شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ

   
۱۸ نومبر ۱۹۹۶ء

برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے درمیان طلاق مؤثر ہوجانے کے بعد جن مسائل نے جنم لیا ہے ان میں چارلس کی دوسری شادی کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ شہزادہ چارلس مبینہ طور پر کمیلا پارکر نامی ایک لڑکی میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اس سے شادی کے خواہشمند ہیں۔ جبکہ چرچ آف انگلینڈ کے ذمہ دار پادری صاحبان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اخبای رپورٹوں کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ چارلس کو چرچ میں دوبارہ شادی کی اجازت دینے سے چرچ اور ریاست کے تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ اس سلسلہ میں مانچسٹر کے بشپ کرسٹوفر فیلڈ کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ ایک مرتبہ شادی ہو جائے تو وہ ختم نہیں ہو سکتی، چنانچہ دوبارہ شادی ممکن نہیں۔

برطانیہ کا بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور شہزادہ چارلس اس منصب پر فائز ہونے والے ہیں۔ چنانچہ وولچ کے بشپ کولن بکائن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزادہ چارلس نے ایک عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات کا کھلے بندوں اعتراف کر رکھا ہے اس لیے ’’ایک تسلیم شدہ زانی کو سپریم گورنر بنانا بے حد بے قاعدگی کی بات ہوگی‘‘۔

یہ مسئلہ تو ہے شہزادہ چارلس کی دوسری شادی کا جس کی وجہ سے چارلس کو اس فیصلہ کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ دوسری شادی نہیں کریں گے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور مسئلہ بھی اس حوالہ سے اخبارات میں موضوع بحث ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد کو کیتولک فرقہ کی کسی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اگر شہزادہ چارلس نے کسی کیتھولک لڑکی کو شریک حیات بنا لیا تو وہ تاج و تخت سے محروم ہو جائیں گے۔ اس سلسلہ میں لندن سے شائع ہونے والے ایک اردو روزنامے نے ۲۰ اگست ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں بتایا ہے کہ اس وقت شاہی خاندان میں جو قوانین رائج ہیں ان کے مطابق شاہی خاندان کا کوئی فرد کیتھولک لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کی حیثیت سے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عقائد اور مفادات کا آئینی محافظ ہے اس لیے ضروری ہے کہ شاہی خاندان کو کیتھولک اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ حتیٰ کہ تین سو سال قبل نافذ ہونے والے اس قانون کی رو سے تخت کا وارث کسی یہودی، مسلمان یا بدھ مت لڑکی سے شادی کر سکتا ہے مگر کیتھولک لڑکی سے شادی کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملکہ برطانیہ ایلزبتھ ان دنوں شاہی خاندان کے ان قواعد پر نظر ثانی کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ موجودہ صدی ختم ہونے سے قبل شاہی خاندان کے نظام میں نئی اصلاحات نافذ کر دی جائیں۔ شاہی خاندان اور ۱۰ ڈائننگ اسٹریٹ یعنی وزیراعظم ہاؤس کے حکام پر مشتمل ایک کمیٹی نے ملکہ کی ہدایت پر اصلاحات کے لیے چند تجاویز مرتب کی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کی حیثیت سے بادشاہ کا کردار ختم کر دیا جائے اور شاہی خاندان کے افرا د کو کیتھولک فرقہ میں شادی کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

اس کے ساتھ ہی شاہی خاندان کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ موجودہ قانون کی رو سے شاہی خاندان میں جب تک وارث بننے کا اہل کوئی مرد موجود ہے، عورت ملکہ نہیں بن سکتی۔ جبکہ اصلاحات میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بادشاہ کی پہلی اولاد خواہ مرد ہو یا عورت، اسے وارث تخت قرار دیا جائے۔ اسی طرح شاہی خاندان کے اخراجات کے لیے اس وقت قومی خزانے سے آٹھ ملین پاؤنڈ سالانہ دیے جاتے ہیں اور عوام ایک عرصہ سے ان اخراجات پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔

خیر ہمیں ان امور سے غرض نہیں، ہم اس نکتہ پر گفتگو کر رہے ہیں کہ برطانوی ولی عہد اگر دوسری شادی کرنا چاہے یا کیتھولک فرقہ کی کسی خاتون سے شادی کرنا چاہے تو چرچ کو اس پر اعتراض ہے کیونکہ چرچ کے نزدیک ایک دفعہ شادی ہو جائے تو اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے، دوسری شادی ممکن نہیں ہے اور ولی عہد کو کیتھولک لڑکی سے شادی کا حق نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف چرچ آف انگلینڈ اور پاپائے روم دونوں کے زیر سایہ مغربی معاشرہ کی حالت عملی طور پر یہ ہے کہ طلاق کے روز افزوں شرح نے سوسائٹی کے لیڈروں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ میکسیکو کے بارے میں گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اب کئی جوڑوں نے شادی کو زیادہ دیر تک باقی رکھنے اور طلاق سے بچانے کے لیے قانونی معاہدوں کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بغیر شادی کے اکٹھا رہنے اور بچے پیدا کرنے کا رجحان بھی ترقی پذیر ہے اور ایسے جوڑوں کا تناسب دن بدن بڑھ رہا ہے جو سرے سے شادی کے بندھن کو تکلف سمجھتے ہوئے اسے روا نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ شہزادہ چارلس اگر دوسری شادی کرنے کی بجائے کسی لڑکی کو گرل فرینڈ کی صورت میں ساتھ رکھ لیں تو نہ صرف مغربی سوسائٹی بلکہ چرچ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

ہمارے خیال میں اسی افراط و تفریط نے مغربی معاشرہ کو جنسی انارکی اور خاندانی نظام کی تباہی سے ہمکنار کیا ہے، اور عیسائی دنیا کی مذہبی قیادت انسانی زندگی کے فطری تقاضوں کو سمجھنے اور انہیں مذہبی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بدستور ناکام چلی آرہی ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے شادی، طلاق اور دوسری شادی کے احکام، اور خاندانی رشتوں کے معاملات کو جس طرح متوازن رکھا ہے وہی انسانی فطرت کا حقیقی تقاضہ ہے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ مسلمانوں کا خاندانی نظام اس افراتفری اور انارکی سے بچا ہوا ہے جس کا رونا کچھ عرصہ سے مغربی دانشور مسلسل رو رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم مغرب کی نئی ثقافتی یلغار اور ورلڈ میڈیا کے دام ہمرنگ زمین سے اپنے خاندانی نظام کو بچا سکیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter