حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ

   
نومبر ۱۹۹۵ء

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند و جانشین اور مجلس احرار اسلام کے قائد حضرت مولانا سید ابوذر عطاء المنعم شاہ بخاریؒ طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں ملتان میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت امیر شریعتؒ کے علمی و فکری جانشین تھے اور بلند پایہ عالم دین، دانشور، صاحب قلم اور منجھے ہوئے خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عظیم باپ کی وضعداری، فقر و استغناء اور حق گوئی کی روایات کے بھی امین تھے جو کہ کساد بازاری کے اس دور میں جنس نایاب ہوتی جا رہی ہے۔

مولانا سید ابوذر بخاریؒ، جو حافظ جی کے نام سے معروف تھے، مطالعہ اور معلومات کے حوالے سے اپنے دور کے چند گنے چنے افراد میں شمار ہوتے تھے۔ وہ کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو گھنٹوں بے تکان بولتے چلے جاتے اور مستند معلومات کا انبار لگا دیتے۔ کبھی ان کی مجلس میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنے کا اتفاق ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے کسی بڑی لائبریری میں کچھ وقت گزار کر آئے ہیں۔ بے رحم سیاست کی آکاس بیل ان کی شخصیت کے گرد حصار قائم نہ کر لیتی تو قحط الرجال کے اس دور میں وہ اہل علم کے لیے استفادہ اور راہنمائی کا ایک بڑا مرکز اور مرجع ہوتے مگر حوادث زمانہ کے تسلسل نے انہیں گوشہ نشینی اور علالت کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔

حافظ جیؒ کی وفات صرف بخاری خاندان اور مجلس احرار اسلام کے کارکنوں کے لیےنہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے باعث رنج و غم ہے جو علم دوستی، وضعداری اور بے باکی کی قدروں سے شناسائی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، اور ان کے اہل خاندان و عقیدت مندوں کو صبر و حوصلہ عطا فرمائیں، آمین یارب العالمین۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۱۹۹۵ء)

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے سب سے بڑے فرزند اور جانشین مولانا سید ابوذر عطاء المنعم شاہ بخاری طویل علالت کے بعد ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو ملتان میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کئی برسوں سے بسترِ علالت پر تھے۔ پہلے ایک حادثہ میں زخمی ہوئے اور طویل عرصہ علالت پر رہے، پھر فالج کے حملہ کا شکار ہوئے اور بالآخر دنیا میں اپنا مقررہ وقت پورا کرنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

مولانا سید عطاء المنعم شاہ بخاری جو سید ابوذر بخاری اور حافظ جی کے نام سے معروف تھے، اپنے وقت کے جید اور وسیع المطالعہ علماء میں شمار ہوتے تھے۔ خطابت انہیں اپنے والد مرحوم سے ورثہ میں ملی تھی، کتاب بینی کا ذوق جنون کی حد تک رکھتے تھے، سخن فہمی اور شعر و ادب کا ذوق اعلیٰ درجے کا تھا اور گفتگو کے سلیقہ سے بھی بہرہ ور تھے۔ اس لیے جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو گھنٹوں بے تکان بولتے چلے جاتے اور مستند معلومات کے ساتھ ساتھ کتابوں کے حوالوں کا انبار لگا دیتے۔ بلاشبہ ان کی مجلس میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بڑی لائبریری میں وقت گزار کر آئے ہیں۔ وہ سیاست میں اپنے مرحوم والد گرامی امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے افکار و نظریات، ان کی وضع داری اور حق گوئی کی روایات کے امین تھے۔ مولانا مرحوم مجلس احرارِ اسلام کے ساتھ عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مجلس احرار اسلام نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور اپنی سرگرمیاں تحفظ ختم نبوت کے شعبہ تک محدود کر کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے خواہشمند احرار کارکنوں کو دوسری سیاسی جماعتوں میں جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سلسلہ میں حافظ جی مرحوم کا موقف یہ تھا کہ

’’حضرت امیر شریعتؒ اور قائدینِ احرار نے جنوری ۱۹۴۹ء میں معروضی حالات کے تحت مروجہ انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور قادیانیوں اور دیگر لادین قوتوں کی طرف سے پاکستان اور پاکستان کی دینی قوتوں کے خلاف وسیع سازش اور منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی۔ مجلس احرار کے نزدیک انتخابات ملکی وقومی مسائل کا حل نہیں بلکہ ملک و دین دشمن قوتوں کو عوامی محاذ پر شکست دینا تھا۔ مرزائی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، چنانچہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ۱۹۵۳ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت برپا کی گئی اور مرزائیوں کو سیاسی و دینی محاذ پر تاریخ ساز شکست سے دوچار کیا۔ مجلس احرارِ اسلام آج بھی اسی موقف پر قائم ہے اور انتخابی سیاست کو دینی قوتوں کی تباہی و انتشار کا سب سے بڑا سبب سمجھتی ہے۔ مجلس احرار کے نزدیک جمہوریت عصرِ حاضر میں اسلام کے خلاف سب سے بڑا فتنہ ہے۔ وہ بعض حضرات کے اس موقف کو سراسر غلط قرار دیتے کہ امیر شریعت نے مجلس احرار کو ختم کر دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ انہوں نے جماعت کو ختم نہیں کیا تھا بلکہ انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تھی‘‘۔

مولانا ابوذر بخاریؒ علالت کے ہاتھوں بے بس ہوجانے سے پہلے تمام زندگی احرار کارکنوں کو منظم کرنے اور مجلس احرارِ اسلام کو ایک متحرک سیاسی قوت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ ۱۹۶۲ء میں مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد سیاسی جماعتوں کی بحالی کا اعلان ہوا، مولانا سید عطاء المنعم شاہ بخاریؒ نے مجلس احرارِ اسلام کو ازسرنو منظم کرنے کے لیے ملک گیر دورہ کیا اور متعدد شہروں میں بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ اس وقت ان کی پرجوش خطابت کی گھن گرج اور عوامی جلسوں میں پذیرائی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ مجلس احرارِ اسلام کو ایک بار پھر قومی سیاست کے دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں میں شاید کامیاب ہو جائیں۔ لیکن وقت اور اس کے تقاضے خاصا سفر طے کر چکے تھے اور اس فاصلے کو کم کرنے میں کامیابی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ مولانا سید ابوذر بخاریؒ دراصل علم و مطالعہ کے شعبہ کے آدمی تھے لیکن بے رحم سیاست نے ان کے اور ان کے معاصرین کے درمیان حجابات اور ترجیحات کی ایسی لکیریں کھینچ دیں کہ ان کی علمی و دینی شخصیت سے وہ فائدہ نہ اٹھایا جا سکا جو ان کا اور ان سے زیادہ ان کے اہل زمانہ کا حق تھا۔ ورنہ وہ اگر عملی سیاست کے جھمیلوں میں الجھ کر نہ رہ جاتے تو علمی و فکری محاذ پر اہل علم و دانش کے لیے رہنمائی اور استفادہ کا ایک مضبوط مرکز اور مرجع ہوتے۔

حافظ جی مرحوم ایک اچھے ادیب اور شاعر تھے، ان کی متعدد نگارشات مختلف جریدوں اور کتابچوں کی شکل میں چھپ چکی ہیں جو ان کے علمی و ادبی ذوق کی آئینہ دار ہیں۔ انہیں اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی قدرت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے والد مرحوم کی طرح مجلسی ذوق سے بھی بہرہ ور تھے۔ مجلس آرائی کے فن سے آشنا تھے اور ان کی مجلس میں ہر ذوق کے لوگوں کو اپنا حصہ مل جاتا تھا۔

موت ہر ذی روح کے لیے مقدر ہے اور ہر شخص نے اپنے وقت پر اس دنیا سے بہرحال چلے جانا ہے لیکن بعض اموات کی کسک حساس دلوں کو بہت دیر تک اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ سید ابوذر بخاریؒ جیسے عالم دین، دانشور، ادیب، شاعر، خطیب اور وضعدار رہنما کی یاد بھی ان کی موت کے بعد ایک عرصہ تک ان کے دوستوں کے دلوں میں تازہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان و احباب کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

(مجلہ نا معلوم ۔ دسمبر ۱۹۹۵ء)
   
2016ء سے
Flag Counter