مجھے شعر و شاعری کے ساتھ ایک سامع اور قاری کی حیثیت سے زیادہ کبھی دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہی عروض و قافیہ کے فن سے آشنا ہوں۔ تاہم شاید یہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا کرشمہ ہے کہ گزشتہ روز گلاسگو میں ان کی وفات کی خبر ملی تو طبیعت بہت بے چین رہی۔ گلاسگو سے لندن واپس آتے ہوئے دورانِ سفر جذباتِ غم مندرجہ ذیل اشعار کی صورت اختیار کر گئے جو میری زندگی کی پہلی کاوش ہے۔ اہلِ فن سے معذرت کے ساتھ یہ منظوم جذباتِ غم پیش خدمت ہیں۔
آہ! رخصت ہوا شیخ درخواستیؒ
وہ جو لاریب تھا منبعِ راستی
جس کے ہونٹوں پہ ہر دم تھا ذکرِ نبیؐ
اور آنکھوں میں یادِ خدا کی نمی
جس کی باتوں میں خوشبو صداقت کی تھی
اور کردار میں ضو شرافت کی تھی
تھا پلاتا وہ عشقِ پیمبرؐ کا جام
اور سناتا ہر اک کو خدا کا کلام
گنبدِ سبز ہر دم تصور میں تھا
اور اس کے سوا ہر تخیل حرام
اس کی خلوت تھی جلوت کی آئینہ دار
ہر جگہ اس کے لب پہ رہا ذکرِ یارؐ
ذکرِ اسلافؒ سے تر تھی اس کی زباں
فکرِ حق دہلویؒ کا تھا وہ ترجماں
شیخ احمد علیؒ کا تھا وہ جانشیں
دین پور کی وہ تاریخ کا تھا امیں
نیم بسمل رہا فکرِ اسلام میں
گزری ساری عمر حق کے پیغام میں
وہ عبید اللہ سندھیؒ کی سوچیں لیے
شمعِ احساس ہر دم جلاتا رہا
وہ نفاذِ شریعت کا پیغامِ حق
حکمرانوں کو پیہم سناتا رہا
کفر و باطل کی ہر ایک تحریک پر
وہ تڑپتا رہا پیچ کھاتا رہا
اہلِ حق کی محافل سجاتا ہوا
درد اور کرب کی لو لگاتا ہوا
ملے دیں کو غلبہ کسی طور پر
بس اسی فکر میں دل جلاتا رہا
چل دیا خلد کو پیکرِ آگہی
غمزدہ ہے بہت زاہد الراشدی