سعودیہ ایران کشمکش اور اس کے مضمرات

   
۹ فروری ۲۰۱۶ء

گزشتہ تین چار روز کے دوران شائع ہونے والی چند خبروں پر ایک بار پھر نظر ڈال لیں:

  • سعودی عرب نے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے زمینی فوج کے دستے بھجوانے کی پیشکش کی ہے جس کا امریکی صدر اوباما نے خیر مقدم کیا ہے۔
  • ایران کے پاسداران انقلاب کے سربراہ محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ سعودی عرب اتنا بہادر نہیں ہے کہ وہ یہ کام کر سکے، لیکن اگر اس نے ایسا کیا تو یہ اس کا اقدام خودکشی ہوگا اور اس کے فوجی دستوں کو ختم کر دیا جائے گا۔
  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ داعش کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے اور ان کی رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا بھر کے ۳۴ کے لگ بھگ مسلح گروپوں نے داعش کے ساتھ اتحاد کا وعدہ کر لیا ہے۔ بان کی مون کا یہ بھی کہنا ہے کہ داعش کی سرگرمیوں کو محدود کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
  • ایران کے سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں لڑنے والے ایرانی حضرات مجاہد ہیں اور شام میں ایران کی فوجی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
  • متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ جناب انور قرقاش نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات بھی اپنی زمینی افواج داعش کے خلاف کاروائی میں بھجوانے کے لیے تیار ہے، لیکن اس فوجی اتحاد کے لیے امریکی قیادت ان کی پیشگی شرط ہوگی۔

ان خبروں سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور سعودی عرب اور ایران کی بڑھتی ہوئی کشمکش کے معروضی خدشات و رجحانات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس دورے کے مثبت نتائج کا ابھی انتظار جاری ہے جو انہوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے اور مفاہمت کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے ریاض اور تہران کے ہنگامی سفر کی صورت میں کیا تھا۔ اس دورے سے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ دنیا کے مختلف حلقوں نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ خدا کرے کہ یہ توقعات بر آنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

سعودی عرب اور ایران کی یہ کشمکش مسلسل آگے بڑھ رہی ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تصادم خوفناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ عرب اسرائیل تنازعہ بھی پس منظر میں چلا گیا ہے اور پاکستان پر اس کے منفی اثرات کے سیاہ بادل منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کی داخلی صورت حال اس سے قبل بھی سنی شیعہ کشمکش اور باہمی خونریزی کے تلخ مراحل سے گزر چکی ہے۔ اس لیے واقفان حال کو اس کے دوبارہ لوٹ آنے کے امکانات و خدشات نے بے چین و مضطرب کر رکھا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں سنی شیعہ کشمکش کی تاریخ صدیوں پرانی ہے لیکن ماضی میں کبھی بھی یہ کشمکش مناظروں، مجادلوں اور تشدد کے اکا دکا انفرادی واقعات سے آگے نہیں بڑھی۔ جبکہ ایرانی انقلاب کے بعد کی گزشتہ تین دہائیوں میں اس کشمکش نے ایک دوسرے کے خلاف مسلح کاروائیوں اور قتل و قتال کا جو بازار گرم کیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا بلاشبہ ایک المناک باب ہے، اسے مشرق وسطیٰ کے ان معاملات سے الگ نہیں کیا جا سکتا جو مبینہ طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں، اور آئندہ بھی اس پراکسی وار کا تسلسل پاکستان کے داخلی حالات پر پہلے کی طرح اثر انداز ہوتا رہے گا۔ اس پس منظر میں گزشتہ روز لاہور میں ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ کی رابطہ کمیٹی کا ایک مشاورتی اجلاس مولانا عبد الرؤف فاروقی کی رہائش گاہ پر ان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں جناب حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ اور راقم الحروف کے علاوہ مفتی محمد سفیان قصوری، مفتی محمد مغیرہ، قاری محمد قاسم، حافظ محمد بلال فاروقی اور حافظ محمد زبیر جمیل نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ عالم اسلام کی سیاسی قیادت اور علمی و فکری راہ نماؤں سے گزارش کی جائے کہ وہ اس سلسلہ میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کریں بلکہ آگے بڑھ کر اس کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کی کوئی صورت ضرور نکالیں۔ اس حوالہ سے سب سے زیادہ ذمہ داری او آئی سی یعنی مسلم ممالک کے سربراہان حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر مل بیٹھیں۔ اس کے لیے او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس طلب کیا جائے اور سعودی عرب اور ایران کی باہمی شکایات و تنازعات کا جائزہ لینے کے لیے عالم اسلام کی مقتدر علمی و سیاسی شخصیات پر مشتمل بین الاقوامی کمیشن قائم کیا جائے جو دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات و شکایات کے بارے میں جامع رپورٹ مرتب کر کے ان کے ازالہ کے لیے تجاویز پیش کرے۔

سعودی عرب اور ایران کی باہمی شکایات و تنازعات کے بارے میں مستند معلومات اور حقائق کا منظر عام پر آنا اور اس سے عالمی رائے عامہ کو آگاہ کرنا اس معاملہ کی اولین ضرورت ہے۔ اس کے بعد ان کو حل کرنے اور ان میں کمی لانے کی مثبت اور مؤثر کوششیں درکار ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ کام او آئی سی یا کم از کم مؤتمر عالم اسلامی جیسے بین الاقوامی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ جبکہ انہیں اس طرف متوجہ کرنے کے لیے مؤثر اور سنجیدہ محنت کے لیے شخصیات اور اداروں کو ضرور محنت کرنی چاہیے۔ اس بارے میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ مشرق وسطیٰ ہو یا پاکستان، سنی شیعہ کشیدگی میں اضافہ دونوں فریقوں میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ہے، بلکہ اس سے عالم اسلام کو شدید نقصان ہوگا اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے سوا کوئی بھی اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا جو کہ ملت اسلامیہ کے لیے یقیناً بدقسمتی کی بات ہوگی۔ جبکہ مشرق وسطیٰ میں داعش کی دہشت گردی اور امریکی پالیسیاں بھی مستقل طور پر عالم اسلام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔

اجلاس میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کے عنوان پر مذہبی حلقوں، دینی اداروں اور تعلیمی مراکز کا دائرہ جس طرح دن بدن تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس پر مسلسل چھاپے مار کر خوف و ہراس میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ ان سے کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا۔ فرقہ وارانہ لٹریچر کے خلاف کاروائی کی آڑ میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ پر مشتمل رسائل بھی ضبط کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ناموس رسالتؐ اور ختم نبوت کا تحفظ دستوری اور قانونی تقاضہ ہے۔ آئین اور قانون سے ماورا کاروائیوں کا دائرہ وسیع تر ہوگیا ہے اور آزادی و عزت کی حفاظت غیر یقینی ہو کر رہ گئی ہے۔ حتیٰ کہ یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کا داخلہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ ضلع شیخوپورہ میں اس پر عمومی پابندی کی کاروائی بھی کی گئی ہے۔ حالانکہ تبلیغی جماعت کا کسی فرقہ وارانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی دین کی بنیادی اور مثبت تعلیم کے علاوہ اس کا کوئی اور دائرہ کار ہے۔

ان حالات میں ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ کی رابطہ کمیٹی کی رائے ہے کہ دینی جماعتوں کو باہم مل بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کوئی بھی مؤثر اور سنجیدہ پیش رفت ہوئی تو ہم اس کے ساتھ شریک کار ہوں گے۔ جبکہ مارچ کے آغاز میں اس حوالہ سے ہم خیال دوستوں کا مشاورتی اجلاس بلانے کی تجویز بھی طے پائی ہے جس میں اس سوچ اور فکر کو آگے بڑھانے کی کوئی عملی صورت نکالنے کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter