دینی مدارس کی افادیت کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت

   
۸ جون ۲۰۱۱ء

گزشتہ روز جامعہ قادریہ حنفیہ ملتان کی سالانہ تقریب اختتام بخاری شریف میں حاضری کا موقع ملا۔ جامعہ کے مہتمم مولانا محمد نواز سیال باذوق اور باسلیقہ مہتممین میں سے ہیں، ان کے زیر سایہ جامعہ قادریہ میں طلبہ کی ذہنی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کا خصوصی ماحول دیکھ کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ وہ دینی مدارس کو درپیش مسائل کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں اور مناسب موقع ہو تو مشاورت میں بھی شریک کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم اور برادر مکرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری زید مجدہم سے ملاقات اور ان کے خیالات سننے کا اتفاق ہوا۔ مولانا محمد نواز سیال کے ساتھ خصوصی گفتگو میں اس بار دو مسئلے خاص طور پر زیر بحث آئے، ایک مدارس کے اندرونی ماحول کے حوالے سے اور دوسرا دینی مدارس کے عام معاشرہ سے رابطہ و تعلق کے حوالے سے۔

مدارس کے اندرونی ماحول کے بارے میں کم و بیش ہر جگہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تعلیم کا اہتمام تو مدارس میں عام طور پر ہوتا ہے مگر تربیت کا ماحول کم مدارس میں پایا جاتا ہے۔ تربیت کی ضروریات میں دینی معمولات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور فکری تربیت بھی شامل ہے جس کی شیرازہ بندی کی طرف ضروری توجہ دکھائی نہیں دے رہی۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے بھی ماہنامہ وفاق المدارس کے تازہ شمارے میں نماز، دعا اور ذکر الٰہی کی طرف طلبہ و اساتذہ کو متوجہ کرنے اور ان امور کے اہتمام کی ضرورت بیان فرمائی ہے۔ مولانا محمد نواز سیال نے اس کے علاوہ طلبہ میں دیانت و امانت کے ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت کا ذکر کیا جس میں راقم الحروف نے یہ اضافہ کیا کہ ان سب امور کے ساتھ ساتھ طلبہ کی پبلک ڈیلنگ کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ان معاملات ہم بہرحال کمزور ہیں۔

مدارس کے اردگرد رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات و روابط کا عمومی ماحول قابل اطمینان نہیں ہوتا۔ مدرسہ میں آنے جانے والوں کے ساتھ گفتگو اور ضروری معاملات میں ان کی راہنمائی کے حوالہ سے بھی عمومی طور پر ہمارے طلبہ کا طرز عمل ’’آئیڈیل‘‘ نہیں ہوتا اور کسی مدرسہ میں جانے والا اجنبی شخص وہاں چند لمحے گزارنے کے بعد کسی خوشگوار موڈ میں وہاں سے واپس نہیں جاتا۔ بعض مدارس کا ماحول یقیناً اس سے مختلف ہوگا لیکن جب مدارس کے عمومی ماحول کی بات کی جائے گی تو تاثر کم و بیش وہی ہوگا جس کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔ میں نے مثال کے طور پر ایک بظاہر چھوٹے سے مسئلہ کا ذکر کیا کہ مسجد میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد جب پچھلی صفوں میں مسبوق حضرات اپنی اپنی نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے سامنے سے گزرنے میں ہمیں بہت جلدی ہوتی ہے اور ہم اکثر اوقات شرعی مسئلہ کی پروا نہیں کرتے جس سے نمازیوں میں ہمارے بارے میں تاثر اچھا قائم نہیں ہوتا۔ بہت سے طلبہ بلکہ اساتذہ بھی مسئلہ کے فقہی پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے بعض ایسی صورتیں اختیار کرتے ہیں جو فقہی طور پر تو شاید جائز کہلائیں لیکن عمومی تاثر کے حوالے سے اچھے اثرات کی حامل نہیں ہوتیں اور اس سے ہمارے بارے میں اس تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ مولوی حضرات اپنے لیے جہاں چاہیں کوئی نہ کوئی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ ایک جزوی سی بات ہے جس کا صرف مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، اصل بات اصولی طور پر یہ ہے کہ ہم مدارس و مساجد کے ماحول میں باہر سے آنے والے عام مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لیے اچھے جذبات و تاثرات قائم کرنے کی کوشش کریں، جس کا کوئی خاص اہتمام ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔

عمومی معاشرہ کے ساتھ مدارس کے اساتذہ و طلبہ کے روابط کے بارے میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ اگر ہم دو باتوں کا اہتمام کر لیں تو اس خلا کو کسی حد تک پر کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ جس طرح دارالعلوم دیوبند نے شعبہ تبلیغ قائم کر کے عمومی دینی تبلیغ کے لیے مبلغین کا تقرر کیا تھا اور اس شعبہ کی خدمات کی ایک مستقل تاریخ ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بڑے مدارس میں شعبہ تبلیغ قائم ہو اور مدرسہ کے نظم کے تحت مبلغین مختلف محلوں اور دیہات میں جا کر ضروریات دین کو سامنے رکھتے ہوئے تبلیغ و دعوت کا فریضہ سرانجام دیں تو اس سے دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا ہوگا۔ عام لوگوں کا دینی فائدہ ہوگا اور مدرسہ کا تعارف بھی ہوگا۔ مگر اس کے ساتھ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس تبلیغ سے مدرسہ کے تعارف کی حد تک تو فائدہ اٹھایا جائے مگر اسے نہ چندہ کا ذریعہ بنایا جائے اور نہ ہی ان مبلغین سے بطور سفیر کام لیا جائے کیونکہ آج کے حالات کے تناظر میں اس سے خود تبلیغ کی افادیت متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسری گزارش میں نے یہ کی کہ بڑے مدارس کے دارالافتاء اگر اپنا دائرہ کار بڑھا کر ثالثی اور تحکیم کو بھی اس میں شامل کر لیں تو اس سے عام لوگوں کو فائدہ ہوگا کہ وہ بہت سے معاملات و تنازعات میں تھانہ کچہری کے چکروں سے بچ جائیں گے جبکہ دینی مدارس کے عوامی رابطہ میں بھی اضافہ ہوگا۔

مولانا موصوف نے پہلی بات سے تو اتفاق کیا کہ مدارس میں تبلیغ کے مستقل شعبے قائم کرنے کی ضرورت و افادیت موجود ہے اور اس کی طرف بڑے مدارس کو توجہ دلانی چاہیے، مگر تحکیم اور ثالثی کو دارالافتاء کے باقاعدہ نظم و پروگرام میں شامل کرنے کے حوالے سے انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ مفاد پرستی اور نفسانفسی کے اس ماحول میں کسی بھی معاملہ میں فیصلہ جس فریق کے خلاف ہوگا وہ اسے عام طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا جس سے مدارس کے ساتھ کچھ لوگوں کی بلاوجہ مخاصمت کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

جامعہ قادریہ حنفیہ کا سالانہ جلسہ حسب معمول خاصا بارونق تھا۔ علماء کرام اور طلبہ ہزاروں کی تعداد میں شریک تھے، ہر طرف چہل پہل کا ماحول تھا، مختلف علماء کرام نے اپنے مواعظ سے نوازا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی نے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے بہت سے اساتذہ شریک ہوئے اور ان کے ایک نمائندہ نے مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کی تعلیم کے حوالے سے مفید گفتگو کی۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے مدارس کے بارے میں حکومتی رویہ اور مختلف مدارس پر پولیس کے چھاپوں کے حوالے سے گفتگو کی اور وفاق المدارس کے موقف اور پالیسی کی وضاحت کی۔ راقم الحروف نے دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے تعلیمی دائروں میں فرق کا ذکر کیا اور گزارش کی کہ دونوں دائروں کی سوسائٹی کو ضرورت ہے اور ایک مسلم سوسائٹی کے لیے ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر تعلیمی شعبہ کی اہمیت و افادیت کو اپنے اپنے درجے میں تسلیم کرتے ہوئے باہمی ربط و تعاون کو بڑھایا جائے اور ایک دوسرے سے استفادہ کا ماحول پیدا کیا جائے، کیونکہ اسی طرح ہم اپنے کام اور محنت کو معاشرے میں مؤثر بنا سکتے ہیں اور ملی و دینی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter