عورتوں کے حقوق، آج کی دنیا کے موضوعات میں سے ایک بہت اہم موضوع ہے۔ اسلام میں عورت کو رائے دینے کا حق ہے یا نہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے یا نہیں، اسے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں یا نہیں اور یہ کہ عورت کو معاشرے کے اندر عام زندگی کے معاملات میں شرکت کا مساوی موقع ملنا چاہیے یا نہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے کئی پہلوؤں پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میں چند ایک ضروری نکات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین سنت کے چند واقعات کے حوالے سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
زندگی کا حق
ہمارے ہاں ’’دیوان حماسہ‘‘ کے نام سے عربی ادب کی ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے، دینی اداروں کے نصاب میں بھی یہ کتاب ہے اور ایم اے عربی کے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل ہے۔ یہ عربی ادب کی کلاسیکل کتابوں میں سے ہے جس میں مختلف شعراء کا کلام ہے، اس میں ایک شاعر کا قصیدہ مذکور ہے جس کا ایک مصرعہ عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک عرب سردار سے کسی نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اسے یہ رشتہ مانگنا پسند نہ آیا، اس نے رشتہ مانگنے والے کو اشعار میں جواب دیا جن کا ایک مصرعہ یہ ہے:
کہ جب سے یہ نبی آیا ہے، دنیا میں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں۔
اس لیے مجھ سے رشتہ مانگنے کیوں آئے ہو، جاؤ کسی اور سے مانگو، اب تو رشتوں کی بہتات ہوگئی ہے۔ یعنی اس عرب سردار کا دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کی طرف اشارہ تھا جو رسول اللہؐ نے آکر عرب معاشرے میں سے ختم کر دی تھی۔ اکثر عرب قبائل میں یہ رواج تھا کہ لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’واذا بشر احدھم بالانثٰی ظل وجھہ مسودًا وھو کظیم‘‘ (سورۃ النحل ۵۸) اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے یہ رسم بد ختم کی اور عورت کے لیے زندگی کا حق بحال کیا، اسلام نے عورت کو زندہ رہنے کا حق دلوایا۔
عرب کے بڑے شعراء میں سے ایک شاعر ہیں فرزدق، ان کے دادا صعصعہ اپنا واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا اونٹ گم ہوگیا تو میں اس کی تلاش میں جنگل کی طرف نکل گیا، اتنے میں رات ہوگئی۔ میں ایک خیمے کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ سردی سے بچنے کے لیے ایک آدمی آگ سینک رہا تھا، میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اسے بتایا کہ میرا اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی تلاش میں رات ہوگئی ہے اس لیے میں آج رات تمہارے پاس ہی رہوں گا اور پھر کل نکل کر پھر اپنے اونٹ کو تلاش کروں گا۔ لیکن تم یہاں باہر کیوں بیٹھے ہو؟ اس نے کہا کہ میری بیوی اندر خیمے میں ہے جس کے ہاں ولادت متوقع ہے اور میں یہاں باہر اس کا انتظار کر رہا ہوں۔صعصعہ کہتے ہیں کہ میرے بیٹھے بیٹھے اس نے اندر آواز دی کہ اگر بیٹا پیدا ہوا تو مجھے بتانا لیکن اگر بیٹی ہوئی تو خیمے کے پچھلے دروازے سے نکل کر اسے گڑھے میں دبا دینا۔ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے آواز آئی کہ بچی پیدا ہوئی ہے۔ صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ یہ لوگ تو اس بچی کو زندہ دفن کر دیں گے، میں نے اس آدمی پیشکش کی کہ اگر تم یہ بچی مجھے دے دو تو میں اس کے عوض تمہیں ایک اونٹ دوں گا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اونٹ کے عوض بچی بیچ دی۔ صعصعہ کہتے ہیں کہ میں اس بچی کو لے کر آگیا اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایسی بات ڈالی کہ جہاں کہیں مجھے پتہ چلتا کہ کسی خاندان میں بچی ہوئی تو وہ اسے دفن کر دیں گے میں جا کر اونٹ کے عوض بچی لے آتا۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو میری حویلی میں تین سو بچیوں کی پرورش ہو ری تھی۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات اب بھی ہے کہ بچے کی ولادت پر جیسی خوشی ہوتی ہے بچی کی ولادت پر ویسی خوشی نہیں ہوتی۔ میں نے کچھ عرصہ قبل یہ خبر پڑھی کہ انڈین گورنمنٹ نے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعہ ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس معلوم کرنے پر پابندی لگا دی، اس لیے کہ جب شادی شدہ جوڑے کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ بچی پیدا ہوگی تو وہ حمل گرا دیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھیں کہ رسول اللہؐ کے گھر میں کوئی بیٹا جوان نہیں ہوا جبکہ بیٹیاں ساری جوان ہوئیں اور سب کی شادیاں ہوئیں۔ حضورؐ نے ان کی پرورش کر کے دنیا کو دکھایا کہ بچیوں کے ساتھ معاملہ کیسے کیا جاتا ہے۔ حضورؐ کے ہاں بیٹے پیدا ہوئے لیکن بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ بچیاں سب جوان ہوئیں حضورؐ نے ان کے ناز اٹھائے اور یہ بتایا کہ بچیوں کے سر پر دستِ شفقت کیسے رکھا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت تھی کہ اس معاشرے میں جہاں بچیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں وہاں اللہ کے پیغمبر کے گھر میں چار بچیوں کی پرورش کر کے اور ان کی شادیاں کر کے ایک نمونہ قائم کیا کہ لڑکیاں اس سلوک کی مستحق ہوتی ہیں۔ حضورؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب آپؐ سے ملنے آتے تھے تو آپؐ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور ان کو بٹھانے کے لیے اپنی چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ حضرت رقیہ جب سختؓ بیمار تھیں تو رسول اللہؐ نے حضرت عثمانؓ کو جنگ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اور حکم دیا کہ گھر میں اپنی اہلیہ کی تیمارداری کرو۔ حضورؐ نے دنیا کو یہ نمونہ دکھایا کہ بچی اور باپ کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔
تعلیم کا حق
جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ‘‘ کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازمی ہے۔ حصولِ علم کی اہمیت مرد و عورت کے لیے یکساں ہے۔ جناب رسول اللہؐ سے مرد و عورت دونوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر دونوں نے آگے امت تک یہ علم منتقل کیا۔ محدثین کرام جب روایات بیان کرتے ہیں تو مرد اور عورتوں کی روایات کو یکساں حیثیت دیتے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یعنی جو درجہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روایت کا ہے وہی درجہ ان کی بیٹی حضرت عائشہؓ کی روایت کا بھی ہے، اور جو درجہ حضرت عمرؓ کی روایت کا ہے وہی درجہ ان کی بیٹی حضرت حفصہؓ کی روایت کا بھی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں خواتین نے جس طرح تعلیم حاصل کر کے آگے دوسروں کو تعلیم دی حضرت عائشہؓ اس کی بہترین مثال ہیں۔ حضرت عائشہؓ براہ راست جناب رسول اللہؐ کی شاگرد تھیں، حضورؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کے جو بڑے بڑے علمی مراکز قائم ہوئے ان میں ایک بڑا علمی مرکز حضرت عائشہؓ کا بھی تھا۔ حضرت عائشہؓ نے حضورؐ کی رحلت کے بعد تقریباً چالیس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ جاری رکھا، ان کا علمی مقام یہ تھا کہ وہ خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی فتویٰ دیا کرتی تھیں اور بڑے بڑے صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ پر نقد کیا کرتی تھیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جو خود فقیہ ہیں اور حدیث کے بڑے راویوں میں سے ہیں، فرماتے ہیں ’’ما اشکل علینا اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم قط الا وجدنا فیہ عندھا علمًا‘‘ کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم صحابہ کسی مشکل میں پھنسے ہوں اور حضرت عائشہؓ کے پاس راہنمائی اور علم نہ ملا ہو۔
اسلامی تاریخ میں تعلیم و تعلم کے حوالے سے، معاملات میں راہنمائی کے حوالے سے اور لوگوں تک علم پہنچانے کے حوالے سے خواتین کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ حضرت امام مالک بن انسؒ کی بیٹی اس مقام کی محدثہ تھیں کہ وہ اپنے والد کی درسگاہ کے ایک طرف پردے کے پیچھے بیٹھی ہوتی تھیں اور جب امام صاحبؒ کے شاگرد پڑھنے میں کوئی غلطی کر جاتے، جو امام مالکؒ کی توجہ میں نہ آتی، تو ان کی بیٹی پردے کے پیچھے سے تپائی پر ہاتھ مار کر ان کو توجہ دلاتی کہ پڑھنے والے سے غلطی ہوگئی ہے لہٰذا دوبارہ پڑھوایا جائے۔ اسی طرح حضرت امام شافعیؒ کی والدہ ایک مقدمہ میں بطور گواہ پیش ہوئیں، ان کے ساتھ ایک دوسری عورت گواہ بھی تھی۔ مقدمے کے دوران قاضی نے کہا کہ میں تم دونوں سے الگ الگ گواہی لوں گا تا کہ میں جان سکوں کہ تمہارے بیانات آپس میں ملتے ہیں۔ امام شافعیؒ کی والدہ نے قاضی سے کہا کہ قرآن کی رو سے آپ ایسا نہیں کر سکتے اس لیے کہ قرآن نے دو عورتوں کی گواہی کی وجہ ہی یہ بتائی ہے کہ ’’ان تضل احدٰھما فتذکر احدٰھما الاخرٰی‘‘ (سورۃ البقرہ ۲۸۲) تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کرادے۔ چنانچہ ہمارے اچھے زمانوں میں عورتوں کے علم کا یہ معیار ہوتا تھا کہ ایک خاتون عدالت کے اندر قاضی کے سامنے قرآن کریم سے دلیل پیش کر کے اسے اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، انہوں نے اسلامی تاریخ میں سے تقریباً آٹھ ہزار محدثات کے حالات قلمبند کیے ہیں۔ یہ الوفاء فی اخبار النساء کے نام سے چالیس جلدوں پر مشتمل کتاب ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور مسلم تاریخ میں تعلیم و تعلم کے حوالے سے عورتوں کا کیا کردار رہا ہے۔
رائے کا حق
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہماری گھریلو عورتوں کو رائے دینے کا اور کسی معاملے میں آواز اٹھانے کا حق نہیں ہوتا تھا۔ ہم مرد جو فیصلہ کر دیتے تھے بس وہی آخری ہوتا تھا ، عورت سے اس کے متعلق کوئی مشورہ نہیں لیا جاتا تھا۔ لیکن جب ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہاں کا ماحول ذرا مختلف تھا، یہاں عورتیں گھر کے معاملات میں رائے دیا کرتی تھیں کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہونی چاہیے۔ خاوند کوئی غلط بات کرتا تھا تو بیوی خاوند کو ٹوک دیتی تھی کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری بیوی نے گھر کی کسی بات پر مجھے ٹوک دیا کہ یہ بات ایسے نہیں بلکہ ویسے ہونی چاہیے۔ فرماتے ہیں کہ میں تو ہکا بکا رہ گیا کہ یہ کیا ہوگیا، میں نے کہا کہ تمہارا س سے کیا تعلق ہے کہ تم مجھے مشورہ دے رہی ہو اور مجھے ٹوک رہی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ میرا بھی یہ حق ہے کہ میں معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کروں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ عورتوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ رائے اور مشورہ دیں۔ فرماتے ہیں کہ اس پر میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ حضرت میرے ساتھ ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ایسا تو رسول اللہؐ کے گھر میں ہوتا ہے۔ حضورؐ کی ازواج مطہرات حضورؐ کو مشورہ بھی دیتی ہیں اور آپؐ کو معاملات میں جواب بھی دیتی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا اَزواجِ مطہرات حضورؐ کو جواب بھی دیتی ہیں! ان کی اہلیہ نے کہا کہ ہاں بالکل۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں وہاں سے اٹھا اور بھاگا بھاگا اپنی بیٹی اور حضورؐ کی زوجہ حضرت حفصہؓ کے پاس پہنچ گیا۔ پوچھا کہ حفصہ! میں نے سنا ہے کہ تم گھر میں رسول اللہؐ کو مشورہ بھی دیتی ہو اور کسی معاملے میں جواب بھی دیتی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہاں ساری ازواج ایسا کرتی ہیں۔ اب حضرت عمرؓ کے ذہن میں ایک بات تو یہ تھی مکہ مکرمہ میں عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں، دوسری بات یہ ذہن میں تھی کہ ان کے خاوند تو رسول اللہؐ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ بیٹی ! ایسا نہ کیا کرو تم شاید عائشہؓ کو دیکھ کر ایسا کرتی ہو، عائشہؓ کی بات اور ہے ایسا نہ ہو کہ حضورؐ تم سے ناراض ہو جائیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ حضرت عائشہؓ کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا ازواج ایسا کرتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہاں ایسا ہوتا ہے کبھی حضورؐ ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں کبھی ہم میں سے کوئی حضورؐ سے ناراض ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضورؐکی اہلیہ ام سلمہؓ کے پاس گیا، حضرت ام سلمہؓ حضرت عمرؓ کی کزن بھی تھیں اور نسبتاً بڑی عمر کی سمجھدار خاتون تھیں۔ حضرت عمرؓ نے سوچا کہ ان سے ذرا سنجیدگی سے بات کرتا ہوں، حضرت عمرؓ نے ام سلمہؓ سے پوچھا کہ مجھے یہ شکایت ملی ہے اور میرے لیے یہ ایک نئی بات ہے کیا ایسا ہوتا ہے؟ انہوں نے تصدیق کی کہ ہاں ایسا ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ خدا کی بندیو! ایسا مت کیا کرو۔ ام سلمہؓ الٹا حضرت عمرؓ سے جھگڑ پڑیں اور کہنے لگیں عمر! تم ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہو، اب میاں بیوی کے معاملے میں بھی دخل اندازی کرنے آگئے ہو۔ ہم جانیں اور حضورؐ جانیں، تمہارا اِس میں کیا کام ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں وہاں سے اٹھا اور جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج تو میرے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب سارا قصہ سنایا تو حضورؐ خاموشی سے سنتے رہے اور جب حضرت عمرؓ نے یہ بتایا کہ ام سلمہؓ نے تو مجھے ڈانٹ دیا ہے تو حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ آخر ام سلمہؓ ہے۔
اسلام نے دورِ جاہلیت کے عرب معاشرے کی حالت کیسے بدلی اور نبی کریمؐ نے اپنے اصحابؓ کی تعلیم و تربیت کس انداز سے کی۔ یہی حضرت عمر فاروقؓ جو فرماتے تھے کہ عورت کے لیے رائے کا حق ماننا میرے لیے حیرانگی اور تعجب کی بات تھی، انہی کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں ایک واقعہ نقل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجد نبوی میں جمعے کے خطبے کے دوران ایک اعلان فرمایا کہ آج کل لوگ شادی میں مہر کے لیے بڑی بڑی رقمیں مقرر کرنے لگ گئے ہیں، بعد میں لوگ یہ رقمیں ادا نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے میاں بیوی کے تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور آپس میں جھگڑوں کی نوبت آجاتی ہے، اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ کسی شادی میں چار سو درہم سے زیادہ مہر کی رقم مقرر نہ کی جائے۔
یہ مسئلہ آج کے دور میں بھی ایک پریشان کن مسئلہ ہے کہ لوگ شادی کے وقت تو جوش و خروش میں مہر کی بڑی بڑی رقمیں مقرر کر لیتے ہیں لیکن بعد میں جب ادائیگی کی باری آتی ہے تو مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں پاکستان کے ماحول میں ایسی صورتحال سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے ایک جگہ نکاح پڑھاتے وقت پوچھا کہ بھئی مہر کی رقم کیا مقرر کی ہے؟ کہنے لگے کہ وہی شرعی مہر بتیس روپے چھ آنے۔ میں نے کہا خدا کے بندو! یہ شرعی مہر تم لوگوں نے کہاں سے نکال لیا۔ فیصل آباد سے بارات آئی تھی، میں نے دولہے سے پوچھا کہ بارات کے ساتھ کتنی گاڑیاں لائے ہو؟ کہنے لگا کہ پانچ فلائنگ کوچز لے کر آیا ہوں۔ میں نے پوچھا انہیں کتنے پیسوں میں بُک کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ گیارہ ہزار روپے میں۔ میں نے کہا اللہ کے بندے اس غریب دلہن کو کم از کم دس ہزار روپے مہر تو دو۔ ہمارے ہاں شادی کی غیر ضروری رسموں پر لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں لیکن دلہن بیچاری کو دینے کے لیے نہ جانے کس شریعت کی رو سے بتیس روپے چھ آنے کا مہر مقرر کرتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ کوئی شرعی مہر نہیں ہے، شرعی مہر تو لڑکے کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے۔ مہرکا اصول یہ ہے کہ اس کی رقم لڑکے پر بوجھ نہ ہو اور لڑکی کے لیے باعثِ عار نہ ہو، یعنی لڑکے کو قرض لے کر نہ دینا پڑے اور لڑکی کے لیے اس کی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے سامنے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔
ایک اور شادی میں ایسا ہوا کہ نکاح پڑھاتے وقت میں نے پوچھا کہ کتنا مہر مقرر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو لاکھ روپے۔ میں اس خاندان کو جانتا تھا کہ لڑکے کی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ وہ دو لاکھ روپیہ دے سکے۔ میں نے اس کے والد سے بات کی کہ اتنا زیادہ مہر مقرر کر رہے ہو لڑکا کیسے دے گا؟ باپ کہنے لگا ’’اللہ کولوں خیر منگو، اساں کیڑا دینا اے‘‘ (اللہ سے خیر مانگیں، ہم نے کونسا اتنا مہر دینا ہے) ۔ میں نے کہا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے ذہن میں یہ تھاکہ مہر تب ادا کرنا پڑتا ہے جب بیوی کو طلاق دینی ہو۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ مہر تب دینا ہوتا ہے جب جھگڑا ہو جائے اور طلاق کی نوبت آجائے۔ میں نے کہا کہ بھئی مہر کا تعلق طلاق سے نہیں بلکہ نکاح سے ہے، نکاح ہوجائے اور میاں بیوی گھر میں آباد ہوجائیں تو مہر واجب ہو جاتا ہے۔ مہر کی حیثیت قرضے کی ہے، جس طرح کسی سے لیا ہوا قرضہ واپس کرنا ضروری ہے اسی طرح بیوی کا مہر ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ فقہاء نے مسئلہ لکھا ہے کہ اگر خاوند فوت ہو جائے اور اس نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہوا تو ترکہ میں سے جو قرضہ ادا ہوگا اس میں سے مہر بھی ادا ہوگا اور بیوی کو وراثت سے جو حصہ ملے گا وہ مہر کی رقم کے علاوہ ہوگا۔
خیر بات دور نکل گئی، حضرت عمر فاروقؓ نے حکم نامہ جاری کر دیا کہ آج کے بعد چار سو درہم سے زیادہ کوئی مہر کی رقم مقرر نہ کرے۔ درہم ساڑھے تین ماشے چاندی کا سکہ ہوتا تھا، پاکستان میں آج کل کے ریٹ کے حساب سے چار سو درہم کی رقم کا اندازہ کر لیا جائے۔ جمعہ پڑھ کر باہر نکلے تو قریش کی ایک عورت نے حضرت عمرؓ کو روک لیا اور پوچھا، امیر المؤمنین آپ نے مہر کی رقم پر پابندی لگا دی ہے۔ فرمایا ہاں لگا دی ہے۔ اس نے پوچھا کہ آپؓ نے یہ فرمایا ہے کہ چار سو درہم سے زیادہ کسی عورت کو مہر نہ دیا جائے۔ فرمایا ہاں میں نے یہ کہا ہے۔ اس عورت نے کہا آپ کو اس کا اختیار کس نے دیا ہے کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ اندازہ فرمائیں کہ ایک عورت مسجد نبوی کے دروازے پر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کو ٹوک رہی ہے اور اپنی بات پر قرآن کریم کا حوالہ دے رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، خدا کی بندی! قرآن کریم میں یہ مسئلہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ قرآن کریم میں ہے اور میں آپ کو بتاتی ہوں۔ قرآن کریم میں ہے ’’فاٰتیتم احدٰھن قنطارًا فلا تاخذوا منہ شیئًا (النساء ۲۰) کہ اگر تم (خاوندوں) نے اپنی عورتوں کو انبار برابر رقم بھی دے دی ہے تو واپس نہ مانگنا شروع کر دو۔ اس آیت میں خاوند سے بیوی کو ملنے والی رقم کا ذکر کیا گیا ہے، خاوندوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اگر تم خاوندوں نے اپنی بیویوں کو ڈھیروں رقم بھی دے دی ہے تو اب واپس نہ مانگنا شروع کر دو، جو دے دیا بس دے دیا۔ عورت کہنے لگی ، امیر المؤمنین! قرآن کریم تو ہمیں خاوندوں سے ڈھیروں دلواتا ہے جبکہ آپ کہتے ہیں کہ چار سو درہم سے زیادہ مت دو۔
حضرت عمرؓ کی جو صفات بیان ہوتی ہیں ان میں سے ایک صفت یہ بھی آتی ہے کہ ’’کان وقافًا عند کتاب اللّٰہ‘‘ کہ قرآن کریم کا حکم سامنے آنے پر وہ فورًا رک جایا کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ انہی قدموں پر واپس مسجد نبوی میں گئے اور لوگوں کو بلایا کہ بھئی بات سنو۔ فرمایا کہ میں نے ابھی تمہارے سامنے یہ اعلان کیا تھا کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے، مجھے مسجد کے دروازے پر ایک خاتون نے روکا ہے اور قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیا ہے۔ خدا کی قسم اس آیت کی طرف میرا پہلے دھیان نہیں تھا اس عورت نے میری توجہ اس طرف دلائی ہے، وہ ٹھیک کہتی ہے جبکہ میرا اعلان غلط تھا ’’امرأۃ أصابت وأخطأ رجل‘‘ لہٰذا میں اپنا اعلان واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عمرؓ نے ایک جملہ ہنستے ہنستے دل لگی کے انداز سے فرمایاکہ اب تو مدینہ کی عورتیں عمر سے بھی زیادہ قرآن جاننے لگی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ اس زمانے میں عورت کی رائے کا اور عورت کے علم کا معیار کیا تھا کہ ایک عورت حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ راشد کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکتی تھی۔ آج کی عورت بھی یہ کر سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پاس علم اور دلیل ہو۔
شرعی حق
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بریرہؓ نامی ایک لونڈی آئی اور عرض کیا کہ میں نے اپنے مالک خاندان سے یہ سودا کیا ہے کہ اتنے پیسے مجھ سے لے لو اور مجھے آزاد کر دو۔ غلامی کے دور میں ایک طریقہ یہ بھی ہوتا تھا کہ غلام پیسے دے کر آزاد ہو جائے۔ بریرہؓ نے کہا کہ میرے مالک خاندان والے طے شدہ رقم قسطوں میں لے کر مجھے آزاد کرنے پر راضی ہیں۔ میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ میں خود بہت غریب ہوں اگر آپ میرے ساتھ کچھ تعاون فرماتی رہیں تو میں کچھ سالوں میں وہ قسطیں ادا کر کے آزاد ہو جاؤں گی۔ حضرت عائشہؓ نے دیکھا کہ لڑکی سمجھدار ہے اور اچھی ہے، عقلمند آدمی چہرے مہرے سے اور گفتگو سے اندازہ کر لیتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے بریرہؓ سے کہا کہ جاؤ اپنے خاندان والوں سے معلوم کرو کہ اگر میں سارے پیسے اکٹھے ادا کر دوں تو کیا وہ تمہیں مجھ پر بیچ دیں گے؟ میں تمہیں ابھی خرید کر آزاد کر دیتی ہوں۔ بریرہؓ پوچھ کر واپس آئی اور بتایا کہ وہ مجھے بیچنے پر راضی ہیں لیکن ان کی شرط یہ ہے کہ ’’وَلَا‘‘ ان کی ہوگی۔ وَلا وراثت کے درجات میں ایک آخری درجہ ہے۔ کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جس کا کوئی والی اور کوئی وارث نہ ہو، رشتہ داروں اور متعلقین میں ایسا کوئی بھی نہیں ہو جو وراثت کا حق دار بن سکے تو ایسے شخص کا ترکہ وراثت کے آخری درجہ وَلا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر وہ شخص آزاد کردہ غلام ہو تو پھر یہ وَلا اس کا حق ہوتی ہے جس نے اس غلام کو آزاد کیا ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وَلا کا معاملہ انہی لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جو کہیں سے غلام بنا کر لائے گئے ہوتے تھے اور ان کا کوئی رشتہ دار وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ بریرہؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ وہ مجھے سارے پیسے اکٹھے لے کر بیچنے پر راضی ہیں لیکن وہ حق الولاء مانگ رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب سارے پیسے میں دے رہی ہوں تو وَلا کا حق ان کا کیسے ہو سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے جناب نبی کریمؐ سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اس طرح میں لونڈی کو آزاد کرنے کے لیے پورے پیسے دے رہی ہوں لیکن وہ وَلا کا حق مانگ رہے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جس نے پیسے دے کر لونڈی کو خریدا ہے وَلا کا حق اسی کا ہے۔
یہ لونڈی بریرہؓ ایک شخص مغیثؓ کے نکاح میں تھی۔ لونڈی کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر لونڈی کے مالکان نے اس کا نکاح اپنی مرضی سے کہیں کر دیا ہو تو آزاد ہونے کے بعد اس کے پاس یہ اختیار آجاتا ہے کہ وہ یہ نکاح توڑ سکتی تھی۔ اسے فقہ کی اصطلاح میں خیارِ عتق کہتے ہیں۔ بریرہؓ لونڈی تھی ، اس لیے مالکوں نے اپنی مرضی سے مغیثؓ کے ساتھ اس کی شادی کر دی تھی۔ اب شادی میں عورت کی اپنی مرضی ہونی چاہیے جبکہ لونڈی ہونے کی وجہ سے بریرہؓ کا یہ حق استعمال نہیں ہوا تھا۔ جب حضرت عائشہؓ نے بریرہؓ کو آزاد کروایا تو بریرہؓ نے کہا کہ میں رہوں گی تو آپ کی خدمت میں ہی لیکن مغیثؓ کے ساتھ میں اپنا نکاح ختم کرتی ہوں۔ مغیثؓ کو پتہ چلا تو وہ بہت رنجیدہ ہوا، پہلے تو اس نے خود بریرہؓ سے بات کی پھر کسی سے سفارش کروائی لیکن وہ نہ مانی۔ کہا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، ایسا کرنا میرا حق تھا جو میں نے استعمال کیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ مغیثؓ مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا اور کہتا پھرتا تھا کہ کوئی ہے جو بریرہؓ سے میری سفارش کرے۔ عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہؐ بازار میں جا رہے تھے دیکھا کہ ایک طرف سے مغیث آرہا تھا، آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آواز لگائے جا رہا تھا کہ کوئی ہے جو بریرہؓ سے میری سفارش کر دے۔ حضورؐ نے عبد اللہ بن عباسؓ فرمایا اس کی محبت دیکھو اور اس کی نفرت دیکھو۔ اِس کا حال یہ ہے کہ اس کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے اور وہ اِس کا نام بھی سننا نہیں چاہتی۔ یہ منظر دیکھ کر جناب نبی کریمؐ نے خود سفارش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اب ذرا تصور کیجیے کہ بریرہؓ کون تھی? ایک آزاد کردہ لونڈی تھی، حضرت عائشہؓ کی خادمہ تھی اور انہی کے گھر میں رہتی تھی۔ اور اس سے سفارش کر رہے ہیں جناب رسول اللہؐ۔ کیا اس سے بڑی سفارش کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضورؐ نے بریرہؓ کو بلایا اور مغیثؓ کی بابت پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ بریرہؓ نے معاملہ بتایا اور پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا ایسا کرنا میرا حق تھا یا نہیں؟ فرمایا حق تو بہرحال تھا۔ بریرہؓ نے کہا کہ بس میں نے اپنا حق استعمال کیا۔ آپؐ نے فرمایا، نظر ثانی کی کوئی گنجائش ہے، کیا تم اس فیصلے سے رجوع کر سکتی ہو؟ بریرہؓ نے پوچھا، یا رسول اللہؐ! جو آپ فرما رہے ہیں یہ حکم ہے یا مشورہ؟ بریرہؓ بھی ایک صحابیہ تھی اور جانتی تھی کہ اگر آپؐ کا حکم ہے تو پھر کسی مسلمان کی یہ مجال نہیں کہ اس سے اعراض کر سکے، مرضی ہو یا نہ ہو، جی چاہے یا نہ چاہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ حکم نہیں ہے بلکہ مشورہ ہے۔ بریرہؓ نے کہا ’’لا حاجۃ لی فیہ‘‘ پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ذرا سوچیے کہ اسلام عورت کو رائے کا حق دیتا ہے یا نہیں۔ ایک عورت اپنی رائے کا حق کس ہستی کے سامنے استعمال کر رہی ہے اور کس شخصیت کا مشورہ رد کر رہی ہے۔اس کے بعد بھی بریرہؓ بطور خادمہ حضورؐ کے گھر میں اور حضرت عائشہؓ کی خدمت میں رہی لیکن حضورؐ نے کبھی یہ نہیں جتایا کہ بریرہؓ تم نے میری بات نہیں مانی۔ اسلام عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر اپنی رائے کا استعمال کرے، اس بات کا اس واقعہ سے بڑا مظاہرہ کیا ہو سکتا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے قرآن و سنت کی رو سے نہ صرف عورتوں کے حقوق کا تعین کیا ہے بلکہ آپؐ نے اور آپؐ کے اصحاب نے ان حقوق کی ادائیگی کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے اور جناب نبی کریمؐ کا عورتوں کے ساتھ معاملہ کیسا تھا، عورتوں کی آزادی کے حوالے سے، ان کے حقوق کے حوالے سے اور ان کی رائے کے احترام کے حوالے سے۔ یہ بتانے کے لیے میں نے چند واقعات کے ذریعے آپ کے سامنے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی ہیں۔