائی، جلاوطنی اور قید و بند کے مراحل سے دوچار ہیں۔

  • عدالتی نظام کے حوالہ سے یادداشت میں ’’شرعی عدالت عالیہ‘‘ کے خاتمہ پر نکتہ چینی کی گئی ہے جو سعودی عرب کے موجودہ مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز کے پیش رو الشیخ محمد بن ابراہیمؒ تک قائم تھی۔ وہ ملک کے چیف جسٹس تھے، حکومت کے غیر شرعی فیصلوں پر کڑی گرفت کرتے تھے، اور انہوں نے مالی معاملات، سروس رولز، تجارتی قوانین اور دیگر شعبوں کو شرعی عدالت سے مستثنیٰ قرار دینے کے حکومتی اقدام پر سخت تنقید کی تھی۔ اس لیے ان کی وفات کے بعد یہ پوسٹ ہی ختم کر دی گئی اور ان کے جانشین شیخ بن باز کو قاضی القضاۃ کی بجائے مفتی اعظم کی حیثیت دے دی گئی۔ یادداشت میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس صورتحال کو ختم کرتے ہوئے ’’محکمہ شرعیہ کبریٰ‘‘ یعنی شرعی عدالت عظمیٰ بحال کی جائے اور قومی زندگی کے تمام شعبوں کو شرعی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں شامل کیا جائے۔
  • انسانی حقوق کے حوالہ سے یادداشت میں تجویز کیا گیا ہے کہ لوگوں کا رائے دینے کا حق بحال کیا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اخبارات اور تقاریر و بیانات پر سنسر ختم کیا جائے۔ آزاد اداروں اور تنظیموں کے قیام میں رکاوٹ ختم کی جائے۔ علماء کرام اور مبلغین پر اجتماعات اور خطبات کے لیے سرکاری اجازت کی شرط ختم کی جائے۔ ریاست کو مملکت کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق مثلاً خوراک، رہائش، تعلیم وغیرہ کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ گھروں کی تلاشی اور بلاوجہ گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ کسی شخص کو عدالتی فیصلے کے بغیر ایک دن سے زائد حراست میں نہ رکھا جائے۔ اور عدالتی فیصلے کے بغیر نہ کسی کے گھر کی تلاشی لی جائے اور نہ کسی کو سفر سے روکا جائے۔
  • یادداشت میں کہا گیا ہے کہ سرکاری منصب کی تقسیم میں اہلیت کو بنیاد بنایا جائے اور علاقائی اجارہ داری کا تاثر ختم کیا جائے کیونکہ علاقائی عصبیت جاہلی عصبیت ہے۔
  • یادداشت میں کہا گیا ہے کہ بیرونی قرضوں اور امداد کے حصول کا سلسلہ ترک کر کے ملکی وسائل کے اندر رہتے ہوئے تمام مالیاتی امور طے کیے جائیں۔ قناعت اور کفایت شعاری اختیار کی جائے۔ سرکاری خزانے سے بڑی عمارتوں کی تعمیر روک دی جائے۔ مالدار خاندانوں کو سرکاری خزانے سے عطیات نہ دیے جائیں، ان کی بجائے معذوروں اور ضرورت مندوں کے وظائف مقرر کیے جائیں۔ شادی کے قابل نوجوانوں کو شادی کے لیے امداد دی جائے اور بچوں کے وظیفے مقرر کیے جائیں۔
  • یادداشت میں دفاع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ملک کے دفاع کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار ختم کیا جائے اور اس سلسلہ کے تمام معاہدے منسوخ کیے جائیں۔ مملکت کی خودمختاری اور سیاسی وقار کو بحال رکھا جائے۔ اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کی جائیں اور کم از کم پانچ لاکھ افراد پر مشتمل باقاعدہ قومی فوج قائم کر کے اس کے علاوہ ملک کے ہر نوجوان کو فوجی تربیت دینے کے بعد ریزرو فورس بھی بنائی جائے۔
  • یادداشت میں کہا گیا ہے کہ تیل کی پیداوار کو محدود اور اس کے نرخوں کو ایک سطح پر رکھنے کی عالمی پالیسی مسترد کر کے خودمختار پالیسی اختیار کی جائے اور بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخ کے مطابق تیل فروخت کیا جائے۔
  • یادداشت میں خارجہ پالیسی کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ عالم اسلام کے اتحاد کو اپنا اصل ہدف قرار دیا جائے۔ عالمی اداروں میں اسلام اور مسلمانوں کی بھرپور وکالت کی جائے۔ اور عالمی طاقتوں بالخصوص مغربی اداروں کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہ کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو یا اس سے سعودی عرب کی خودمختاری اور سیاسی وقار پر حرف آتا ہو۔

یہ صرف چند تجاویز کا خلاصہ ہے جو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ ورنہ ’’مذکرۃ النصیحہ‘‘ میں سعودی عرب کی قومی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اصلاح احوال کی جامع تجاویز پیش کی گئی ہیں جو یادداشت پیش کرنے والے علماء کرام اور دانشوروں کی اسلام دوستی اور حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ان کی جرأت و حوصلہ، بیدار مغزی اور معاملہ فہمی کی بھی غمازی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اس مشن میں جلد از جلد کامیابی عطا فرمائیں تاکہ سعودی عرب ایک خودمختار اور باوقار اسلامی ملک کی حیثیت سے عالم اسلام کی صحیح قیادت کر سکے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter