پاکستان میں امریکی سفیر جوزف ایس فارلینڈ کی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء

پاکستان میں پہلے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوتے ہی امریکہ بہادر نے جب سی آئی اے کے مشہور و معروف کارندے اور انڈونیشیا میں خانہ جنگی کرانے والے سورما مسٹر جوزف ایس فارلینڈ کو پاکستان میں اپنا سفیر مقرر کیا تو تاڑنے والی نگاہوں نے اسی وقت دیکھ لیا تھا کہ یہ حضرت آگے چل کر کیا گل کھلائیں گے۔ اسی لیے جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں نے مسلسل یہ مطالبہ کیا کہ مسٹر فارلینڈ کو واپس بھیج دیا جائے ورنہ یہ صاحب ملک و ملت کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ لیکن فارلینڈ صاحب پی ایل ۴۸۰ فنڈ کی کروڑوں روپے کی رقم کے بل پر پورے ملک میں دندناتے پھرے اور کھلم کھلا انتخابی سرگرمیوں میں مداخلت کی۔

چونکہ مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی مسٹر فارلینڈ کے اخراج کے مطالبہ میں پیش پیش تھے اسی لیے موصوف نے ان دونوں راہنماؤں کے انتخابی حلقوں کا بذات خود دورہ کیا۔ مگر یہ سرگرمیاں کارگر نہ ہو سکیں اور جمعیۃ علماء اسلام ایک مضبوط آواز لے کر امریکی سامراج کی سرکوبی کے لیے میدان میں آ موجود ہوئی۔ اب یہ حضرت پھر ملک کے طول و عرض کا چکر لگا رہے ہیں اور اس مشن کی تکمیل کر رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان کے وجود کو معرض خطر میں ڈال دیا جائے تاکہ امریکی سامراج یہاں من مانی کاروائی کر سکے۔ مگر یہ حرکتیں مفتی محمود صاحب سے چھپ نہ سکیں اور انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ فارلینڈ کی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جائے کیونکہ وہ ملک کے دستوری بحران سے ناجائز فائدہ اٹھا کر امریکی سامراج کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔

مولانا مفتی محمود کے اس پرزور مطالبہ کی گھن گرج نہ صرف پاکستان میں بلکہ واشنگٹن کے ایوان میں بھی پورے زور سے سنائی دی۔ چنانچہ اب نیا جال یہ بنایا گیا ہے کہ کسی طرح یہ بات پھیلاؤ کہ فارلینڈ سے مفتی محمود نے بھی ملاقات کی ہے اور وہ بھی اس کی سرگرمیوں میں شریک ہیں تاکہ امریکی سامراج کے خلاف اس مضبوط آواز کو پاکستان کے عوام کی نظروں میں کمزور اور مشکوک بنایا جا سکے۔ اس پراپیگنڈا کا آغاز یادش بخیر جماعت اسلامی کے ناظم پارلیمانی امور صدیق الحسن گیلانی نے ایک اخباری بیان کے ذریعہ کر دیا ہے جو کہ ۳ مارچ کو روزنامہ امروز لاہور کے دو تاروں والے ایڈیشن کے آخری صفحہ کے پہلے کالم میں شائع ہوا ہے اور جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ فارلینڈ سے مفتی محمود نے بھی خفیہ ملاقات کی ہے۔ ان نادانوں نے شاید یہ سمجھ لیا کہ اس طرح مفتی صاحب کی سامراج دشمن مہم میں شگاف ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر واقعی ان کی بدحواسی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکی سامراج اپنی زندگی کے آخری لمحات گن رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter