گزشتہ ایک مضمون میں ذکر کیا تھا کہ ہم نظام اسلام کے حوالے سے نفاذ اور حکمرانی کے دور میں داخل ہوتے ہوئے بھی دینی نظام کا وہی ڈھانچہ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں جو گزشتہ دو صدیوں کے دوران استعماری قوتوں کی یلغار کے مقابلہ میں دفاع اور تحفظات کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے فقہاء نے ترتیب دیا تھا۔ اس پر بعض دوستوں نے سوال کیا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پائے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں، اور کیا نفاذ کے دور میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں ماضی سے ہٹ کر اسلام کی کوئی نئی تعبیر اختیار کرنا ہو گی؟ یہ سوال واقعی اہم ہے اس لیے اس سلسلہ میں دو گزارشات اصولی طور پر عرض کرنا ضروری معلوم ہو رہا ہے۔
ایک یہ کہ دور غلامی میں بعض بنیادی مسائل میں ہمارے فقہاء نے وقتی اور عبوری طور پر ایسی صورتیں نکالی تھیں جن کا جواز بس اسی دور میں ہو سکتا تھا۔ آزادی اور اقتدار کے دور میں اسلامی احکام کی وہ صورتیں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔ مثال کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے دو بنیادی احکام کو سامنے رکھ لیجیے جو اسلام کے احکام میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور جنہیں سوسائٹی میں عملی طور پر لاگو اور نافذ کرنے کی ذمہ داری کو قرآن نے اسلامی حکومت کے فرائض میں بیان کیا ہے۔
نماز کے بارے میں فقہائے احناف نے صراحت سے لکھا ہے کہ جمعہ اور عیدین کی امامت و خطبہ حاکم وقت کا حق ہے۔ اور اسی وجہ سے فقہ حنفی کی رو سے جمعہ اور عیدین کے انعقاد کی شرائط میں یہ بات شامل ہے کہ حاکم وقت یا اس کا مقرر کردہ نمائندہ خطبہ دے اور نماز پڑھائے۔ اسی لیے جب فرنگی اقتدار قائم ہوا تو اس وقت کے فقہاء کرام میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جب اسلامی حاکم کا وجود نہیں رہا تو جمعہ اور عیدین کی ایک شرط مفقود ہوگئی تو ان حالات میں جمعہ اور عید کی نماز ادا کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ اس خطۂ زمین میں احناف کی غالب اکثریت چلی آرہی ہے اس لیے یہ مسئلہ خاصا الجھن کا باعث بن گیا اور مفتیان کرام نے اس الجھن سے نکلنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ جب تک اسلامی حکومت دوبارہ قائم نہیں ہو جاتی عبوری دور میں مسلمان خود کسی خطیب اور امام کا تقرر کر کے جمعہ اور عیدین پڑھتے رہیں، ان کی جمعہ اور عید کی نماز ہو جائے گی۔ چنانچہ رفتہ رفتہ یہی طریقہ پورے جنوبی ایشیا میں رائج ہوگیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقہی مباحثے بھی چلتے رہے۔
چنانچہ بنگال میں حاجی شریعت اللہ کی بپا کردہ ’’فرائضی تحریک‘‘ جو آزادی اور احیائے اسلام کی عوامی تحریک تھی، اس کا یہ موقف تھا کہ غلامی کے دور میں جمعہ اور عید پڑھنا جائز نہیں ہے، چنانچہ وہ لوگ جمعہ اور عید نہیں پڑھا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حاجی شریعت اللہ کے جانشین پیر محمد محسن المعروف دودھو میاں کے دور میں اس موقف میں اس قدر شدت آگئی کہ جمعہ اور عیدین پڑھنے والے مسلمانوں سے ان کے باقاعدہ جھگڑے ہونے لگے اور بالآخر اسلامی اقدار و احکام کے احیا اور آزادی کے لیے بڑے خلوص اور محنت کے ساتھ منظم کی جانے والی یہ عوامی تحریک انہی جھگڑوں کی نذر ہوگئی۔ اس دور میں جو مسلمان پرائیویٹ انتظام کے ساتھ جمعہ اور عید کا اہتمام کرتے تھے ان کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسے حضرات پر مشتمل تھی جو اسی وجہ سے جمعہ کے ساتھ ساتھ احتیاطاً ظہر کی نماز بھی پڑھتے تھے۔ اس دور میں مرتب ہونے والے فتاویٰ کے مجموعہ جات میں اس قسم کے مسائل کے حوالے سے سوالات و جوابات بکثرت موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ اور عیدین کی خطابت و امامت کا یہ ’’آزادانہ نظام‘‘ اس عبوری دور کی ضرورت تھی جب کسی اسلامی حکومت کا وجود نہیں تھا۔ اور جب کوئی اسلامی نظریاتی حکومت صحیح بنیادوں پر قائم ہوگی تو اس سارے سسٹم پر نظر ثانی ضروری ہو جائے گی اور خطابت و امامت کا استحقاق فقہ حنفی کی رو سے پھر ’’حاکم وقت‘‘ اور اس کے مقرر کردہ نمائندوں کے پاس واپس چلا جائے گا۔
کم و بیش اسی نوعیت کی صورت حال ’’زکوٰۃ‘‘ کے بارے میں بھی ہے کیونکہ اصلاً زکوٰۃ کی وصولی اور مصارف پر اسے خرچ کرنا بیت المال کی ذمہ داری ہے اور حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں ہر قسم کی زکوٰۃ کی وصولی اور اس کا خرچ سرکاری بیت المال کے ذریعہ ہوتا تھا۔ البتہ حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں انتظامی الجھنوں کے باعث لوگوں کو یہ حق دے دیا کہ وہ ’’اموال باطنہ‘‘ کی زکوٰۃ از خود بھی کسی صحیح مصرف پر ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اموال باطنہ کے تعین میں خاصی بحث ہے مگر عام سطح پر بات کو سمجھانے کے لیے اس کے خلاصہ کے طور پر یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ ’’اموال باطنہ‘‘ سے مراد وہ نقد رقم ہے جو حکومت کے علم یا کسی سرکاری ریکارڈ میں نہ ہو۔ جبکہ زراعت، مویشی اور تجارت کی وہ رقوم جو سرکل میں ہیں اور کسی باقاعدہ ریکارڈ میں ہیں ’’اموال ظاہرہ‘‘ شمار ہوتی ہیں۔ اموال ظاہرہ کی زکوٰۃ وصول کرنے اور انہیں ان کے مصارف پر خرچ کرنے کا حق ایک اسلامی مملکت میں صرف ’’بیت المال‘‘ کو حاصل ہے اور پرائیویٹ طور پر کوئی فرد یا ادارہ اس کا مجاز نہیں ہے۔
دور غلامی میں اس اصول پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا تھا اس لیے کسی شرعی بیت المال کی عدم موجودگی کے باعث مفتیان کرام نے مسلمانوں کو یہ حق دے دیا کہ وہ پرائیویٹ طور پر خود زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرلیں یا کوئی ادارہ اس غرض سے کام کر رہا ہو تو وہ اپنی زکوٰۃ اس کے سپرد کر دیں تو ان کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ اب ظاہر بات ہے کہ یہ جواز عبوری دور کے لیے ہے اور اسے مستقل نظام نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے جب بھی اسلامی نظریاتی حکومت قائم ہوگی اور بیت المال وجود میں آئے گا تو ’’اموال ظاہرہ‘‘ کی زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے خرچ کا جو آزادانہ سسٹم کام کر رہا ہے اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔
میرے خیال میں ان دو مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہم نے دور غلامی میں بہت سے اسلامی احکامات و قوانین کے سلسلہ میں جو تحفظات اختیار کیے تھے وہ نفاذ اقتدار کے دور میں ہمارا ساتھ نہیں دیں گے اور ہمیں بہرحال ان سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
دوسری گزارش ہے کہ میں نے کسی نئی تعبیر کی بات نہیں کی بلکہ میں تو گزشتہ تعبیرات کی طرف واپس لوٹ جانے کی بات کر رہا ہوں۔ اور گزشتہ سے بھی میری مراد دو چار صدیاں نہیں بلکہ اسلامی نظام کے ایک شعوری کارکن اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ و احیا کے لیے ہمیں قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کے اصل سرچشموں کی طرف واپس جانا ہوگا۔ کیونکہ انسانی معاشرت کو جن اجتماعی مسائل کا آج کے دور میں سامنا ہے اور گلوبلائزیشن کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی انسانی سوسائٹی کو جو فکری، علمی اور عملی ضروریات درپیش ہیں ان کی تکمیل صرف اور صرف ’’قرن اول‘‘ کی راہنمائی میں کی جا سکتی ہے۔ اور اصل سرچشموں کی طرف واپس لوٹ کر ہی ہم اسلامی نظام کا کوئی ایسا ڈھانچہ سامنے لانے کی پوزیشن میں ہوں گے جو آج کے تمام نظاموں اور فلسفوں سے آگے بڑھ کر گلوبلائزڈ ہیومن سوسائٹی کی قیادت کا علم بلند کر سکتا ہے۔