۲۷-۲۶ جنوری کو لاہور اور کراچی میں مختلف دینی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ ۲۶ جنوری کو ظہر کے بعد ہمدرد سنٹر لاہور میں ضیاء الامت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’مذہبی رواداری اور تعلیمات نبویؐ‘‘ کے موضوع پر سیمینار تھا جس کی صدارت وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور صاحبزادہ پیر سید امین الحسنات نے کی۔ اور پروفیسر عبد الرحمن لدھیانوی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، حافظ کاظم رضا اور دیگر راہ نماؤں کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔
اپنی گزارشات کے آخر میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ مذہبی رواداری کا مطلب اپنے مسلک کو چھوڑنا نہیں بلکہ اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے جذبات اور بزرگ شخصیات کا احترام کرنا ہے۔ اور مشترکہ قومی و دینی معاملات میں باہم مل کر جدوجہد کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ اگر آج بھی ہم ملک میں نفاذ شریعت کے لیے متحد ہو جائیں اور تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیؐ اور تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ جیسا ماحول پیدا کرلیں تو فرقہ وارانہ تشدد اور حد سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اسی روز شام کو کراچی ملیئر کینٹ کی ایک مسجد میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر کانفرنس تھی۔ مسجد میں ہمارے فاضل دوست مولانا عبد الجبار طاہر خطابت و تدریس کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی محنت سے مختلف علماء کرام وہاں تشریف لاتے رہتے ہیں، میں بھی ملک کے معروف نعت خواں، مداح رسولؐ مولانا شاہد عمران عارفی کے ہمراہ حاضر ہوا اور ’’رفاہی ریاست سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ خطاب کرنے والے دیگر بزرگوں میں مولانا انتظار الحق تھانوی اور مولانا سید عدنان کاکاخیل بھی شامل تھے۔
۲۷ جنوری کو صبح ایک نشریاتی پروگرام میں قرآن کریم کی منسوخ آیات اور ان کے پس منظر اور احکام کے حوالہ سے دلچسپ علمی گفتگو میں شرکت کا موقع ملا جو موجودہ حالات کے تناظر میں بہت مفید رہی۔
ظہر سے قبل جامعہ اسلامیہ کلفٹن میں طلبہ سے گفتگو کی سعادت حاصل کی، میرا عام طور پر ذوق اور معمول یہ ہے کہ طلبہ سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو علمی دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی بزرگ شخصیت کا تذکرہ کرتا ہوں جس سے طلبہ کے ساتھ ساتھ خود مجھے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر سیدنا حضرت ابو ہریرہؓ کے مختلف واقعات خصوصًا حدیث نبویؐ کے حفظ و روایت کے حوالہ سے ان کے ذوق و محنت کا تذکرہ کیا اور طلب علم میں ان کی مشقت اور جانفشانی کی چند جھلکیاں پیش کیں۔
تین بجے مجلس صوت الاسلام کراچی میں فضلاء کے تربیتی کورس اور خطباء کی تربیتی کلاس کی مشترکہ نشست تھی۔ مجلس صوت الاسلام کا نیا دفتر اور کلاس روم دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ اس نشست میں تقاضہ یہ تھا کہ اپنے حالیہ سفر دیوبند کے بارے میں واقعات و تاثرات کا تذکرہ کروں۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوبند کی علمی و فکری تحریک کے مقاصد و اہداف، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی علمی، سیاسی اور تحریکی خدمات اور موجودہ عالمی فکری و تہذیبی تناظر میں دیوبندی تحریک کے اثرات کے موضوعات پر معروضات پیش کیں اور سفر دیوبند کے کچھ واقعات بھی بیان کیے۔
میں نے عرض کیا کہ ہم نے دیوبندیت کے تعارف کے اپنے اپنے دائرے قائم کر رکھے ہیں جو یقیناً دیوبندیت ہی کا حصہ ہیں۔ لیکن دیوبندیت کا مجموعی اور مکمل تعارف مختلف دینی و ملی محاذوں پر اکابر علماء دیوبند کی اجتماعی جدوجہد کو سامنے رکھ کر ہی صحیح طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کے لیے شیخ الہندؒ کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کو سب سے بہتر معیار سمجھتا ہوں۔ اور علماء کرام کے ساتھ ساتھ دینی تحریکات کے کارکنوں سے بھی گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ حضرت شیخ الہندؒ کے حالات زندگی، خدمات اور جدوجہد کا مسلسل مطالعہ کرتے رہیں اور اپنی جدوجہد میں اسے ہمیشہ سامنے رکھیں۔
کراچی کے اس سفر میں ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے حوالہ سے بھی مختلف رہ نماؤں سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ یہ فورم دو ماہ قبل ملک میں سودی نظام کے خلاف عوامی رائے کو منظم کرنے کی غرض سے تمام مکاتب فکر کے راہ نماؤں نے لاہور کے ایک مشترکہ اجلاس میں قائم کیا تھا۔ راقم الحروف کو اس کی رابطہ کمیٹی کنوینر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دانشوروں کے تین چار اجلاس ہو چکے ہیں جن میں مشاورت سے طے پایا ہے کہ سودی نظام کے خلاف سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اس کے بارے میں نظر ثانی کی رٹ دائر کرنے والے ادارہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی رٹ واپس لے کر سودی نظام کے خاتمے کی راہ ہموار کرے۔ اس تجویز سے ملک بھر کے تمام مکاتب فکر اور طبقات کے سرکردہ حضرات نے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے لیے منظم، مربوط اور مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ کراچی میں جامعہ اسلامیہ کے مولانا مفتی ابوذر محی الدین کے علاوہ مولانا شاہ محمد اویس نورانی اور معروف قانون دان جناب آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ سے بھی گفتگو ہوئی۔ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں کے سرکردہ حضرات اس مہم کی حمایت کا پہلے ہی اظہار کر چکے ہیں۔
اس سلسلہ میں یکم فروری کو جامع مسجد خضراء سمن آباد لاہور میں تین بجے مرکزی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں اس مہم کا عملی طریق کار اور ترجیحات طے کی جائیں گی۔ ہمارا خیال ہے کہ خطبات جمعہ، عوامی بیانات اور میڈیا کے میسر مواقع کے ذریعہ سود کی حرمت اور اس سلسلہ میں قرآن و سنت کے احکام کی وضاحت کے ساتھ ساتھ عالمی اور قومی معیشت میں سود کی نحوست اور تباہ کاریوں کو اجاگر کیا جائے۔ اور اس کے ساتھ یو بی ایل کی انتظامیہ پر سودی نظام کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی رٹ کو واپس لینے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس مہم کے لیے پر خلوص دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ مفید تجاویز کی صورت میں ہماری راہ نمائی فرمائیں اور جس صورت میں بھی وہ تعاون کر سکتے ہیں اس کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔