حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۰۶ء

’’حدود آرڈیننس‘‘ ایک بار پھر ملک بھر میں موضوع بحث ہے اور وہ لابیاں ازسرنو متحرک نظر آرہی ہیں جو اس کے نفاذ کے ساتھ ہی اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئی تھیں اور قومی اور عالمی سطح پر حدود آرڈیننس کے خلاف فضا گرم کرنے میں مسلسل مصروف چلی آرہی ہیں۔ اس سے قبل ہم متعدد بار اس مسئلے کے بارے میں معروضات پیش کر چکے ہیں لیکن موجودہ معروضی صورتحال میں ایک بار پھر اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کیا ہے، اس کے نفاذ کی مخالفت میں کون کون سے طبقے پیش پیش ہیں، اور وہ اس کے خاتمہ کے لیے کیوں سرگرم عمل ہیں؟

’’حدود‘‘ اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح ہے اور حدود کا لفظ ان سزاؤں پر بولا جاتا ہے جو مختلف معاشرتی جرائم میں قرآن و سنت میں طے کی گئی ہیں۔ سزاؤں کا وہ حصہ جن کے تعین اور ان میں کمی بیشی میں اسلامی حکومت، مقننہ اور عدلیہ کو اختیار حاصل ہے ’’تعزیرات‘‘ کہلاتا ہے۔ لیکن چند سزائیں طے شدہ ہیں جن میں کمی بیشی یا معافی کا حکومت، مقننہ یا عدلیہ میں سے کسی کو شرعاً اختیار حاصل نہیں ہے اور یہ ’’حدود‘‘ کہلاتی ہیں۔ مثلاً چوری کی سزا قرآن کریم نے ہاتھ کاٹنا بیان کی ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی عدالت میں کسی شخص پر چوری کا الزام ثابت ہو جائے تو عدالت اس بات کی پابند ہے کہ اسے وہی سزا دے جو قرآن و سنت نے بیان کی ہے۔ اسے تبدیل کرنے، معاف کرنے یا اس میں لچک پیدا کرنے کا عدالت کو اختیار نہیں ہے۔

معاشرتی جرائم کی یہ سزائیں قرآن کریم سے پہلے توراۃ اور بائبل کے احکام میں بھی شامل رہی ہیں اور اسلام نے ان سزاؤں کو باقی رکھ کر دراصل بائبل کے احکام کے تسلسل کو بحال رکھا ہے، اس لیے اگر آج کے عالمی ماحول میں ہاتھ کے کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کو سخت اور معاذ اللہ وحشیانہ قرار دیا جا رہا ہے تو یہ الزام صرف قرآن کریم پر یا شریعت اسلامیہ پر عائد نہیں ہوتا بلکہ بائبل بھی اس ’’جرم‘‘ میں برابر کی شریک ہے اور اسے اس میں قرآن کریم پر سبقت حاصل ہے۔

جہاں تک پاکستان میں ان حدود اللہ کے نفاذ کا تعلق ہے، اس کا مطالبہ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہو رہا تھا کہ یہ نفاذ اسلام کا ایک اہم تقاضا تھا، لیکن اس کی عملی نوبت جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور صدارت میں آئی اور انہوں نے ایک آرڈیننس کی صورت میں اسے ملک میں نافذ کر دیا جو ’’حدود آرڈیننس‘‘ کہلاتا ہے اور مسلسل مخالفت اور اعتراضات کا ہدف ہے۔ اس کی متعدد دفعات کو نہ صرف وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے بلکہ اس کی منسوخی کے لیے قومی اسمبلی میں باقاعدہ بل لانے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ اس حدود آرڈیننس پر پاکستان میں اور عالمی سطح پر دو طبقوں کو اعتراض ہے اور وہی اس کے خاتمے کے لیے مسلسل تگ و دو کر رہے ہیں۔

  • ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے حدود اللہ کے نفاذ کے خلاف ہے۔ وہ چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو سنگسار کرنے، جھوٹی تہمت پر کوڑے لگانے، یا قصاص میں عضو کے بدلے عضو کاٹنے کو بھی غلط سمجھتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی بیان کردہ سزاؤں کو اس دور کے قبائلی معاشرہ کی ضرورت سمجھتے ہوئے آج کے دور میں ان کے نفاذ کو غیر ضروری بلکہ غلط قرار دیتا ہے اور یہ طبقہ اس معاملے میں مغرب کے فکر و فلسفہ سے مکمل طور پر متفق اور ہم آہنگ ہے۔
  • دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان حدود کے اسلامی ہونے کا قائل ہے لیکن اسے شکایت ہے کہ ان حدود کی تعبیر و تشریح کے لیے حدود آرڈیننس مرتب کرنے والوں نے ان حضرات کے موقف اور تعبیرات کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے جمہور فقہائے کرام کی تعبیرات کو کیوں بنیاد بنایا ہے؟ اور حدود شرعیہ بلکہ اسلامی احکام و قوانین کی جدید تعبیر و تشریح کرنے والے ان دانشوروں کے نقطۂ نظر کو توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھا؟ اس پر یہ حضرات اس قدر سیخ پا ہیں کہ سرے سے حدود آرڈیننس کو منسوخ اور ختم کرانے کے لیے پہلے طبقہ کے شانہ بشانہ جا کھڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان حضرات کی یہ شکایت بجائے خود محلِ نظر ہے اور اپنی تعبیرات کو ہر حال میں امت سے قبول کرانے کے لیے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک دوست سے میرا اس مسئلہ پر مکالمہ ہوا۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ کیا حدود کی تعبیر و تشریح میں فقہائے امت کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ اس پر وہ چپ ہوگئے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی بھی سلیم العقل اور صاحب انصاف کو یہ صورتحال پیش آ جائے کہ ایک طرف امت کے جمہور فقہاء کی تعبیرات ہوں اور دوسری طرف چند دانشور حضرات اپنی تعبیرات کو اس کے مقابلے پر پیش کر رہے ہوں تو ایک انصاف پسند شخص امت کے چودہ سو سالہ تعامل اور تمام دینی و علمی مکاتب فکر کے جمہور علماء کی اجتماعی تعبیرات کو چند دانشوروں کی آرا پر قربان کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہوگا۔ ایسے اصحاب دانش کی حالت انتہائی قابل رحم ہے جو مولوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ضدی ہے، ہٹ دھرم ہے اور دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام نہیں کرتا، لیکن خود ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور آج کے جمہور علمائے امت کے اتفاقی موقف کے سامنے چند افراد اس بات پر مصر ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام و مسائل میں ان کی تعبیرات و تشریحات کو ہر حال میں قبول کیا جائے اور صرف انہی کو ’’معیارِ حق‘‘ قرار دے کر احادیث نبویہؑ اور فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو ان کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ کرا دیا جائے، ورنہ وہ مغرب کے ساتھ ہیں اور سرے سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کو غیر ضروری قرار دینے والوں کی صف میں کھڑے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ حدود آرڈیننس کا وہ حصہ جس کا تعلق تطبیق و نفاذ کی عملی صورتوں سے ہے، حرف آخر نہیں ہے اور موجودہ عدالتی نظام کے پس منظر میں ان میں سے بعض باتوں پر نظر ثانی ہو سکتی ہے، لیکن یہ یکطرفہ بات ہے، اس لیے حدود کے نفاذ کو جس عدالتی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہ بجائے خود محل نظر ہے اور نیچے سے اوپر تک اس کی ہر سطح اور ماحول چیخ چیخ کر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حدود آرڈیننس کے نفاذ سے جو مشکلات اور شکایات عملی طور پر سامنے آئی ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق آرڈیننس کی بعض شقوں سے ہو سکتا ہے، لیکن ان میں سے بیشتر شکایات اور مشکلات کا تعلق موجودہ عدالتی سسٹم اور اس کے پیچ در پیچ نظام سے ہے اور یہ شکایات صرف حدود کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کا ہر قانون اس عدالتی سسٹم کی پیچیدگی اور تہہ در تہہ الجھنوں کا نوحہ کناں ہے۔ مگر ہمارے یہ دانشور اس سارے ملبہ کو حدود آرڈیننس پر ڈال کر اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں۔

کچھ عرصہ قبل توہین رسالتؑ کی سزا کے قانون کے حوالہ سے سوال اٹھا تھا کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے اسے ختم کر دیا جائے۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ کون سا قانون ملک میں ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ اگر کسی قانون کو ختم کر دینے کے لیے صرف یہی جواز کافی ہو کہ اس کے غلط استعمال ہونے کا امکان موجود ہے تو ملک کے پورے قانونی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا ہوگا اس لیے کہ ملک میں کوئی قانون بھی ایسا نہیں ہے جس کا غلط استعمال نہ ہو رہا ہو اور جس کے غلط استعمال کا امکان موجود نہ ہو مگر اس کا تعلق قانون سے نہیں بلکہ قانونی نظام اور معاشرتی ماحول سے ہوتا ہے۔

اس پس منظر میں ہمیں ان حضرات سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو اس حوالہ سے مغرب کی نمائندگی کر رہے ہیں اور سرے سے حدود کے نفاذ ہی کے مخالف ہیں اس لیے کہ ان کا موقف واضح ہے۔ لیکن جو لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شکوے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کیونکہ جسٹس (ر) دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جب ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کو ایک ہی صف میں کھڑا دیکھتے ہیں تو بہرحال ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter