پیر محسن الدین احمدؒ اور فرائضی تحریک

   
۱۴ ستمبر ۱۹۹۷ء

چند روز قبل لندن سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ بنگلہ دیش کے معروف روحانی پیشوا پیر محسن الدین احمد ضلع فرید پور میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پیر صاحبؒ ہمارے محترم بزرگ تھے جو ایک عرصہ تک جمعیت علماء اسلام مشرقی پاکستان کے امیر رہے ہیں، وہ متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کے رکن تھے اور مرحوم صدر محمد ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کی نمائندگی کرنے والے دوسرے بزرگ تھے۔ لیکن اس سے ہٹ کر ان کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ بنگال میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہد خاندان سے ان کا تعلق تھا، جو ودود میاں کا خاندان کہلاتا ہے اور جس کی بپا کی ہوئی تحریکِ آزادی کو تاریخ کے صفحات میں ’’فرائضی تحریک‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

فرائضی تحریک کے بانی حاجی شریعت اللہؒ ہیں، جو سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے معاصر تھے۔ انہوں نے اسی دور میں بنگال کے غریب کسانوں کو ہندو جاگیرداروں اور انگریز نوآبادکاروں کے خلاف منظم کرنا شروع کیا تھا، جس زمانے میں شہدائے بالاکوٹ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ کے طور پر ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں سے نبردآزما تھے۔ حاجی شریعت اللہؒ نے غریب کسانوں کو ہندوانہ رسوم و خرافات سے نکال کر اسلامی احکام و فرائض کی بجاآوری کی طرف مائل کیا، عقیدہ توحید پر پختگی کے ساتھ ساتھ فرائض شرعیہ کی بجاآوری پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے، اس لیے ان کی تحریک ’’فرائضی تحریک‘‘ کے نام سے متعارف ہوئی۔ حاجی صاحبؒ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر انگریز حکمرانوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، اور ان کی تحریک پر کسانوں نے ہندو جاگیرداروں اور انگریز حکمرانوں کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا، حتیٰ کہ باقاعدہ تصادم تک نوبت پہنچی۔ حاجی صاحبؒ کے خلاف مقدمات قائم ہوئے، مگر کوئی شخص ان کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے کوئی مقدمہ فیصلہ تک نہ پہنچ سکا۔

حاجی صاحبؒ کا انتقال ۱۸۴۰ء میں ہوا اور ان کے بعد اس تحریک کی قیادت ان کے فرزند پیر محمد محسنؒ نے سنبھالی، جو ودود میاں کے نام سے متعارف ہوئے، انہوں نے بہت تھوڑی عمر پائی، حاجی شریعت اللہؒ کی وفات کے وقت ودود میاں کی عمر بائیس سال بتائی جاتی ہے، اور ۲۴ ستمبر ۱۸۶۲ء کو کم و بیش چوالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا، لیکن اس باہمت نوجوان نے فرا ئضی تحریک کی قیادت اس شان سے کی کہ انگریز حکمرانوں اور ہندو جاگیرداروں کو خطرہ ہو گیا کہ بنگال کا پورا مشرقی علاقہ (موجودہ بنگلہ دیش) ان کی گرفت سے نکل جائے گا۔ چنانچہ ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر ویمپر کی رپورٹ کے مطابق ودود میاں نے اپنے ۔۔۔۔۔ کے قریب سرگرم کارکن جمع کر لیے تھے، اور عام تاثر یہ تھا کہ وہ انگریزوں کو بنگال سے نکال کر وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی بنا پر مذکورہ پولیس افسر نے فرائضی تحریک کو خلافِ قانون قرار دینے اور ودود میاں کو نظربند کر دینے کی سفارش کی تھی۔

۱۸۵۷ء میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکے تو ودود میاں کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ مسلسل دو سال جیل میں رہے۔ انہوں نے براہ راست تصادم کی راہ اختیار کرنے کی بجائے غریب مسلمان کسانوں کو اس طرح منظم کیا کہ فرنگی حکمرانوں کے لیے انہیں قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا۔ ودود میاں کے زیرِاثر کسان حکومت کو ٹیکس مالیہ وغیرہ نہیں دیتے تھے، انہوں نے بے آباد سرکاری زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا، ودود میاں انگریز حکام اور ہندو جاگیرداروں کے مظالم کا شکار ہونے والے غریب لوگوں کا بھرپور دفاع کرتے تھے، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان کے درمیان جھڑپیں بھی ہو جاتی تھیں۔ ۱۸۶۲ء میں ودود میاں کے انتقال کے بعد تحریک کو اس درجہ کی قیادت نہ ملی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ برطانوی بادشاہت نے پورے برصغیر پر اپنا تسلط قائم کر لیا، جس کی وجہ سے تحریک میں وہ جوش و خروش قائم نہ رہا، مگر ایک مذہبی حلقہ کے طور پر اس کے اثرات قائم رہے اور پیر محسن الدین احمدؒ اسی تحریک کی آخری نشانی تھے۔

پیر محسن الدین احمدؒ جمعیت علماء اسلام مشرقی پاکستان کے امیر اور قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر اکثر مغربی پاکستان آتے رہتے تھے، ان سے متعدد مجالس میں ملاقاتیں ہوئیں۔ سنجیدہ اور صاف گو عالمِ دین تھے اور دوٹوک بات کہنے کے عادی تھے۔ مشرقی پاکستان پر جنرل یحییٰ خان کے فوجی ایکشن سے بہت دل گرفتہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ حتیٰ کہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں صاف طور پر کہہ دیا کہ ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے، اب ہمارا ساتھ چلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا اس لیے وقت ضائع کرنے کی بجائے ہمیں اپنا راستہ الگ کر لینا چاہیے، چنانچہ اس کے بعد وہ جمعیت کے کسی اجلاس میں نہیں آئے۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دورِ حکومت میں وہ اسلام آباد آئے تھے۔ راقم الحروف کسی کام سے اسلام آباد میں تھا، معلوم ہوا کہ پیر محسن الدین احمدؒ تشریف لائے ہوئے ہیں اور فلاں ہوٹل میں قیام پذیر ہیں، ملاقات کے لیے حاضر ہوا، بڑی گرم جوشی سے ملے اور کہنے لگے کہ پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے آیا ہوں۔ کافی دیر تک گزرے دنوں کی باتیں کرتے رہے، پھر اس کے بعد ملاقات نہیں ہوئی۔

لندن میں میری طرح بنگلہ دیش سے بھی متعدد علماء موسم گرما میں آتے ہیں۔ میرا معمول بن گیا تھا کہ جس بنگلہ دیشی عالمِ دین سے ملاقات ہوتی پیر صاحبؒ کے بارے میں ضرور دریافت کرتا۔ ابھی گزشتہ ماہ برطانیہ کے شہر رچڈیل میں بنگلہ دیش کے علماء نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا تھا، جس کا مقصد بنگلہ دیش میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پس منظر میں تحریکِ ختم نبوت کے بارے میں علماء کی بریفنگ تھا، اور اس کے لیے انہوں نے راقم الحروف اور ختم نبوت سنٹر لندن کے ڈائریکٹر الحاج عبدالرحمٰن باوا کو دعوت دے رکھی تھی۔ اس موقع پر بھی بنگالی علماء کرام سے پیر محسن الدین احمدؒ کے بارے میں دریافت کیا، معلوم ہوا کہ بیمار ہیں اور اس کے چند دنوں بعد ان کے انتقال کی خبر آئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، نیکیاں قبول کریں، گناہوں کی معافی دیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter