تین خوشیاں اور ایک تمنا!

   
تاریخ : 
۲۸ فروری ۲۰۱۲ء

آج میں خوش ہوں اور اس خوشی میں اپنے قارئین کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔ آج کے اخبارات اس وقت میرے سامنے ہیں اور میری نظریں تین خبروں کا مسلسل طواف کر رہی ہیں۔ ایک خبر بہاولپور میں جمعیۃ علماء اسلام کے عظیم الشان جلسہ عام سے مولانا فضل الرحمان کے خطاب کی ہے، دوسری خبر کوئٹہ میں دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے بارے میں مولانا سمیع الحق کی پریس کانفرنس کے حوالے سے ہے، اور تیسری خبر ایوان اقبال لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی پچاسویں سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس کی ہے۔ ان تین خبروں کو میں باری باری اور بار بار پڑھ رہا ہوں کہ مجھے آج دیوبندیت قومی و ملی محاذ پر متحرک نظر آرہی ہے اور دیوبندی قیادت مختلف شعبوں میں پوری طرح ’’فارم‘‘ میں دکھائی دے رہی ہے۔ اس پر مجھ سے زیادہ کون خوش ہوگا چنانچہ اس کے اظہار کے لیے میں نے بے ساختہ قلم ہاتھ میں لے لیا ہے اور اپنے قارئین کو مایوسی اور بے دلی کے ماحول سے نکلنے کی دعوت دے رہا ہوں۔

مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعیۃ علماء اسلام (ف) ملک بھر میں کامیاب عوامی اجتماعات منعقد کر کے عالمی رائے عامہ کے اس مغالطہ کو دور کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے کہ پاکستان کے عوام خدانخواستہ اسلام کے نعرے سے اکتا گئے ہیں اور شاید پاکستان کو اسلام کے لاحقہ سے الگ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بہت سے بین الاقوامی حلقے کچھ عرصہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں انہوں نے بزعم خود اسلامی قوتوں کو کارنر کر دیا ہے اور افغانستان کی جنگ کے غبار میں پاکستان کے نظریاتی پس منظر اور اس کی جغرافیائی وحدت کا نقشہ شاید دھندلا گیا ہے۔ مگر اب ملک کے مختلف حصوں میں جمعیۃ علماء اسلام کی بھرپور ’’اسلام زندہ باد کانفرنسیں‘‘ عالمی سیکولر لابیوں کے اس خواب کو پریشان کر رہی ہیں اور انہیں خود اپنی محنت ان کامیاب جلسوں کی دھول میں غائب ہوتی نظر آنے لگی ہے، اللھم زد فزد۔

بہاولپور کی اسلام زندہ باد کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کا یہ انتباہ وقت کی آواز اور ضرورت ہے کہ ایجنسیاں سیاست میں مداخلت بند کر دیں ورنہ ٹکراؤ ہوگا۔ اور ان کا یہ اعلان بھی امریکی قیادت کے لیے پاکستانی عوام کا صحیح پیغام ہے کہ امریکی کانگریس نے بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی قرارداد پاس کی تو ہم بھی ان چھ امریکی ریاستوں کی آزادی کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں جن کی اسمبلیوں نے یہ قرارداد پاس کر رکھی ہے کہ وہ امریکی وفاق سے الگ ہو کر خودمختار ریاستوں کی حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو شاید سانپ سونگھ گیا ہے کہ انہیں ان ریاستوں کے عوام کا حق خودارادیت یاد نہیں آرہا اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی تنظیم ان کے اس جائز مطالبہ کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ راقم الحروف نے دو سال قبل اس سلسلہ میں ایک تفصیلی رپورٹ پڑھی تھی لیکن اس کے بعد ذہن میں نہیں رہا، آج مولانا فضل الرحمان نے بہاولپور کے خطاب میں وہ رپورٹ پھر سے یاد دلا دی اور یہ بات اطمینان کا باعث بنی کہ امریکی کانگریس میں بلوچستان کی خودمختاری کے بارے میں قرارداد پیش کرنے والے رکن کانگریس کو پاکستان کی رائے عامہ بالخصوص دینی سیاست کے ایک اہم قائد کی طرف سے اس قرارداد کے جواب میں بروقت اور صحیح میسج مل گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا یہ اعلان بھی ملک کے محب وطن اور اسلام دوست عناصر کے لیے حوصلہ افزا ہے کہ پاک سرزمین پر مغربی تہذیب کو نہیں ابھرنے دیں گے اور ایسا کرنے والوں کو گلیوں میں گھسیٹا جائے گا۔

ادھر کوئٹہ کی پریس کانفرنس میں مولانا سمیع الحق کا یہ اعلان ملک بھر کے عوامی جذبات کی ترجمانی ہے کہ امریکہ نے بلوچستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو جہاد کا اعلان کریں گے۔ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں دفاع پاکستان کونسل ملک و قوم کے ایک اہم مورچے کو سنبھالے ہوئے ہے اور ملک بھر میں کامیاب عوامی جلسے منعقد کر کے یہ مشترکہ محاذ حکمرانوں کو خبردار کر رہا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا اور حکومت پاکستان کو بالآخر ڈرون حملوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

بلوچستان کے عوام ایک عرصہ سے بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں، بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بلوچ عوام پاکستان کی سیاست کے ڈھانچے میں اپنے موجودہ مقام اور حیثیت سے مطمئن نہیں ہیں۔ ریاست قلات کا صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق ہوا تھا، قلات کے سردار جناب محمد داؤد خان بین الاقوامی فورموں پر اپنا مقدمہ لیے گھوم رہے ہیں کہ جس معاہدہ کے تحت قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا تھا اس کی پاسداری نہیں کی جا رہی اس لیے ان کے بقول اب یہ معاہدہ مؤثر نہیں رہا۔ اس معاہدے کی ایک شق تو ہمیں بھی یاد ہے کہ قلات کی ریاست میں شرعی عدالتوں کا نظام برقرار رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا اور اب قلات کے عوام پھر سے خواہش کر رہے ہیں کہ پیچیدہ اور مہنگے انگریزی عدالتی نظام کی جگہ انہیں ان کا پرانا شرعی عدالتی نظام واپس کر دیا جائے اور اس معاہدے کی پاسداری کی جائے جو پاکستان کے ساتھ قلات کے الحاق کے وقت کیا گیا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب محمد اکبر بگٹی کے المناک قتل پر بھی بلوچ عوام سخت غصے میں ہیں اور ان کا یہ غصہ کسی طرح کم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ متعدد بلوچ لیڈر نہ صرف حکومت پاکستان سے جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ ازخود بھی انہوں نے پرویز مشرف کے قتل کے لیے ان کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں غیر ملکی لابیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھا جائے اور بعض بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے پاکستان کے مستقبل کے مبینہ نقشہ پر نظر ڈال لی جائے جس میں مستقبل کا پاکستان صرف پنجاب اور سندھ کو دکھایا جا رہا ہے تو معاملہ کی سنگینی اور نزاکت اور بڑھ جاتی ہے۔

اس پس منظر میں دفاع پاکستان کونسل کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے کہیں زیادہ یہ بات اہم ہے کہ اس میں قوم پرست بلوچ راہنما بھی شریک ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دن ایک دوست نے مجھ سے اس آل پارٹیز کانفرنس کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک ملک کے مذہبی قائدین کے ساتھ بلوچ قوم پرست راہنماؤں کا مل بیٹھنا ہی اس کانفرنس کی کامیابی شمار ہوگا اور اگر کوئی مزید پیشرفت ہوتی ہے تو میرے خیال میں وہ اس کانفرنس کی مزید کامیابیوں میں سمجھی جائے گی۔

ایوان اقبال لاہور کی ’’فتح مباہلہ کانفرنس‘‘ میں مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے پچاس برس قبل اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور اس وقت کی چار بڑی جماعتوں جمعیۃ علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، تنظیم اہل سنت پاکستان اور جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ کے راہنماؤں کی طرف سے نمائندگی کے باضابطہ خطوط کے ساتھ وہ میدان میں آئے تھے، مگر قادیانی سربراہ نے میدان میں آنے سے گریز کیا۔ اس کے بعد مولانا چنیوٹیؒ ہر سال ۲۶ فروری کو قادیانی گروہ کے اس وقت کے سربراہ کو دعوت مباہلہ دیتے آرہے ہیں مگر کسی کو بھی یہ چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ مولانا چنیوٹیؒ کی وفات کے بعد ان کے فرزند و جانشین مولانا محمد الیاس چنیوٹی اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ہر سال ۲۶ فروری کو چنیوٹ میں فتح مباہلہ کانفرنس منعقد کر کے قادیانی امت کے سربراہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت یا پھر مباہلہ کے لیے میدان میں آنے کا چیلنج دیتے ہیں۔ اس سال اس معرکہ کے آغاز کو پچاس سال مکمل ہونے پر یہ کانفرنس ایوان اقبال لاہور میں منعقد کی گئی جس کی صدارت انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی نے کی اور اس سے مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور سرکردہ مذہبی اور سیاسی قائدین کے علاوہ سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ نے بھی خطاب کیا اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی جدوجہد پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ میں تحریک ختم نبوت میں کامیاب جدوجہد پر مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور ان کے رفقاء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبالؒ کو خراج عقیدت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے نام سے منسوب ’’ایوانِ اقبال‘‘ میں یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ علامہ محمد اقبالؒ بھی تحریک ختم نبوت کے صف اول کے راہنماؤں میں سے ہیں اور آج کے عالمی فلسفہ و ماحول کے تناظر میں قادیانیت کو بے نقاب کرنے میں ان کا کردار سب سے نمایاں ہے۔

بہرحال ایک دن میں یہ تین خبریں میرے لیے خوشی کا باعث بنی ہیں اور میں اپنے قارئین کو اس دعا کی درخواست کے ساتھ اس میں شریک کر رہا ہوں کہ خدا کرے ہم ان الگ الگ مورچوں کو کسی دن ایک مشترکہ محاذ کی شکل میں بھی دیکھ پائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter