قائد کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے ۲ فروری ۱۹۷۳ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی نشری تقریر اور انٹرویو میں مستقل آئین کے مسودہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ مسودہ آئین میں مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت دی گئی ہے، حالانکہ اسلام میں کسی بھی مسلمان کو اسلام چھوڑنے کا حق نہیں ہے اور مرتد کی شرعی سزا قتل ہے۔ اس پر محترم الحاج ممتاز احمد فاروقی نے نوائے وقت (۱۳ فروری) میں مطبوعہ ایک مضمون میں مفتی صاحب کے اس موقف پر اعتراض کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرتد کو قتل کرنے کا سوال نہ تو عقلاً درست ہے اور نہ ہی شرعی طور پر اس کا کوئی واضح ثبوت ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں چند باتیں قارئین کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
(۱) قرآن کریم میں مرتد کی سزا صراحت کے ساتھ قتل بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ پہلے پارہ میں ہی اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جب بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی تو اللہ رب العزت نے ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کر دو۔ چنانچہ روایات میں تصریح ہے کہ کم و بیش ستر ہزار افراد نے ارتداد کے جرم میں موت کی سزا پائی۔
(۲) جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سلسلہ میں وضاحت کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ چند روایات پیش خدمت ہیں۔
(الف) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے انہیں یمن میں دین کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ ایک روز حضرت معاذؓ حضرت ابو موسٰیؓ کے پاس آئے تو ان کے پاس ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ حضرت معاذؓ نے اسے دیکھ کر ابو موسٰیؓ سے کہا کہ حضرت ہم تو لوگوں کو دین سکھانے کے لیے آئے ہیں، عذاب دینے کے لیے نہیں۔ حضرت ابوموسٰیؓ نے جواب دیا کہ یہ اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگیا ہے۔ اس پر حضرت معاذؓ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے نبیؐ برحق کو مبعوث فرمایا، میں اس کو آگ میں جلائے بغیر نہیں ٹلوں گا۔ حضرت ابو موسٰیؓ نے فرمایا، ابھی ٹھہرو ہمارا اس کے ذمہ کچھ حساب ہے۔ مگر حضرت معاذؓ نے اصرار کیا کہ میں اسے جلا کر دم لوں گا، چنانچہ لکڑیاں منگوائی گئیں اور اس مرتد کو قتل کر کے سپرد آگ کر دیا۔ امام طبرانیؒ نے اس حدیث کو روایت کیا، اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ یہ روایت بخاری ص ۱۰۲۳ ج ۲ اور المحلی ص ۲۳۹ ج ۸ میں بھی ہے۔ (المجمع الزوائد ص ۲۶۱ ج ۶)
(ب) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جس شخص نے دین بدل دیا اسے قتل کر دو۔ اور اس کو طبرانی نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔ (مجمع الزوائد ص ۲۶۱ ج ۱)
(ج) حضرت معاویہ بن حیدہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جس شخص نے دین تبدیل کیا، اسے قتل کر دو۔ اسے طبرانی نے روایت کیا، اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ص ۲۶۱ ج ۴)
(د) جناب نبی اکرمؐ کے پاس مسیلمہ کذاب کے قاصد پہنچے، ایک عبد اللہ بن نواحہ اور دوسرا ثمامہ بن اثال تھا۔ ان دونوں نے آنحضرتؐ کو مسیلمہ کا خط دیا جس میں یہ لکھا تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور آپؐ کے ساتھ مجھے شریک ٹھہرایا گیا ہے۔ آپؐ نے خط پڑھ کر قاصدوں سے پوچھا کہ تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ انہوں نے کہا جو عقیدہ مسیلمہ کا ہے وہی ہمارا ہے۔ اس پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر قاصدوں کو قتل کرنا سفارتی آداب کے خلاف نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ (روح المعانی ص ۱۴۱ ج ۴، مستدرک ص ۵۳ ج ۳، سنن الکبرٰی ص ۲۰۶ ج ۷)
(ر) حضرت عقلمہ بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا، جو شخص مرتد ہوگیا اسے قتل کر دو۔ اس کو طبرانیؓ نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ (الجامع الصغیر ص ۳۴۷ ج ۲)
(س) حضرت عبد الرحمان بن ثوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے اس کی گردن مار دو۔ (مجمع الزوائد ص ۲۶۱ ج ۶)
حضرت ام المؤمنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے دین بدل دیا اسے قتل کر دو۔ (مجمع الزوائد ص ۲۶۱ ج ۶)
(۳) حضرات خلفاء راشدینؓ نے بھی اپنے ادوار میں مرتد کی سزا قتل کے حکم پر سختی سے عمل کیا۔
(الف) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب سریر آرائے خلافت ہوئے تو عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو چکے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو ختم نبوت کے عقیدہ سے منحرف ہو کر جھوٹے نبیوں کے پیروکار بن چکے تھے اور وہ بھی تھے جو صرف زکوٰۃ کا انکار کرتے تھے۔ مگر صدیق اکبرؓ نے سب کے خلاف از خود اعلان جنگ فرمایا۔ حالانکہ صحابہ کرامؓ، خصوصاً حضرت عمرؓ نے اس بات پر اصرار کیا کہ کم از کم مانعین زکوٰۃ کے خلاف سردست جہاد نہ کریں۔ مگر صدیق اکبرؓ نے انکار فرمایا اور کہا کہ جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا وہ مرتد ہے اور میں مرتدین کے خلاف ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ ان کا خاتمہ نہ ہو جائے یا وہ اسلام کو مکمل طور پر قبول نہ کر لیں۔
چنانچہ احادیث اور تاریخ کی کم و بیش تمام کتابوں میں موجود ہے کہ صدیق اکبرؓ نے مانعین زکوٰۃ اور ختم نبوت کے منکروں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ جہاد کیا اور حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئی کہ صدیق اکبرؓ کا فیصلہ درست تھا۔ (تاریخ الخلفاء ص ۵۴)
(ب) سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کا ایک قاصد آیا، اس نے بیان کیا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا پھر کیا ہوا؟ عرض کیا کہ قتل کے سوا چارہ کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم نے اسے تین دن تک قید کر کے مہلت کیوں نہ دی، شاید وہ اس دوران توبہ کر لیتا۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! میں وہاں موجود نہ تھا اور نہ خبر ملنے پر راضی ہوں (یعنی اگر میں وہاں موجود ہوتا تو اسے قتل کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دیتا اور اس دوران اسے قید کر دیتا کہ شاید توبہ کر لے)۔ (فتح الباری ص ۲۹۵ ج ۱۵، نیل الاوطار ص ۲۰۳ ج ۷)
(ج) سیدنا عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کے پاس گورنر کوفہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا پیغام پہنچا کہ ہم نے کوفہ میں کچھ لوگوں کو پکڑا ہے جو خفیہ طور پر مسیلمہ کذاب کے دین پر عمل کرتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟ امیر المومنین نے جواب دیا کہ توبہ کی مہلت دو، اگر توبہ کر لیں تو چھوڑ دو ورنہ قتل کر دو۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے ان مرتدوں کو توبہ کے لیے کہا تو گروہ کے سردار عبد اللہ بن نواحہ کے سوا سب نے توبہ کر لی۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے ابن نواحہ کو قتل کر کے اس کی لاش کو عبرت کے لیے کھلے بازار میں رکھ دیا اور توبہ کرنے والوں کو جلا وطن کر دیا۔ (مستدرک ص ۵۳ ج ۳، ابوداؤد ص ۲۷۴ ج ۱، سنن الکبرٰی ص ۲۰۶ ج ۸، المحلی ص ۲۳۰ ج ۸)
حضرت سلیمان بن موسٰیؒ کہتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین عثمان بن عفانؓ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگیا۔ آپؓ نے اسے تین دن تک توبہ کی مہلت دی، اس کے بعد توبہ نہ کرنے پر قتل کر دیا۔ (المحلی ص ۲۳۰ ج ۸)
(د) امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیقوں کو لایا گیا، آپؓ نے ان کو آگ میں جلوا دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تک بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ میں انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے عذاب کے ساتھ لوگوں کو عذاب نہ دو۔ بلکہ میں انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آپؐ نے فرمایا جو شخص دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ (بخاری ص ۱۰۲ ج ۲)
(۲) ابو عمر شیبانیؒ روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو عجل کا ایک شخص مسلمان ہونے کے بعد عیسائی ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے اس کو طلب کر کے پوچھا تو کیا کہتا ہے؟ کہنے لگا میں کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ حضرت علیؓ نے اسے قتل کر کے آگ میں جلا دیا۔ (المحلی لابن حزم ص ۲۲۹ ج ۸)
(۳) حضرت علیؓ کے پاس ایک بوڑھا لایا گیا جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگیا تھا۔ آپؓ نے اسے کہا کہ توبہ کرے مگر اس نے انکار کر دیا، پھر آپؓ نے اس کی گردن اڑا دی۔ (المحلی ص ۲۳۰ ج ۸)
امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ارشاد فرمایا کہ مرتد کو تین دن تک توبہ کی مہلت دی جائے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (نصب الرایہ ص ۴۶۱ ج ۳)
(۴) قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور خلفاء راشدینؓ کے ارشادات اور فیصلوں کے بعد ائمہ اربعہ کا فیصلہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
امام مناویؒ فرماتے ہیں کہ چاروں ائمہ یعنی حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ اس بات پر متفق ہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ امام ابوحنیفہؒ صرف عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک توبہ نہ کر لے یا اس کی موت نہ آجائے۔ (السراج المنیر ص ۳۴۴ ج ۳، نصب الرایہ ص ۴۶۲ ج ۳)
یہ حوالہ جات نقل کرنے کے بعد ہم فاروقی صاحب کے ان اشکالات کا دفعیہ بھی ضروری سمجھتے ہیں جو انہوں نے اپنے مضمون میں اٹھائے ہیں۔
محترم فاروقی صاحب نے اس سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دین میں جبر نہیں۔ مگر فاروقی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کافر کو مسلمان ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی پر کوئی جبر نہیں مگر اسلام قبول کر لینے کے بعد اس سے انحراف اس آیت کے ضمن میں نہیں آتا۔ چنانچہ علامہ ابن حزمؒ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت سے اس امر پر استدلال کرنا درست نہیں کہ مرتد پر جبر نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت اس معنی پر محمول نہیں بلکہ مرتد کو توبہ کے لیے اکراہ ضروری ہے۔ (المحلی ص ۳۳۵ ج ۸)
دوسرا اشکال فاروقی صاحب کا یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک حدیث ابن عباس سے مروی ہے جو سن شعور کو اس وقت پہنچے جبکہ مسلمانوں کی کفار سے لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے مراد وہی لوگ ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر ساتھ ہی مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار سے جا ملتے ہیں۔ چنانچہ اس قید کی تہدید اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے عورتوں کو اس حکم سے مستثنیٰ کیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ عورتیں جنگ میں حصہ نہ لیتی تھیں۔
اس اشکال کے تین پہلو ہیں:
(۱) اس باب میں صرف ایک حدیث ہے۔
(۲) یہ حکم ان مرتدوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں سے جا ملے۔
(۳) حضرت امام ابوحنیفہؒ نے بھی اسی وجہ سے قتل کے حکم سے عورت کو مستثنیٰ کیا ہے۔
پہلی بات تو قارئین کے سامنے آچکی ہے کہ صرف ایک حدیث نہیں متعدد احادیث ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مرتد کو قتل کر دو۔ وقت کی قلت کے باوجود ہم نے ایسی سات احادیث ذکر کی ہیں جبکہ خلفاء راشدین کے فیصلے الگ ہیں۔
دوسرا پہلو بھی بے بنیاد ہے کیونکہ خلفاء راشدین کے پاس جو مرتد لائے گئے وہ مسلمانوں کے خلاف محاذ آرا نہیں تھے۔ حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ کے حکم سے کوفہ میں مسیلمہ کذاب کے جس گروہ کے سرغنہ کو قتل کیا گیا وہ تو ارتداد ظاہر بھی نہیں کرتے تھے بلکہ چھپ کر اپنے مذہب پر عمل پیرا تھے مگر پھر بھی مرتد کی سزا قتل کے فیصلہ سے نہ بچ سکے۔
تیسری بات بھی بے بنیاد ہے کیونکہ امام اعظمؒ نے عورتوں کو قتل کے حکم سے اس لیے مستثنیٰ نہیں کیا کہ وہ جنگ میں حصہ لینے کے قابل نہیں، بلکہ اس لیے کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو ہدایہ ص ۵۸۱ ج ۳، نصب الرایہ ص ۴۶۱ ج ۳)
ایک اشکال یہ بھی فاروقی صاحب نے اٹھایا ہے کہ ایک مہذب ملک میں اس قسم کی سزا کا کوئی عقلی جواز نظر نہیں آتا۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ دین اسلام کے فیصلوں کا معیار محدود انسانی عقل نہیں بلکہ وحی الٰہی ہے۔ اور حدیث رسولؐ کے مقابلہ میں کسی انسان کی عقل کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ آنحضرتؐ کے ارشادات کو اپنی ناقص عقل پر پرکھتا پھرے۔ پھر بھی فاروقی صاحب کی تشفی کے لیے عرض ہے کہ محترم! اسلام صرف چند عبادات پر مشتمل ایک رسمی مذہب نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ایک مکمل نظام اور دستور ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس میں آئین اور دستور سے بغاوت کی سزا مقرر نہ کی گئی ہو جو عموماً موت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ میں کمیونزم کا نام لینا بھی جرم ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین اسلام ہے، ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے، قانون کا مأخذ قرآن اور سنت ہیں، تو اس ملکی دستور سے بغاوت و ارتداد کو روکنے کے لیے قانون کیوں نہیں بننا چاہیے اور یہ دنیا کے کون سے معیارِ عقل کے خلاف ہے؟
اس لیے میں محترم فاروقی صاحب اور ان کے ہمنواؤں سے آخر میں گزارش کروں گا کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس مسئلہ پر غور کریں اور ملک میں مکمل اسلامی دستور کے نفاذ اور ارتداد و الحاد کے انسداد کے لیے اگر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کی جدوجہد میں شرکت ان کے بس کی بات نہیں تو کم از کم ان کی راہ میں روڑے اٹکا کر اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں۔